
’نوائے وقت‘ پاکستان کا سب سے معتبر اور مقبول ترین اخبار ہے جسے فیملی اخبار ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اشاعت کا آغاز 23مارچ 1940ءکو کیا۔ یہی وہ دن ہے جب لاہور کے منٹو پارک میں قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی ۔ اخبار کی حیثیت حاصل کرنے سے پہلے ’نوائے وقت‘ ہفت روزہ کے طور پر شائع ہوتا تھا۔ بعدازاں حمید نظامی مرحوم نے اسے اخبار کا درجہ دیا۔ اس کی اشاعت کا پہلا مرکز اور صدر دفتر لاہور تھا۔ بعد میں ’نوائے وقت‘ نے کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی اور ملتان سے بھی اپنی اشاعت شروع کی۔ اپنی بے مثال اور شاندار روایات کے ساتھ اب یہ اپنی 83ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ’نوائے وقت‘ کے راستے میں بہت سی مشکلات اور بہت سے کٹھن مراحل بھی آئے لیکن ’نوائے وقت‘ استقامت کے ساتھ ہر مشکل اور کٹھن گھڑی سے گزر گیا۔ ’نوائے وقت‘ نے صرف مقتدر حلقوں ہی نہیں، عوام الناس میں بھی اپنی الگ شناخت اور پہچان بنائی۔ منوایا کہ وہ اسکینڈلز پر یقین نہیں رکھتا بلکہ سچائی کا منفرد علمبردار ہے۔
حمید نظامی کی رحلت کے بعد اخبار کی ادارت کی اہم ذمہ داری مجید نظامی کے حصے میں آئی۔ انھوں نے اخبار کی ادارت سنبھالی اور اسے ملک کا مقبول ترین اخبار بنا دیا۔ نوائے وقت کو ہر مکتب فکر میں بڑے شوق اور انہماک سے پڑھا جاتا ہے۔ خصوصی طور پر سنجیدہ طبقات میں بے حد مقبول ہے۔ اس کی شہرت و مقبولیت اور پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ صدر پاکستان سے لے کر وزیراعظم تک کے زیر مطالعہ رہتا ہے۔ صوبائی سطح پر بھی اس کی خبروں اور ایڈیٹوریل پیج کو بہت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ سرکاری سطح پر جس خبر، اداریہ یا کالم کا نوٹس ضروری ہو، فوری لے لیا جاتا ہے۔ حل طلب امور پر جتنی جلدی ممکن ہو، کارروائی بھی عمل میں آتی ہے۔ نوائے وقت گروپ آف پبلی کیشنز کے زیر اہتمام ایک انگریزی اخبار ’دی نیشن‘ کے علاوہ دو ہفت روزہ اور ایک ماہنامہ بھی شائع ہوتا ہے۔ہفت روزہ جرائد میں ’ندائے ملت‘ اور ’فیملی میگزین‘ شامل ہیں جبکہ بچوں کے لیے ماہنامہ ’پھول‘ شائع کیا جاتا ہے۔
نوائے وقت کو یہ اہمیت اور فوقیت حاصل ہے کہ اس میں چھپنے والی خبریں کو پوری تحقیق اور صحافتی اسلوب اور تقاضوں کے عین مطابق اس طرح شائع کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والوں کو یقین ہوتا ہے کہ جو پڑھ رہے ہیں اس میں ایک پرسنٹ بھی جھوٹ شامل نہیں۔ ’نوائے وقت‘ کی سب سے الگ بات یہ ہے کہ آج تک اس کے قارئین نہیں ٹوٹے۔ ملک سے باہر بھی ’نوائے وقت‘ اپنی الگ شناخت اور پہچان رکھتا ہے۔ چند سال پیشتر یونان میں متعین پاکستانی سفیر کے متعلق اپنے کالم میں کچھ حقائق بیان کیے تو کالم چھپنے پر سفیر محترم نے اظہارِ تشکر کیا۔ کرائم پر مبنی ایک کالم کی اشاعت پر آئی جی پنجاب نے ناصرف نوٹس لیا بلکہ معاملے کی صاف و شفاف تحقیق اور انکوائری کے لیے ڈی آئی جی انسپکشن اینڈ ڈسپلن پنجاب ملک یوسف کو مامور کر دیا۔ دیگر اخبارات کو چھوڑنے کے بعد جب میرا ناتا ’نوائے وقت‘ سے جڑا تو بطور کالم نویس میری تمام معتبر حلقوں میں شناخت اور پہچان بنی۔ سچائی یہ بھی ہے کہ مجید نظامی کی رحلت کے بعد محترمہ رمیزہ نظامی جب سے ’نوائے وقت‘ کی ایڈیٹر بنی ہیں اخبار کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ انھوں نے اخبار اور گروپ کی دیگر پبلی کیشنز پر خصوصی توجہ دی ہے۔ گروپ کے تمام شعبوں کو زیادہ بہتر اور فعال بنانے کے لیے ان کی انتھک محنت، کوشش اور جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
کسی بھی اخبار کا ایڈیٹوریل پیج اس کی پالیسی کا آئینہ دار اور عکاس ہوتا ہے۔ نوائے وقت کی ایڈیٹوریل پالیسی ہمیشہ سے غیر جانبداررہی ہے۔ جو سچ ہوتا ہے اسے لکھا اور بیان کیا جاتا ہے۔’ نوائے وقت‘ کا غیر جانبدار ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ سچ پر یقین رکھتا ہے۔ اس نے ہر دور میں کلمہ¿ حق کہا ہے۔ حمید نظامی مرحوم اور مجید نظامی مرحوم کی ہمیشہ ایک ہی ڈائریکشن رہی کہ اخبار کو غیر جانبدارانہ خطوط پر چلایا جائے۔ نوائے وقت نے کبھی لگی لپٹی سے کام نہیں لیا۔ جابر حکمرانوں کے سامنے ہمیشہ کلمہ¿ حق کہا۔ ’نوائے وقت‘ سے جڑا ایک او ر نام بھی بڑا معتبر اور مستحسن ہے ، وہ نام ہے محترم سعید آسی کا۔ وہ صحافت کی ایک طویل تاریخ ہیں۔ ’نوائے وقت‘ سے وابستہ ہوا تو میرا پہلا واسطہ انھی سے پڑا۔ آپ ’نوائے وقت‘ کے انچارج ایڈیٹوریل پیج ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ۔ لکھتے ہیں تو اپنی تحریر میں ہر طرح کی منظر کشی کر دیتے ہیں۔ ان سے بہت کچھ سیکھا ہے، سیکھ رہا ہوں۔ آسی صاحب کا کوئی بھی کالم یا تحریر نظر سے گزرتی ہے تو میرے لیے معلومات اور تحریر کی چاشنی کے کئی در کھول دیتی ہے۔
آزادی کی تحریک میں ’نوائے وقت‘ اور نظامی خاندان نے جس طرح اپنا کردار ادا کیا اسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس اخبار کو اپنے پڑھنے والوں میں جو قدرو منزلت اور مقبولیت حاصل ہے وہ کسی اور کا نصیب نہیں۔ ایک بار سفر میں تھا تو میری ساتھ والی سیٹ پر جو صاحب براجمان تھے وہ ایک ایڈیشنل سیشن جج تھے۔ ڈائیوو کا سفر تھا جو لاہور سے ملتان کے لیے ہو رہا تھا۔ یہ صاحب اس وقت مظفر گڑھ میں ایڈیشنل سیشن جج کی پوسٹ پر فائز تھے۔ بعد میں ہائیکورٹ کے جج بھی بنے۔ انھوں نے ہوسٹس سے ایک اردو اخبار طلب کیا۔ یہ اخبار میرا بھی فیورٹ تھا۔ میں نے جج صاحب سے پوچھا، ’کیا یہ آپ کا فیورٹ اخبار ہے؟‘ جج صاحب گویا ہوئے،’نہیں، میرا فیورٹ اخبار تو نوائے وقت ہے جو میرے گھر آتا ہے۔ اسے پڑھ کر آ رہا ہوں۔‘ خوشی محسوس کرتا ہوں کہ میری وابستگی ’نوائے وقت‘ کے ساتھ ہے جس پر مجھے بجا طور پر ناز ہے۔