کوئی ابہام نہ رہے
ہندوستان اپنے جاسوس کلبوشن یادیو کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف میں لے گیا۔ پاکستان کے اکثر چیلنز نے پاکستان کے وکیل کو دلائل دیتے ہوئے دکھایا اور اسکے بعد میڈیا مبصرین نے پاکستانی موقف کے حق میں پروگرام کئے۔ کہا گیا کہ پاکستان نے عالمی عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرکے زبردست حکمت عملی اپنائی ہے۔ خاور قریشی جسکا تعلق ایک برطانوی قانونی فرم سے ہے انکی بھی خوب ستائش ہوئی اور یہاں تک کہا گیا کہ انہوں نے صرف50 منٹ میں ہندوستان کے موقف کے پرخچے اڑا دئیے۔ یہ سب چرچا اگلے دن بھی جاری رہا۔ لیکن جب فیصلہ آیا تو وہ بظاہر ہندوستان کے حق میں تھا۔ پھر کیا تھا ساری اپوزیشن سیاسی قیادت اور انکا حامی میڈیابغلیں بجانے لگا اور حکومت پر ٹوٹ پڑا۔ وکیل صاحب ایک جونیئر مگر بہت مہنگے وکیل ہوگئے۔ پاکستان کا موقف کمزور ہوگیا۔ پاکستان کے عالمی عدالت میں جانے کو بھی غلط فیصلہ قراردے دیا۔ عمران خان تو ہر بات میں وزیرا عظم کو ذمہ دار بناڈالتے ہیں فرمایا یہ جنڈال کے ساتھ طے ہوگیا تھا کہ کمزور وکیل اور موقف اپنایا جائے تا تاکہ کلبوشن بچ جائے۔وزارت خارجہ کی نااہلی کا بھی رونا رویا گیا۔ لیکن ایک تبصرہ نگار نے بہت زبردست بات کی کہنے لگے یہ سب باتیں اگر یہ لوگ ایک دن پہلے یعنی فیصلہ آنے سے پہلے کررہے ہوتے تو میں انکو ولی مان لیتا! بہرحال یہ سب شوروغوغا جاری تھا کہ ایک گرجدار آواز گونجی’’کلبوشن یادیو ہندوستان کا جاسوس ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلا رہا تھا وہ پاکستان کے قانون کے مطابق ہی انجام کوپہنچے گا‘‘ یہ آواز وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب کی تھی۔ یہ وہی چوہدری نثار صاحب ہیں جنہوں نے ISPR کی ڈان لیک کے حوالے سے ایک غیر ضروری Tweet کے بعد فوراً ردعمل دکھایا تھا اور کہا تھا اداروں کے درمیان رابطے Tweetکے ذریعے نہیں ہوتے یہ جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت بھی ساری اپوزیشن یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ وزیرا عظم کی اتھارٹی بالکل ختم ہوچکی ۔لیکن چوہدری نثار نے وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کچھ اس طرح معاملات طے کروائے کہ نہ صرفTweetواپس لیا گیا بلکہ وزیراعظم کو فائنل اتھارٹی بھی تسلیم کیا گیا جوکہ یقینا جمہوریت کیلئے نیک شگون ہے۔ یہ وہی چوہدری نثار ہیں جنکے بارے میں خورشید شاہ وزیراعظم نوازشریف کو آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ یہ آپکی آستین کا سانپ ہے اس سے بچ کر رہیں کسی وقت بھی ڈس لے گا ۔چوہدری نثار 35 سال سے نوازشریف کے اتنا ہی قریب ہے جتنا کہ آستین کا سانپ ہوسکتا ہے لیکن ڈستا صرف اسکو ہے جو نوازشریف پر بُری نظر ڈالے۔ چوہدری نثار یقینا وزیراعظم نوازشریف اور ن لیگ کے لئے بہت بڑا اثاثہ ہیں اور بگڑتے ہوئے معاملات کو سنبھالنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔
