لائن آف کنٹرول پر فائر بندی

Mar 29, 2021

ڈاکٹر احمد سلیم

گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق 42 اور 52 کی درمیانی شب سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر ’’ فائر بندی‘‘ پر عمل درآمد کر دیا گیا۔مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک 2003ء میں ہونے والے فائر بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک حیرت انگیز بات جو اس مشترکہ علامیہ میں کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ’’ ڈائریکٹر جنرلز ‘‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کا باعث بننے والے ’’ بنیادی مسائل‘‘ حل کرنے کی کوشش کریں گے اور دیگر ایسے مسائل کا بھی دیکھیں گے جو امن تو تباہ کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان باتوں کو میں نے حیرت انگیز اس لیے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں بنیادی تنازعہ تو کشمیر ہی ہے اور ظاہر ہے کہ کشمیر پر بات چیت کم از کم ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز سے بہت زیادہ اونچے عہدے پر فائز افراد کر سکتے ہیں۔ اس بات سے شاید یہ اشارہ ملتا ہے کہ بظاہر تو یہ مشترکہ اعلامیہ دونوں ممالک کے DGMOs کی جانب سے جاری کیا گیا ہے لیکن در حقیقت دونوں ممالک میں اس سے بہت اونچے لیول پر بات چیت یا Contact ہوا ہے۔ بہر حال اگر ایسا ہے تو خطے میں امن کے لیے یہ ایک اچھی نوید ہے۔ کہیںبات چیت میں ہم کشمیر اور خاص طور پر کشمیر میںبھارت کے حالیہ اقدامات کو پس پشت نہ ڈال دیں۔اس کے علاوہ یہ دیکھنابھی ضروری ہے کہ آخر اتنی ’’ آکڑ خانی‘‘ دکھانے کے بعد مودی سرکار کو کس چیز نے پاکستان کے ساتھ بات چیت پر مجبور کر دیا؟
دراصل 2003ء کا ’’ فائر بندی ‘‘ کا معاہد ہ بھی بھارت نے 2001ء میں ’’آپریشن پراکرم‘‘ کی مکمل ناکامی کے بعد کیا تھا۔ لیکن ساتھ ہیبھارت نے پاکستان کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ کے لیے ’’ سندر جی ڈاکٹرائین‘‘ متروک کر کے ’’ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائین‘‘ تشکیل دی جس کے مطابق بھارت پاکستان پر حملے کا فیصلہ کرنے کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ایک سے زیادہ مقامات سے پاکستان کے اندر داخل ہوگا اور پاکستان کو دو سے زیادہ حصوں میں تقسیم کر دے گا۔ یہ ڈاکٹرائین تشکیل دینے والوں کا خیال ہے کہ اس طرح سے ایک تو عالمی طاقتوں کو بھارت کو ایسے کسی اقدام سے روکنے کی کوشش کرنے کا وقت نہیں ملے گا اور دوسرا چونکہ یہ بظاہر ایک برق رفتار اور ’’ مختصر‘‘ حملہ ہو گا اس لیے پاکستان کو مکمل جنگ یا ایٹمی آپشن استعمال کرنے کا جواز نہیں ملے گا۔ کاغذی طور پر تو بھارت کا یہ منصوبہ ایک شاندار منصوبہ لگتا ہے۔ لیکن یہ ’’ سنہری منصوبہ بندی ‘‘ کرنے والے ایک اہم بات نظر انداز کر گئے۔ وہ یہ کہ پاکستان کے پاس فوج بھی ہے۔ ان کے اس خواب کی تعبیر پاکستان میں گھس کر ’’ چائے‘‘ پینے تک محدود ہے لیکن اس چائے کا بل دو جنگی طیاروں کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔ دوسرا انڈین منصوبہ سازوں نے نہ جانے کیسے یہ فرض کر لیا ہے کہ خدانخواستہ ایسا کچھ ہوتا نظر آیا تو پاکستان اسے اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے ’’تمام آپشنز ‘‘ استعمال نہیں کرے گا۔  