پیر ‘ 14 شعبان المعظم 1442ھ‘ 29؍مارچ 2021ء

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں لفظوں کی جنگ تیز
سینٹ میںاپوزیشن لیڈر کی انتخابی مہم نے تو پی ڈی ایم کی جہاں کمرتوڑ کر رکھ دی یا اس کے تابوت میں آخری کیل جو ٹھونکنی تھی ٹھونک دی۔ مگر اس کے ساتھ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان جو لفظی گولہ باری شروع ہوئی ہے اس میں بھی شدت آئی ہے۔ اطلاع یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے لیے جو نام پی پی نے بھیجا اس پر 30 ارکان کے دستخط تھے مسلم لیگ (ن) نے جو بھیجا اس پر 21 کے دستخط تھے۔ مگر مسلم لیگ ن بضد تھی کہ معاہدے کے مطابق ہمارا بندہ اپوزیشن لیڈر بنے۔ شاید لیگ والے آصف زرداری کی پچھلی واردات بھول گئے تھے جب انہوں نے کہا تھا کہ ’’معاہدے کوئی حدیث نہیں ہوتے‘‘ بہرکیف اب زخم چاٹتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نے بلاول کو نشانہ بنایا اورکہا کہ چھوٹے عہدے کے لیے جمہوری جدوجہد کو نقصان پہنچایا۔ باپ کے لوگوں نے باپ کے کہنے پر ووٹ دیا۔ بلاول نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) والے حوصلہ رکھیں پانی پئیں۔ ’’باپ‘‘ بلوچستان عوامی پارٹی کا مخفف ہے۔ وہ کیسے بنی کس کے اشارے پر بنی سب کو پتہ ہے۔ اب اسے سیاست میں طنزیہ علامت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ورنہ سب جانتے ہیں کہ ہماری سیاست میں کوئی ڈیڈی کہہ کر آیا۔ کوئی روحانی باپ کی مدد سے آیا کوئی سیاسی باپ کی انگلی پکڑے آیا۔ مگر جو بدنامی اب ’’باپ پارٹی‘‘ کے حصے میں آ رہی ہے اس سے حالات مزید خراب ہوں گے اور مسلم لیگ (ن) اپنی زبان کے ہاتھوں کھڈے لائن لگتی چلی جائے گی اور باپ کے کہنے پر باپ والے پیپلز پارٹی کو باپ کی بیعت پر یا اس کے ساتھ تعاون آمادہ کر لیں گے۔
٭٭٭٭٭
پاکستان توڑنے کی کوشش میں جیل جانا پڑا: مودی کی بکواس
فکر کی کوئی بات نہیں۔ اب جلدہی مودی جہنم رسید بھی ہونے والے ہیں۔ کیونکہ ان کی عمر واصل جہنم ہونے کے قریب ہے۔ جس مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سازش میں مودی نے بھی حصہ ڈالا تھا‘ جس پر وہ فخر بھی کر رہے ہیں۔ آج اسی بنگلہ دیش میں مودی کا استقبال جوتوں اور پتھروں اور گالیوں سے ہو رہا ہے۔ اس کے پتلے جلائے جا رہے ہیں۔ وہاں کے مسلمان مودی کے ناپاک وجود کو اپنی دھرتی پر برداشت نہیں کر رہے۔ مودی کی بنگلہ دیش کے قیام کی 50 ویں سالگرہ پر بنگلہ دیش آمد کے موقع پر بنگالی مسلمانوں نے مختلف شہروں میں گائے ذبح کرکے مودی کے خلاف شدید احتجاجی مظاہرہ کرکے اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کیا۔ اس دوران کئی افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ اس کے باوجود مظاہرے جاری ہیں۔ حکومت نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے پابندیاں لگا دی ہیں کہ وہ یہ خبریں نہ دیں۔ اپنا اس طرح نفرت انگیز استقبال دیکھ کر تو مودی بھی سوچتا ہوگا کہ اس نے یہ گناہ کیوں اپنے سر لیا۔ یہ تو حسینہ واجد کی حکومت نے اسے حفاظتی حصار میں رکھا ہے ورنہ اگر مودی بنگالی عوام کے ہاتھ چڑھتے تو وہ ان کو بھی بھارت میں غریب بھارتی مسلمانوں‘ بنگالیوں‘ میانمار کے مسلمانوں کے قتل عام کے غصے میں کاٹ کر رکھ دیتے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں میڈل لیتے ہوئے مودی کا چہرہ خوشی سے زیادہ ذلت آمیز سلوک کی وجہ سے سرخ نہیں‘ سیاہ ہو رہا ہوگا۔
٭٭٭٭٭
