
رم دھان نہیں رمضان اور مہنگائی نہیں برکت
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
میں نے جب سے ہوش سنبھالا
ہے ہر سال آمد رمضان المبارک پر مہنگائی ایسے گھس کر اٹیک کرتی ہے جیسے ہم کوئی مملکت اسلامیہ نہیں بلکہ سرحد پار کی کوئی صیہونی ریاست ہیں۔ میرے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے محب وطن ،چھوٹے بڑے تاجران، آمد رمضان المبارک سے دو تین ماہ قبل ہی ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں جس سے مارکیٹوں اور بازاروں سے کھانے پینے اور روزمرہ کی اجناس کی قیمتوں میں گراں قدر اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے، جس کے اثرات عیدالفطر کے کئی ہفتے بعد تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ بچپن سے اپنے آبا سے سنتے آئے ہیں کہ اس با برکت مہینے میں شیطان کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے مگر ہم نے تو پوری زندگی یہ دیکھتے گزاری ہے کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اوس پڑوس کی غیر مسلم ممالک سے بھی شیاطین کی ایک بڑی تعداد درآمد کی جاتی ہے جو ہم پاکستانیوں کی جیبیں اور گلے کاٹتے تھکتے نہیں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے متعدد ہم وطن رمضان المبارک میں چیئریٹی، صدقات و زکوٰة اور دیگر حوالوں سے عطیات کی بارشیں برسا دیتے ہیں مگر زکوٰة و عطیات کو تقسیم کرنے کا ہزاروں سال پرانا اور فرسودہ نظام ان فوائد کو مستحقین تک پہنچانے سے قاصر ہے جس کے لئیے حکومتی سطح پر جدید ویلفیئر ریاستوں سے سسٹم کے متعلق استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مقدس و مبارک مہینے کے شروع ہونے سے دو چار ہفتے پہلے ہی یورپ و نارتھ امریکہ کے ممالک میں رمضان المبارک کے احترام میں سپر سٹورز اور گروسری کے مقامی اور انٹرنیشنل برانڈ مارکیٹیں اپنی قیمتوں میں ایک خوش کن حد تک کمی کا اعلان اپنے سٹور کے فلائیرز اور آن لائن کر دیتے ہیں جب کہ ہم مسلمان بھائیوں کے لیے رمضان المبارک کے احترام میں بیس سے پچاس فیصد کمی کا اعلان کرتے ہیں۔میں آج ہی پاکستان سے سوئٹزر لینڈ آیا ہوں۔میں ایک سپر سٹور پر گیا تو وہاں خصوصی رعایت برائے مسلم کے بورڈ آویزاں تھے۔یہ رعایت بیس سے پچاس فیصد تک تھی۔جس سے صرف اور صرف مسلمان ہی استفادہ کررہے تھے۔غیر مسلم اس طرف قطعی طور پر راغب نہیں ہوتے۔میں پاکستان سے روانہ ہوا تو چار لوگ مفت آٹے کے حصول کیلئے کوشش کرتے ہوئے مارے گئے تھے سستے آٹے کے حصول کیلئے دنگا فساد ہوتا ہے۔حکومت کو عوام کی مشکلات کا احساس ہوا تو سستے اور مفت آٹے کی سکیم شروع کردی مگر انسانوں کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ حکومت ریاست کو کنٹرول کرتی ہے۔اس کے پاس ہر شہری کا مکمل ڈیٹا کیوں نہیں ہے۔یونین کونسل لیول پر لسٹیں کیو ں مرتب نہیں کی گئیں جن سے پتہ چلے کہ کونسے لوگ سستے آٹے اور کون مفت آٹے کا مستحق ہے۔راشن ان لوگوں کی دہلیز پر پہنچانا حکومت کا فرضِ اولین ہونا چاہیے۔اس آٹے کے بارے میں شکایت ہے کہ غیر معیاری ہے بلکہ کچھ تو اسے باسی بھی قرار دے رہے ہیں اور پھر آٹا دینے سے قبل شناختی کارڈ بھی مانگا جارہا ہے جو ممکنہ طور پر جعلی ووٹ کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
