
پاکستان کو اس وقت داخلی مسائل کے علاوہ معیشت کی بحالی کا سامنا ہے ، ریاست میں بڑھتے ہوئے انتشار اور انتہاپسندی نے دہشت گردی کے علاوہ معاشرے میں ایک خلیج پیدا کر دی ہے۔ حکومتی سطح پر انتہا پسندی سے نمٹنے کا ابھی تک کوئی منصوبہ یا اقدام نظر نہیں آرہا۔ لگتا ہے کہ ریاست کی گرفت کمزور ہاتھوں میں ہے ۔ بظاہر مجموعی طور پر معاشرہ شدت پسندی کا شکار ہو تے ہوئے تقسیم در تقسیم ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سینیٹ کے اجلاس میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ عدلیہ سمیت ہر ادارہ تقسیم ہو گیا ہے ۔ ملک کے آئین و قانون کی پاسداری اور احترام ہر ادارے اور ہر سیاسی قیادت پر لازم ہے۔ لوگوں کے جتھے بلا کر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر یلغار اور ان جتھوں کی حمایت سے عدالتوں کا مذاق اڑانا اور پھر جمہوریت کی بحالی کا نعرہ لگانا انتہائی افسوس ناک اور تشویش کا باعث ہے ۔ اسلام آبادکی عدالت میں دائر دہشت گردی کے پانچ مقدمات میںلاہور ہائیکورٹ نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کی جو کہ عدالتی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے میں آیا۔
عوام مہنگائی اور سیاسی چپقلشوں کی وجہ سے ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہیں ، معاشرے کو تقسیم کرنے والے عناصر ہر گھڑی منفی رجحانات پر مبنی اپنے قول عمل سے عوام کو گمراہ کر کے ملک میں انتشار برپا کر رہے ہیں۔ اقتدار کے بھوکے ملکی سلامتی کے درپے ہیں۔ عہدِ رفتہ میں سیاسی جدوجہد کے دوران ہزاروں سیاسی کارکنوں کو قید وبند کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ جنرل ضیاءالحق کے دور میں صحافیوں ، سیاسی، مذہبی اور سماجی کارکنوں کو کوڑے بھی مارے گئے، شاہی قلعہ اور ملک کی متعدد جیلیں بھر دیں گئیں۔ ملک بدری بھی ہوئی لیکن کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے کسی غیر ملک یا اقوامِ متحدہ سے رجوع کرنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ یہ ہمارے ملک کا اندرونی معاملہ تھا۔ ایسے معاملات کو حل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا ادارہ ہے جہاں تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں کے نمائندے بیٹھ کر معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرتے ہیں ۔
لیکن ’جہاں پناہ‘جن سے سارا جہاں پناہ مانگتا ہے اور جو اپنی ذات میں محبوس رہتے ہیں وہ نہ تو اسمبلیوں کو مانتے ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی لیڈر سے ملنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے باوجود الیکشن الیکشن کھیلنے کا بڑا شوق ہے ۔ اپنے دورِ اقتدار کی کارگردگی پہ نظر ڈالیں ۔ اگر ایک دو ماہ اور رہ جاتے تو ملک دیوالیہ ہو جانا تھا۔ جہاں پناہ، ہم آپ کے غلام ہیں کہ جو آپ کہیں گے وہ ہم مان لیں گے۔ جہاں آپ سے پناہ مانگتا ہے۔ آپ نے ہی راولپنڈی کے جلسے میں کہا تھا کہ ہم اس کرپٹ سسٹم کا حصہ نہیں بنیں گے اور آپ نے دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرا دی تھیں ۔ اسمبلیاں تحلیل کروا کر سسٹم کو برا بلا گردان کر پھر الیکشن میں جانے کاکیا مقصد ہے ،یہ سراسر ملکی معیشت کو ڈبونے کے ہتھکنڈے ہیں ۔ جہاں پناہ، آپ کی جماعت کے چند کارکن گرفتار کیا ہوئے کہ ان کی گرفتاری پر آپ کی جماعت نے اقوامِ متحدہ کے نمائندہ¿ خصوصی کو خط لکھ دیا جو کہ انتہائی معیوب عمل ہے ۔ وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے عمران خان کے حق میں زلمے خلیل کے بیان اور اور بیرونی مداخلت پر اپنے بیان میں کہا کہ سمجھ نہیں آتا کہ کیوں حکومتِ پاکستان ایک فرد کے انفرادی بیانات کا جواب دے ۔ بیرونی مداخلت اور بیانات پاکستان کے جمہوری عمل کو متاثر نہیں کر سکتے۔
جہاں تک جمہوری عمل کا تعلق ہے تو یہ عمل بیرونی کم اندرونی شاطروں سے زیادہ متاثر ہوتا رہا ہے لیکن کسی سیاسی جماعت کا بیرونی اداروں کو خطوط لکھنا جگ ہنسائی اور ملک کی بدنامی ہے اوراگر عزائم ہی ملک کو کمزور کرکے معیشت تباہ کرنے کے ہوں تو جمہوری عمل متاثر ہونے کے علاوہ اداروں کا تقسیم ہونا توجہ طلب ہے ۔ ملک میں جاری بحران جہاں پناہ کی مرہونِ منت ہے جو کہ نوجوان نسل کو تشدد اور لغویات کی طرف مائل کرکے ملک میں انتشار پھیلانے کے مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ ملک کے اداروں آئین اور قانون کا احترام ہر پاکستانی شہری پر فرض ہے۔ لوگوں کے جتھوں کے بل بوتے ملک میں انتشار پھیلانا اور اسے عوامی حمایت سمجھتے ہوئے کہنا کہ آپ ملک کے سسٹم کو ناکارہ بنا دیں، اداروں کے اعلیٰ افسران اور ملازموں کو یہ کہہ کر دھمکیا ں دیں کہ پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیوںمیں ملوث ہر افسر سے ساری عمر حساب لیا جائے گا۔ ایسے خیالات ملکی اداروں اور ملک دشمنی کے غماز ہیں۔
بیرونی مداخلت اندرونی منفی منشا سے تواتر سے ہو رہی ہے۔ امریکی رکن کانگریس نے بھی موقع ضائع نہیں کیا اور ایسی نصیحت داغ دی جیسے وہ ملک پاکستان کی صدر ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز عدم تشدد اور برداشت کے اصولوں پر عمل کریں۔ سب کو جمہوری اصولوں کا احترام کرنا چاہیے۔ رکن کانگریس ٹیڈلو کے اس بیان پر دیکھیں وزارتِ خارجہ کی طرف سے کیا جواب آتا ہے لیکن ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناتے ٹیڈلو سے یہی سوال ہم کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جاری انتشار کس کی منشا پر کیا جارہا ہے۔ اگر واقعی آپ کو پاکستان میں سیاسی کشیدگی اور تشدد کا ادراک ہے تو انتشار پھیلانے والوں کو عیاں کریں۔ سرِ دست ملکی صورتحال معاشی اور سیاسی ابتری کی شکار ہے ، ملک میں قیادت کا فقدان ہے ، ملکی اداروں پر دانستہ انگشت نمائی کرنا ، تفرقہ بازی ، بہتان طرازی سے ملکی ساکھ کو شدید خطرات پیدا ہو گئے ہیں ، سوشل میڈیا پر پاک فوج اور آرمی چیف کے خلاف مہم ایک مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کی جارہی ہے۔