بلوچستان : مصالحت کا متقاضی

Mar 29, 2025

نسیم احمد


    نسیم گْل خٹک

11 مارچ 2025 کی شام تک پورے ملک میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر مشکاف کے علاقے میںپانیر اور پیشی کے درمیان واقع ٹنل کے اندر حملہ کر دیا گیا ہے۔ ریلوے حکام کے مطابق جعفر ایکسپریس صبح تقریبا 9 بجے کوئٹہ سے پشاور کے لئے روانہ ہوئی تھی جس میں 450 مسافر سوار تھے۔ دوپہر 2 بجے اطلاع ملی کہ ٹرین پر حملہ ہو گیا ہے۔بعد ازاں سرکاری اعلان ہوا کہ فوج اور سیکیورٹی اداروں نے آپریشن شروع کر دیا ہے۔ اس کے بعد متضاد خبروں نے گردش کرنا شروع کر دیا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ بشیر لبریشن آرمی  نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ بلوچستان میں پوری ٹرین پر حملے کے بعد قبضہ کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ متاثرہ ٹرین میں بڑی تعداد میں فوج اور اس سے منسلک شعبوں کے اہلکار بھی موجود تھے۔بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کو چھوڑ دیا گیایا چھڑا لیا گیا اور پھر آپریشن ختم بھی ہو گیا مگر بہت سا خون بہنے کے بعداور پتہ نہیں یہ خون کتنا اور کب تک بہتا رہے گا۔ بعد ازاں حکومت نے اعلان کر دیا کہ آپریشن مکمل ہو گیا ہے، مسافروں کو چھڑا لیا گیا ہے اور دہشت گردوں کا صفایا کر کے علاقے کو کلیئر کر دیا گیا ہے مگر تا دم تحریر اس بات کو گزرے دن ہو گئے ہیں لیکن کوئٹہ سے اندرون ملک کے لئے ٹرین سروس ابھی تک شروع نہیں ہو سکی ہے۔بلوچستان میں خونریزی بلا تاخیر بند ہونی چاہئے کیونکہ ریاست اور عوام کے درمیان لڑی جانے والی جنگ سے ملکی سالمیت کو کیا پیغام ملتا ہے۔ ظلم اور جبر سے عوام کا استحصال کرنے والوں کو جواب میں عوامی نفرت اور انتقام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذرا سوچیں توکہ عالمی سطح پر دہشتگرد ممالک کی فہرست میںہمارا نمبر دوسرا ہے مگر اربابِ اختیار کو اس بات کی ذرہ بھر بھی پروا نہیں ہے۔ اسی لئے تو مصالحت کی بجائے کچلنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ذرا پرویز مشرف کو ہی یاد کر لیں جو امریکہ کے خوف ، تابعداری اور ذمہ داری میںاس قدر آگے نکل گیا تھا کہ پاکستان کی سرزمین ہی امریکہ کے حوالے کر دی۔ افغان مسلمانوں کا قتلِ عام کروانے کے لئے امریکہ اور مغربی افواج کو اپنی نگرانی میںدھڑا دھڑ اسلحہ اور جنگی ساز و سامان پہنچاتا رہا اور یوں خود اور اپنے ٹولے کو ?? لاکھ مسلمانوں کے خونِ نا حق کا مجرم بنا دیا۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر اسلام کو پسِ پشت ڈالنے کی ناپاک جسارت کی۔ اس بات سے عوام میں شدید اشتعال پھیل گیاکیونکہ مسلمان کا جینا مرنا سب اللہ کے دین اسلام کے لئے ہے۔ عوام نے نعرہ لگایا کہ سب سے پہلے اسلام لہٰذا پرویز مشرف کو دْبکنا پڑا۔ پاکستان کے نام پر عوام کا خون بہانا فرعون کا طرزِ عمل ہے جو ہر سال دریائے نیل کی آڑ لے کر انسانوں کو قربان کرتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ قربانی اس لئے ضروری ہے تاکہ دریائے نیل قائم رہے اور بہتا رہے۔ عوام خوفزدہ رہیں تاکہ میری حاکمیت قائم رہے اور میرا ظلم بھی جاری رہے۔ لہٰذا جو بھی خونریزی اور طاقت کے استعمال کی بات کرتا ہے تو سمجھ لو کہ پاکستان کی جڑ کاٹ رہا ہے۔ ذرا یاد کریں جب پرویز مشرف نے نواب محمد اکبر بگٹی کو قتل کروا کے بلوچ عوام کو اپنا دشمن بنایا۔ آج بلوچستان میں جو تاریکی چھائی ہے اس میں ایک بڑی وجہ نواب اکبر بگٹی کے چراغ کو بجھانا بھی ہے۔ بلوچی عوام میں اْن کا اثر و رسوخ بہت ٹھوس تھااس لئے خونریزی کو فورا بند کیا جائے، ملک کے نام پر خونریزی کسی صورت جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس روئے زمین پر سب سے مقدس مقام کعبۃاللہ ہے اور اللہ فرماتا ہے کہ بے شک میرے نزدیک ایک انسان کی حْرمت کعبہ کی حْرمت سے زیادہ ہے۔ لہٰذا معاملات کو جوش سے نہیں بلکہ ہوش اور حکمت سے حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تنازعہ کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ مسئلہ صوبہ بلوچستان کی عوام کا ہے.'' لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام''  بلوچستان کا مسئلہ خون خرابے سے حل نہیں ہو گا بلکہ مزید گھمبیر اور خطرناک ہو جائے گا۔ویسے بھی تنازعہ صریحا آپس کا ہے جس کا راستہ درحقیقت مصالحت ہی ہے اور اسی راستے پہ چل کر ہم امن حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس خونریزی کی طرف بڑھنے والے ہر قدم کے نیچے بارود ہی ہو گا۔

مزیدخبریں