قارئین میں بذات خود ایسا پچھلے چالیس سال سے ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں جبکہ انہی ممالک میں آباد ہمارے مسلمان بھائیوں کے گروسری اسٹورز پر رمضان المبارک سے وابستہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر کے اپنے پاکستانی اور مسلمان ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ میں کم از کم پچھلے دس سال سے کینیڈا کے شہر ٹورنٹو اور مسی ساگا میں ”اقبال حلال گروسری سٹور“ کا بنظر جائزہ لے رہا ہوں جو ایک بھارتی گجرات کے ایک بظاہر مسلمان کی ملکیت ہے مگر رمضان المبارک کی برکات سمیٹنے کی دوڑ میں سب سے آگے پایا جاتا ہے ( اللہ پاک اس کے رزق میں اضافہ اور ہوس زر میں کمی فرمائیں۔آمین ) قارئین رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ممی ڈیڈی گروپس کی طرف سے رمضان المبارک کو خصوصا بگاڑ کر ”رم دھان المبارک “ لکھا اور پکارا جاتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ہر جگہ، ہر موقع پہ اپنی انفرادیت اور ایلیٹ طبقے سے خود کو جوڑنے کے کمپلیکس میں ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کا نام یا تلفظ نہ تو انگلش ہے نہ یورپیئن۔ تو پھر ہمیں الباکستان نہیں پاکستان لکھنا اور بولنا چاہئیے ، ہماری مقامی زبان پنجابی اور قومی زبان اردو کے کسی بھی تلفظ کو بگاڑنے سے آپ یورپی اور امریکن نہیں بن جاتے۔ ایسا ہی گزشتہ چند مہینوں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری زبان میں لفظ ” ترکی“ ہے جسے کچھ اینکر حضرات محض خود کو سامعین سے مختلف ثابت کرنے کے لئیے ” ترکیہ“ بولنے اور لکھنے لگے ہیں حالانکہ سینکڑوں سال سے ترکی کی اپنی زبان میں اور تلفظ میں اسے ترکیہ ہی پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔ جس طرح پچھلے ورلڈ کپ فٹ بال میں ” قطر“ ایک دم ”قطار“ بنا دیا گیا۔ خدارا اپنی پہچان اپنی ثقافت اور اپنی ماں بولی کو چند یورپ و امریکن زدہ غلام ابن غلاموں کی بھینٹ مت چڑھائیے کیوں کہ منہ بگاڑ کے کچھ بولنے سے آپ امریکن نہیں ہوسکتے !نقل میں ہمارے ممی ڈیڈی اور برگر گروپ بھارت کو آئیڈیل بنائے بیٹھے ہیں۔جہاں یہ اردو میں بات چیت کے دوران ہندی الفاظ کا استعمال کرنے لگے ہیں وہیں انڈین طرز کی انگریزی کی بھی نقل کرتے ہیں۔اگر لفظ بڑا یا گھڑی رومن انگلش میں لکھنا پڑے تو © © © ©”ڑ“ کو ڈی یا ڈبل ڈی سے لکھتے ہیں۔
قارئین مسئلہ تلفظ یا لکھنے یا پڑھنے کا نہیں بلکہ مسئلہ ہماری رگوں کے اندر رچ بس گئے اس کمپلیکس کا ہے جو ہمیں خود کو کمتر اور دوسروں کو افضل بنا کر پیش کرتا ہے اور یہی حال پاکستان میں مہنگائی کا ہے اور اس حوالے سے مجھے ایک واقعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا یاد آرہا: انہوں نے ایک چیونٹی سے پوچھا کہ تمہیں آنے والی پوری سردیوں کے لیے کتنا زرق درکار ہے تو اس نے کہا کہ دو دانے چاول مجھے سردیو ں کے لیے کافی ہوتے ہیں۔مگر جب سردیوں کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام اس کے سوراخ کے قریب سے گزرے تو انہوں نے دیکھا کہ ابھی ایک دانہ اس کے پاس بچا پڑا ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی سے پوچھا کہ تم نے تو کہا کہ میں دو دانوں میں سردیاں گزاروں گی۔ میں نے دیکھا کہ سردیاں گزر گئی ہیں اور تمہارے پاس ایک دانہ پڑا ہوا ہے۔تو چیونٹی نے عرض کی اے خدا کے رسول کیونکہ اس بار مجھے ایک انسان نے خوراک فراہم کی تھی۔اور مجھے نہیں یقین کہ وہ مجھے آئندہ بھی دے پائے گا۔اس لیے میں نے ایک دانہ آئندہ آنے والوں ب±رے دنوں کے لیے رکھا ہے۔
اس عظیم واقعہ سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم انسانوں کو بھی ب±رے وقت کیلئے کوئی بندوبست کرنا چاہئے۔