خیر بحث کے لیے فرض کر لیں کہ ایٹمی جنگ کی نوبت آ ہی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں سب سے اہم چیز ’’ سیکنڈ اسٹرائیک ‘‘ کی صلاحیت ہے۔ پاکستان کے پاس تو سیکنڈ اسٹرائیک کی صلاحیت بھی ہے مگر انڈیا کی سیکنڈ سٹرائیک کی صلاحیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان کے JF-17  اور ایف 16 طیارے  ایٹمی صلاحیت سے لیس اور تیار ہیں۔ ان کے پاس بموں کے علاوہ ہوا سے داغے جانے والے کروز میزائل ( رعد) بھی ہیں۔ ایک اور میدان جس میں پاکستان انڈیا سے بہت آگے ہے وہ ہے ’’ موبائل میزائل لانچر‘‘۔ پاکستان کے پاس بڑی تعداد میں ایسے موبائل لانچر موجود ہیں جن سے ایٹمی وار ہیڈ والے میزائل داغے جا سکتے ہیں۔ انڈیا نے اس قسم کے میزائل لانچر کا پہلا تجربہ 2015 کے شروع میں کیا تھا مگر انڈیا کے لیے یہ ابھی تجرباتی صلاحیت ہے اور انڈین فوج عملی طور پر یہ صلاحیت نہیں رکھتی۔  جہاں پاکستان نے ’’ نصر میزائل‘‘  اور چھوٹے ایٹمی ہتھیار (Tactical Nukes)خاص طور پر انڈیا کی ’’کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائین‘ ‘ کا توڑ کرنے کے لے ڈیزائین کیے ہیں وہاںکسی بھی ملک کے لیے سیکنڈ سٹرائیک کی صلاحیت کا ایک اور موٗثر ذریعہ سمندر میں موجود آبدوز ہوتی ہے۔ انڈیا کے پاس اس وقت ANS-Arihant نام کی ایٹمی آبدوز ہے لیکن سمندر سے سیکنڈ سٹرایئک کے لیے ابھی انڈیا کو مزید وقت درکار ہے اور اندازے کے مطابق انڈیا کو یہ صلاحیت مکمل طور پر کم از کم 2025ء میں حاصل ہو گی۔ انڈیا کی ایٹمی آبدوز میں جو ایٹمی انجن ہے اس قسم کے انجن بہت شور کرتے ہیں اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ ان میں دوران جنگ چھپنے (Stealth) کی صلاحیت محدود ہوتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی اگوسٹا 90۔بی ( ایس۔139 ۔حمزہ)  آبدوز ’’ ائیر انڈی پینڈنٹ پروپلشن ‘‘ (AIP) کی صلاحیت کی حامل ڈیزل الیکٹرک آبدوز ہے۔ یہ صلاحیت کسی آبدوز سے پہلا یا دوسرا ایٹمی حملہ کرنے کے لیے قلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ حتف۔7 میزائل ان آبدوزوں سے ایٹمی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان نے 2012ء  میں ’’ نیول سٹریٹجک فورس کمانڈ‘‘  (NSFC) کے قیام کا اعلان کیا تھا جو دراصل یہ اعلان تھا کہ پاکستان سمندر سے سیکنڈ سٹرائیک کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ہوائی افواج کی ایٹمی کمانڈ( AFSC) اور بری افواج کی ایٹمی کمانڈ(ASFC)الگ الگ ہے۔ یہ تینوں ایک مرکزی کمانڈ یعنی نیشنل کمانڈاتھارٹی ( NCA ) کے تحت کام کرتی ہیں۔
 ان حالات میں بھارت در اصل سمجھ چکا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مکمل جنگ خطے کے ساتھ ساتھ خود بھارت کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہو گی۔یہی وہ حالات ہیں جو بھارت کو ’’ فائر بندی‘‘ تک لائے ہیں اور جلد ہی بھارت باقاعدہ بات چیت پر بھی آمادہ نظرآئے گا۔اب گیند پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت پر کے کورٹ میں ہو گی کہ وہ ’’ چانکیہ پنڈت ‘‘ کی چال بازیوں سے بچے رہیں اور اس صورتحال کو زیادہ سے زیادہ پاکستان اور کشمیر کے حق میں استعما ل کر سکیں۔

مزیدخبریں