اب ذرا دیکھتے ہیں عالمی عدالت انصاف میں کیا ہورہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کا موقف کیا ہے۔ اب تک کیا ہوا ہے اور آگے کیا امکانات ہیں۔
ابتدائی سماعت میں ہندوستان نے موقف اختیار کیا کہ کلبوشن یادیو ہندوستان کا عام باشندہ ہے جو ایران میں کاروبار کرتا ہے اوراسکو پاکستانی ایجنسیوں نے ایرانی بلوچستان سے اغوا کرلیا۔ اسکو ہندوستان کے قونصلر سے ملنے کا موقع نہیں دیا۔ اس پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا اور صفائی کا موقع دئیے بغیر موت کی سزا سنادی۔ ہے۔ ہندوستان نے عدالت سے بھی استدعا یہ کی کہ اسکی پھانسی کو رکوایا جائے۔دوسری استدعا کے بار ے عام طور پر میڈیا میں کہا جارہا ہے کہ ہندوستان نے درخواست کی کہ اسکو قونصلر تک رسائی دی جائے۔ لیکن محترمہ عاصمہ گیلانی نے اپنے انٹرویو میںبتایا ہے کہ ہندوستان نے قونصلر تک رسائی نہیں مانگی بلکہ یہ کہا ہے کہ کیونکہ یادیو کو قونصر تک رسائی نہیں دی گئی ، صفائی کا موقع نہیں دیا گیا اور مقدمہ فوجی عدالت میں چلا اس لئے اس ساری کاروائی کو کالعدم قرار دیا جائے۔ سماعت میںپاکستان کا موقف یہ تھا کہ یہ مقدمہ عالمی عدالت انصاف کے دائر ہ اختیار Jurisdiction میں نہیں آتا۔
عالمی عدالت کے دائرہ اختیار کا تعین ایسے ہیں کہ رکن ممالک نے معاہدہ پر دستخط کررکھے ہیں کہ ہم دوسرے ممالک کے ساتھ تنازعات میں عالمی عدالت کے دائرہ اختیار کوتسلیم کریں گے لیکن سب نے کچھ معاملات کا اعلان بھی کررکھا ہے کہ ان معاملات پر ہم عالمی عدالت کے اختیار کو تسلیم نہیں کریں گے۔ پاکستان نے جن معاملات پر عالمی عدالت کے اختیار کو نہ ماننے کا اعلان کررکھا ہے ان میں وہ معاملات بھی ہیں جن سے پاکستان کی سیکورٹی کو خطرہ ہو۔ موجودہ کیس میں ہندوستان کا ایک حاضر سرو س نیول آفیسر پکڑا گیا جو پاکستان میں نہ صرف جاسوسی کررہا تھا بلکہ دہشتگردی کا بڑا نیٹ ورک بھی چلا رہا تھا لہٰذا یہ یقینا پاکستان کی سیکورٹی کا معاملہ ہے دوسری طرف ہندوستان جن معاملات میں عالمی عدالت کے دائرہ ا ختیار کو تسلیم کرتا نہیں کرتا ان میں ایسے تنازعات شامل ہیں جہاں دوسرا ملک دولت مشترکہ کا رکن ہو۔ اس لحاظ سے بھی چونکہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کومن ویلتھ (دولت مشترکہ ) کے رکن ہیں یہ معاملہ عالمی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ۔ ہندوستان یہ موقف اپناکر ایک دفعہ فائدہ بھی اٹھا چکا ہے۔ 1995 میں ہندوستان نے پاکستان کا ایک طیارہ مارگرایا۔ پاکستان یہ معاملہ عالمی عدالت میں لے گیا لیکن ہندوستان نے عدالت کے دائرہ اختیار کو یہ کہہ کر تسلیم نہ کیا کہ یہ دودولت مشترکہ کے رکن ممالک کا معاملہ ہے اور عالمی عدالت نے ہندوستان کے موقف سے اتفاق کرکے مقدمہ نہ سنا۔ اب بھی یہ مقدمہ اسی بنا پر عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیا رمیں نہیں آتا۔