امین گنڈاپور کے کم عمر بیٹے کی پراڈو چلانے کی ویڈیو وائرل
اگر کوئی عام آدمی قانون شکنی کرے تو ہمارا قانون فوری حرکت میں آتا ہے۔ یہی کام کوئی خاص آدمی کرے تو ہمارا قانون آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ آنکھوں‘ کانوں اور منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے بند کرنا ہمارے ہاں عام ہے۔ پچھلے ماہ اور فروری میں لاہور میں کم عمر بچوں کی گاڑیاں چلانے کی دو ویڈیوز پر خوب ھلہ گلہ ہوا۔ پولیس نے پھرتیاں دکھائیں۔ قصور وار پکڑے گئے ۔ لوگوں نے ایسی غلط حرکات کی خوب مذمت کی۔ اب امین گنڈا پور اپنے مصاحبین کے ہمراہ جس طرح کچی سڑک پر اپنے چھوٹے سے کم عمر بیٹے کو بلیک پراڈو چلاتا دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ اس ویڈیو پر مقتدر حلقے (قانون نافذکرنے والے) دیکھتے ہیں اب دم بخود رہتے ہیں یا ایکشن لیتے ہیں۔ ویسے گنڈاپور بھی کمال کے شخص ہیں وہ کوئی بھی چمتکار دکھا سکتے ہیں۔ جس طرح انہوں نے شراب کو تیل اور شہد میں تبدیل کر دیا تھا اب بچے کو بھی یکدم جوان دکھا سکتے ہیں یا خود اس کی جگہ ڈرائیونگ کرتے نظر آ سکتے ہیں۔ ایک 8 یا 10 سالہ بچے کو اتنی بڑی اور قیمتی گاڑی چلانے دینا بذات خود خطرناک کام ہے کسی وقت بھی حادثہ ہو سکتا ہے۔ اوپر سے اس بچے کو گاڑی چلاتا دیکھ کر خوش ہونا نہایت افسوسناک ہے۔ اگر ہمارے وزیر ، مشیر ، امراء متمول لوگ ہی ایسی حرکات کریں گے تو پھر کسی اور سے شکوہ کرنا کیسا۔ عام لوگ بھی تو ان کو دیکھ کر ہی رنگ پکڑتے ہیں ان کی ہی نقالی کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
اشفاق گروپ نے فیفا نارملائزیشن کے عہدیداروں کونکال کر دفتر پر قبضہ کر لیا
یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جہاں فٹبال کا کھیل نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ محکمہ کھیل اور حکومت کی بے اعتنائی ہے۔ ایک وقت تھا یہ کھیل پورے پاکستان میں مقبول تھا۔ اچھے اچھے کھلاڑی دستیاب تھے پھر نااہل انتظامیہ اور لوٹ مار کرنیوالوں نے اس کھیل کا مستقبل بھی تاریک کر دیا۔ اس کے بعد فٹبال فیڈریشن میں مختلف دھڑوں کی باہمی چپقلش نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ یہ جو کراچی میں فٹبال کے کچھ ہیرے چمک رہے ہیں، ان کو تراشنے میں نجی طور پر کھیلنے والوں اور ان کی تنظیموں کا بڑا ہاتھ ہے جو کم وسائل کے باجود اچھے لڑکوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں کھلاڑی بناتے ہیں جو اب عالمی سطح پر نہیں مگر ایشیائی سطح پر دھوم مچا رہے ہیں۔ کامیاب ہو کر لوٹتے ہیں۔ ورنہ اگر سرکاری فیڈریشنوں کا حال دیکھیں تو شرم آتی ہے۔ کھیلوں کی سرکاری تنظیمیں اب سرکاری دفاتر پر قبضے کے لیے وہ طریقہ اختیار کر رہی ہیں جو بدمعاش اختیار کرتے ہیں۔ گزشتہ روز لاہور میں پاکستان فٹبال فیڈریشن کے اشفاق گروپ نے زبردستی حملہ کر کے فیفا نارملائزیشن کمیٹی کے عہدیداروں کو ان کے کمروں سے نکال کر دفاتر پر قبضہ کر لیا۔ دوسرے گروپ کے چیئرمین ہارون ملک کا کہنا ہے وہ مشکل سے جان بچا کر وہاں سے نکلے۔ یہ سب اپنی اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے اور فنڈز ہڑپ کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ حکومت اور محکمہ کھیل ایسے تمام عناصر کو فارغ کر کے وہاں میرٹ پر ایماندار افراد تعینات کرے اور ملک میں فٹبال کے کھیل کے فروغ کے لیے ایسے اقدامات کرے کہ یہ کھیل ایک بار پھر ملکی سطح پر مقبول ہو۔
٭٭٭٭٭