
ان دنوں پاکستان کی سرزمین دہشت گردی ،شدت پسندی اور خودکش حملوں کی زد میں ہے ۔ اسلام کی رو سے شدت پسندی ،خون ریزی اور خود کش حملے فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں اور قطعی طورپہ ناجائز اور حرام ہیں۔ نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کے استعمال کے ذریعے ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی کو قومی اور ملی جرم قرار دیاگیا ہے۔ یہ فتویٰ تقریباً5سال قبل ملک کے 1829 نامور اور مختلف مکتب فکر کے علماءکرام نے متفقہ طور پر دیا تھا جسے ’پیغامِ پاکستان‘ کا نام دیا گیا ۔ 1973ءکے آئین کے بعد پیغامِ پاکستان ایک ایسی دستاویز بن کے سامنے آیا جس میں قومی اور مذہبی اتفاق رائے سے طے کیا گیا کہ سر زمین پاک اللہ تعالیٰ کی مقدس امانت ہے، اس کا چپا چپا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ریاست پاکستان کو ودیعت کردہ اقتدارِ اعلیٰ کا امین ہے، اس لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سر زمین دہشت گردی کے فروغ، اس کی فکری و عملی تیاری ، دہشت گردی کے لیے بھرتی اور مسلح مداخلت جیسے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ پیغامِ پاکستان ملکی تاریخ کی ایک اہم ترین دستاویز ہے۔ اس دستاویز میں مختلف مکاتب فکر کے علماءنے یہ فتویٰ بھی دیا کہ جہاد کا وہ پہلو جس میں جنگ اور قتال شامل ہیں اسے شروع کرنے کا اختیار صرف اسلامی ریاست کا ہے اور کسی شخص یا گروہ کو اس کا کوئی اختیار حاصل نہیں، لہٰذا کوئی بھی گروہ حق نہیں رکھتا کہ ریاست کے ہوتے ہوئے مسلح جدوجہد کو جہاد کا نام دے، ایسے اقدامات سراسر بغاوت تصور ہوں گے۔
سینٹر فار یسرچ اینڈ سکےورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے مطابق، گزشتہ سال پاکستان میں 506دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں اور دہشت گردی کے ان واقعات میں زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی۔ افغانستان میں سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد اور تحریک طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جنوری 2023ءپشاور میں پولیس لائنز جامع مسجد میں ایک خودکش دھماکہ ہوا جس میںتقریباً©© 100سے زیادہ افراد شہید ہوئے ۔ اسی طرح کراچی پولیس ہیڈکواٹرز میں بھی خودکش حملہ آوروں کے حملے سے 4 افراد شہید ہوئے جن میںپولیس سویلین اور رینجرز کے اہلکار شامل تھے۔ پولیس اور رینجرز نے مشترکہ آپریشن کرتے ہوئے حملہ کرنے والے تینوں دہشت گرد حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا ۔علاوہ ازیں، حالیہ دنوں میں جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈا میں پاک فوج اور دہشت گردوں کے مابین فائرنگ کاتبادلہ ہوا جس میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی شہید ہوئے جبکہ ان کے دو ساتھی شدید زخمی ہوئے۔
حال ہی میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور سیکرٹری خارجہ اسد مجید خان کے ساتھ کابل میں افغانستان کا دورہ کیا۔ پاکستانی وفد نے افغان نائب وزیراعظم ملاعبدالغنی بردار سے ملاقات کی جس میں تجارتی و سکیورٹی مسائل زیرِ غور آئے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں جہاں سے دہشت گرد پاکستان آ کر کارروائیاں کر کے بارڈر پار افغانستان فرار ہو جاتے ہیں۔ طالبان حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ افغان حدود میں ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں کو تلف کیا جائے گا۔ افغان طالبان نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ اس سلسلے میں فوری کام شروع کردیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ طالبان حکومت افغانستان میں کتنا اثر رکھتی ہے۔ طالبان حکومت کو ابھی تک کسی بھی بین الااقوامی طاقت نے براہِ راست تسلیم نہیں کیا اور انھیں اندرونی چیلنجوں کا سامنا بھی ہے۔ ٹی ٹی پی کے تقریباً 10 ہزار دہشت گرد بلوچستان اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں جو مختلف گروہوں کی شکل میں حملہ کر کے روپوش ہو جاتے ہیںاس لیے افغان طالبان کے لیے مشکل ہو گی کہ وہ کوئی بڑ ی کارروائی کر سکیں۔ پاک فوج نے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام تو مکمل کر لیا ہے لیکن کچھ علاقوں میں افغان سکیورٹی فورسز نے باڑ کو کاٹ دیا ہے جس کی وجہ سے دہشت گردوں کا پاکستان میں داخل ہونا آسان ہوگیا ہے۔ باجوڑ اور شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پہلے جیسا کنٹرول تو ان دہشت گرد گروہوں کے پاس نہیں لیکن پھر بھی ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کی ضرورت ہے۔
ملکی سالمیت اور امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لیے سیاسی قیادت کی یہ بنیادی ذ مہ داری ہے کہ وہ ایک پےج پر اکٹھی ہو اور اس عمل میں بلاشبہ حکومتِ وقت کو مفاہمت کی فضا کو فروغ دیتے ہوئے دہشت گردی جیسے خطرناک مسئلے کے حل کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ذمہ داری لینی چاہیے ۔ دہشت گردی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اتنا سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی جتنا سنجیدہ اسے ہونا چاہیے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر بھی کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام شراکت داروں کو قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا لیکن اس حوالے سے حکومتی پالیسیوں میں ابہام اسی لیے ہے کہ سیاسی جماعتیں اہم قومی معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں اور سیاسی عدم استحکام نے امن و امان کی صورتحال اور معاشی حالات کو سنگین کر دیا ہے۔ اس حوالے سے حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنما ﺅں میں تشویش پائی جاری ہے کہ آل پارٹیز کا نفرنس میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے۔ پولیس لائنز واقعے کے بعد وزیراعظم نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکومتی رہنماﺅں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان پر مشتمل ا یپکس کمیٹی کا ایک اجلاس پشاور میں طلب کیا لیکن اس سلسلے میں اسلام آباد میں ہونے والا دوسرا اجلاس اب تک التوا کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آل پارٹیز کا نفرنس کا دوسرا اجلاس بلا کر دہشت گردی کے خلاف نیا ایکشن پلان ترتیب دے تاکہ دہشت گردی جیسے ناسور سے چھٹکارا پایا جاسکے۔