قونصلر تک رسائی کے معاملے میں پاکستان کا موقف ہے کہ جاسوس اور دہشتگرد کو قونصلر تک رسائی نہیں دی جاسکتی ہے۔ پاکستان کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یادیو جاسوس اور دہشتگرد ہے امور خارجہ کے مشیر جناب سرتاج عزیز نے بھی اس معاملہ پر میڈیا کے لوگوں کو آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی سماعت کیلئے ہمیں صرف5 دن ملے تھے ۔ اس لئے ہم ایڈہاک جج مقرر نہ کرسکے۔ وکیل کے بارے انکا کہنا تھا کہ اسکا چنائو سب کے مشورہ سے ہوا تھا۔ درحقیقت آرمی چیف جنرل باجوہ بھی اپنی ایک تقریر میں بتاچکے ہیں کہ وکیل کے تقرر میں آرمی کا بھی مشورہ تھا۔ لہٰذا اس مفروضہ میں کوئی جان نہیں کہ وزیر اعظم نے جان بوجھ کر کمزور وکیل کا تقرر کیا۔ سرتاج عزیز نے یہ بھی کہا کہ اب ایک بڑی قانونی ٹیم بنائی جائے گی۔ تمام متعلقہ اداروں سے مشورہ ہوگا اور ہم پوری تیاری سے اس مقدمہ کو لڑیں گے۔ اس مقدمہ میں ا بھی یہ فیصلہ بھی ہونا ہے کہ عالمی عدالت کا دائرہ اختیار (Jurisdiction ) بھی ہے یا نہیں ۔ ہمیں اس مقدمہ کے ذریعہ صرف عدالت کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو بتانا ہے کہ ہندوستان کس طرح ہماری سیکورٹی کے لئے خطرات پیدا کررہا ہے۔
ہمارے پاس کیا آپشنز موجود ہیں ؟ اس سوال پر عاصمہ گیلانی نے بہت اچھا جواب دیا کہ وکلا اور ملکوں کے پاس اور ملکوں کے پاس ہر وقت مقدمات میں آپشنز موجود ہوتے ہیں لیکن انکو میڈیا میں سامنے لانا کوئی عقلمندی نہیں ۔ جو بھی لیگل ٹیم بنے اسکو ان پر غوروفکر کرنا ہے۔ پاکستان کے عوام کو امید رکھنی چاہئے کہ فیصلہ دائرہ اختیار (Jurisdiction)پر ہی ہوجائے گا۔ لیکن اگر مقدمہ چلا تو کلبوشن یادیو کو جاسوس اور دہشتگرد ثابت کرنے کیلئے بہت ثبوت موجود ہیں۔ پاکستان کی فوجی عدالتیں پارلیمنٹ سے منظور شدہ آئینی عدالتیں ہیں اوران کے فیصلے باقاعدہ سماعت کے بعد ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر عدالت ہندوستان کی استدعا قبول کرکے اس کاروائی کو کالعدم قرار دیتے ہے تو ہمارے پاس آپشن ہوگا کہ ہم اس فیصلہ کو قبول نہ کریں۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ امریکہ نے پیراگوئے ۔میکسیکو نے جرمنی کے مجرموں کو اپنی عدالتوں کے حکم پر سزائے موت دی تھی جبکہ عالمی عدالت نے ان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی طرح ایران امریکہ تنازعہ میں بھی ایران نے اپنے خلاف آنے والے فیصلہ کو تسلیم نہ کیا تھا اور اگر قبول کرکے دوبارہ مقدمہ بھی چلائیں تو بھی فیصلہ پاکستان کی عدالت سے ہی ہوگا کوئی ابہام نہ رہے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کلبوشن یادیو پاکستان کے قانون کے خلاف ہی انجام کو پہنچے گا۔
مجھے خدشہ ہے ہندوستان چاہتا ہے اس معاملے کو طول دے تاکہ وہ پاکستانی ریٹائر کرنل جس کو اس نے نیپال کے سرحدی علاقے سے اغوا کیا ہو اہے کو جاسوس ظاہر کرکے مقدمہ چلا سکے اور اس کے بعد بارگیننگ کی کوشش کرے۔ اسی لئے پاکستان نے عالمی عدالت کو درخواست دی ہے کہ اس مقدمہ کی کاروائی جلد مکمل کی جائے۔