
ہم سب پاکستانی ہیں ہمیں اس پر فخر ہے ہیمں کوئی کتنا ہی برا بھلا کہے وہ بھی ہمیں وطن دشمن نہیں کہہ سکتا اس کے باوجود ہمارے اندر جب چند لوگ ازخود ملک کو بدنام کرنے کے لئے منفی پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے بہت دکھ ہوتا ہے۔ سیاست اپنی جگہ ملک و قوم کی حرمت اپنی جگہ۔ پیٹ سے کپڑا نہیں اٹھاتے اس سے اپنی ہی بدنامی ہوتی ہے۔اس وقت ہماری سیاست میں جو گندا کھیل کھیلا جا رہا ہے ایک دوسرے کی ذات اور گھر بار پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے اس کی وجہ سے کتنی تلخی پیدا ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔ عوام سیاست سے اور سیاست دانوں سے متنفر ہو رہے ہے۔ کیونکہ وہ اسے برا سمجھتے ہیں۔ ملک کے اندر اس حد تک پھیلی انارکی اور گندگی تو قابل برداشت ہو سکتی ہے مگر یہ جو اب ایک نئی بدعت ہمارے ہاں رواج پا رہی ہے کہ باہمی اختلافات اور انتشار کے سبب پیدا ہونے والی حالات اور واقعات پر دنیا کے دیگر ممالک کو مداخلت کرنے کے خطوط لکھنا یہ بہت افسوس ناک طرزعمل ہے۔ دنیا میں شاید کہیں ایسا ہوتا ہے۔جن ممالک نے ایسی احمقانہ حرکت کی ان کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ ہماری ایک سیاسی جماعت جو اس وقت ملک کی سب بڑی مو¿ثر جماعت بن چکی ہے مگر نجانے کیوں اس کے عہدیداروں میں ابھی وہ سیاسی بلوغت پیدا نہ ہو سکی جو ایک بڑے سیاستدان کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے حوالے سے کہا جا سکتا وہ 50 برس کی عمر کے بعد وہ سیاست میں آئے مگر یہ جو پی ٹی آئی کے باقی رہنما ہیں ان کو کیا ہوا وہ تو سب دوسری سیاسی پارٹیوں میں اپنی جوابی صرف کر کے پی ٹی آئی میں آئے ہیں۔ ان کی تو مسلم لیگ‘ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی میں اچھی خاصی تربیت ہو چکی ہے۔ وہ کیونکہ اچانک اتنے جذباتی ہو گئے کہ وہ سیاسی ہنگامہ آرائی اور حکومتی اداروں کی طرف سے جوابی ردعمل پر اتنے بھڑک اٹھے ہیں کہ انہوں نے براہ راست بڑے بڑے یورپی ممالک اور سب سے بڑھ کر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک کو لکھا ہے کہ وہ حکومت پاکستان پر دبا و¿ڈالے اور ہمارے خلاف پولیس ایکشن اور کارکنوں کی گرفتاریاں روکنے کہا کہا جائے۔ یہ خط شیریں مزاری اور اسد قیصر جیسے جہاندیدہ رہنما و¿ں نے لکھے جو نہایت افسوس کی بات ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان میں کسی غیر ملکی مداخلت کے خلاف ہےپھر یہ دعوت کیوں دی جا رہی ہے جو واضح طور پر ”ہم کوئی غلام ہیں“ کے نعرے کی نفی ہے جو امریکہ اور ایک ادارے کے خلاف گھڑا گیا۔ اگر پاکستان خدانخواستہ اتنا ہی گیا گزرا غلام ہوتا تو آج ہم چھٹی ایٹمی طاقت نہ ہوتے ہمارے میزائل پروگرام سے سریح الحرکت مضبوط فوجی طاقت سے دشمن یوں پریشان نہ ہوتے۔ یہ کوئی سازش تو نہیں کہ اسی ادارے کے خلاف ایک مکروہ پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے جو وزیرستان سے لے کر بلوچستان تک قدم قدم پر ملک دشمنوں کے خلاف نبرد آزما ہے۔ جس کے سپوت ہر محاذ پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ اب اس ملکی وحدت کے حساس ادارے کو بدنام کرنے اسے کمزور کرنے کی سازش کہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور میزائل پروگرام کو روکنے کی خاطر تو نہیں رچائی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی محب وطن جماعت ہے اس کے قائدین بھی پاکستانی ہیں تو پھر یہ غیر ممالک کو خطوط کیوں بھیجے جا رہے ہیں۔ فوج کے خلاف ایک منفی جذبات فضا کیوں پیدا کی جارہی ہے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں اگر یہی مخالفانہ مہم کالعدم تنظیموں کی طرف سے چلائی جا رہی ہوتی وہ دوسرے ممالک کو خط لکھتے تو کیا ہمارے مقتدر ادارے ٹھنڈے پیٹوں اسے برداشت کرتے نہیں ایسا نہیں ہوتا۔
اس کےساتھ اب عمران خان نے جس طرح اپنے جلسوں پر لاٹھی چارج آنسو گیس کے استعمال پر ملکی میڈیا اور عالمی میڈیا پر حالات کو مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مشابہہ قرار دینا شروع کیا ہے یہ کیسی غیر سنجیدہ سیاست ہے۔ شاید انہوں نے ایوب خان کے خلاف بھٹو کے خلاف‘ ضیائ الحق کے خلاف چلنے والی سیاسی تحریکوں کا مشاہدہ اور مطالعہ نہیں کیا۔اگر وہ ان تحریکوں پر نظر ڈالیں تو جو کچھ ان کے ساتھ ہوا یہ تو ان تحرکیوں میں روا رکھے جانے والے مظالم کا عشر ے عشیر بھی نہیں۔ ہم جیسے لوگ جنہوں نے وہ دور دیکھا ہے جانتے ہیں کہ لاٹھی چارج کسے کہتے ہیں۔ آنسو گیس کی بوچھاڑ کیا ہوتی ہے اور گولیاں کس طرح جسموں کو چھلنی کرتی ہیں۔ مار پیٹ اور تشدد کیا ہوتا ہے جیلوں سے کیا مراد لیا جاتاہے۔خان صاحب کو فرینڈلی پولیس ملی ہے۔ عدالتوں سے فوری ریلیف بھی مل جاتا ہے۔ وہ جلوس لے کر عدالتوں کا رخ بھی کرتے ہیں ان کے کارکن ہزاروں پولیس والوں کی دوڑیں بھی لگا دیتے ہیں غلیل اور پتھرا و¿ سے پولیس کی بکتر بند گاڑیاں بھی الٹ دیتے ہیں۔ جلاو¿ گھیرا و¿ بھی کرتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کرنے کی کشمیر اور فلسطین کے جوانوں کو اجازت ہے۔ کیا وہ اس طرح مقبوضہ کشمیر و فلسطین میں کر سکتے ہیں۔ ایسی سطحی باتوں سے تو۔ ان کے تحریک آزادی کی توہین ہوتی ہے۔ جو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کرسی کے حصول کی تگ و دو میں مصروف نہیں۔ جو کچھ وہاں کی فوج اور پولیس کر رہی ہے اگر اس کا صرف پر تو ہی ہمارے ہاں نظر آئے تو ہمارے بڑے بڑے سیاسی رہنما اور کارکن توبہ تائب ہوتے نظر آئیں۔ اس لئے انہی سیاسی جدوجہد کا موازنہ کشمیر و فلسطین کی آزادی کی تحریکوں اور ان کی جدوجہد سے کر کے انکی حیثیت کم نہ کریں وہ سیاست کی جنگ نہیں لڑ رہے اس سے صرف بھارت کو موقع مل رہا ہے اس کا میڈیا ملکی اور عالمی سطح پر پاکستان کے حالات کی منفی تصویر کشی کر کے پاکستان کو بدنام کر رہا ہے ایسی باتوں سے اجتناب ضروری ہے۔ عمران خان ایک قومی لیڈر ہیں وہ جب بات کرتے ہیں تو دنیا سنتی ہے۔ انہیں کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے ملک کی بدنامی ہو یا سبکی ہو ....