کرونا کے خلاف فرنٹ لائن فورس
آج ساری دنیا کرونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔عالمی ادارہ صحت کرونا کو ایک عالمی وبا قرار دے چکا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بیماری ایک عالمی خطرہ ہے۔ظاہر ہے کہ جس وائرس نے ساڑھے تین ارب انسانوں کو تین مہینوں میں گھروں میں محصور رہنے پر مجبور کر دیا وہ کس نوعیت کا چیلنج ہے۔ اس کا سب سے مشکل اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ کرونا وائرس کی ابتک نہ تو کوئی ویکسین ہے اور نہ ہی کوئی مستند علاج۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا مقابلہ کر نا کس قسم کی آزمائش ہے۔ سلام اور خراج تحسین ہے ڈاکٹروں اور طبی عملے پر جو ساری دنیا میں انسانی جان کو بچانے کے لئے دن رات میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ان کے پاس اس دشمن کو ختم کرنے یا فنا کرنے کا کوئی باقائدہ ہتھیار نہیں‘یہ بے تیغ سپاہی ہیں۔ کرونا کے مقابل سب سے موثر طریقہ یہی بتایا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کردیا جائے اور لوگوں کو گھر پر رہنے پر راضی یا مجبور کیا جائے۔جہاں تک ممکن ہو ایک دوسرے سے دور کردیا جائے۔ہاتھ بار بار دھوئے جائیںلیکن جب اس وبا کی علامت کسی مریض میں ٹیسٹ کے بعد مثبت پائی جاتی ہیں تو پھر اس وبا سے لڑنے کے لئے ڈاکٹر اور طبی عملہ ہی کام آتا ہے۔ہمارے جیسے ملک میں جس کی معیشت انتہائی کمزور ہے اوپر سے صحت کی سہولتیں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہیں۔یہاں پر اس فرنٹ لائن فورس یعنی ڈاکڑز اور طبی عملے کی ذمہ داریاں اور فرائض نبھانا کتنا کٹھن کام ہے، وہ شاید عام آدمی کے لئے سمجھنا ممکن نہ ہو۔اہسپتال اور بیڈز انتہائی ناکافی ہیں۔ماسک آرہے ہیں جبکہ وینٹی لیٹرز جو اس کے علاج میں ضروری ہیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ٹیسٹنگ کی سہولتیں محدود۔ تربیت یافتہ طبی عملہ کم ہونے کی وجہ سے موجود عملے پر کام کا بوجھ اتنا زیادہ کہ وہ دن،رات کام کر رہے ہیں۔ان کے لئے نیند لینا بھی ایک عیاشی بن گئی ہے جس کی ان کو فرصت نہیںلیکن یہی وہ مسیحا ہیں جن کی شکل اور موجودگی کرونا کے مریضوں میں وہ حوصلہ اور اعتماد پیدا کرتا ہے جس سے وہ بیماری کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں۔ چین،یورپ اور امریکا میں جو تعداد کرونا سے متاثرین کی سامنے آرہی ہے اس کو دیکھ کر جب اپنے ملک سے موازنہ کرتے ہیں تو حیرت اور خوشی ہوتی ہے۔اس میں بلاشک وشبہ کہ سارا کریڈٹ اس فرنٹ لائن فورس کو جاتا ہے جو اس دشمن کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔احتیاطی تدبیروں سے لیکر علاج تک سب انہیں کی ذمہ داری ہے۔حکومت بھی ان کی طرف دیکھ رہی ہے اور لوگ بھی اور فخر کی بات ہے کہ یہ اس امتحان میں پورے اتر رہے ہیںلیکن عوام اور حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فرنٹ لائن فورس کا اعتراف زبانی نہ رکھے۔ان کے لئے حفاظتی اقدامات،انشورنس،خصوصی الاؤنس۔کھانے پینے کی اسپتال میں سہولتیں اور ٹرانسپورٹ کا انتظام انتہائی مستند ہونا چاہیئے۔اگر کسی بھی مقام پر یہ تھک گئے یا مایوس ہوگئے تو پھر مقابلہ بہت مشکل ہوجائے گا۔ کرونا وائرس جیسی وبا ایک ہفتے یا ایک سال کے لئے نہیں ہؤتیں ان کے واپس آنے کے خطرات موجود ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ترقی پذیر ہمارے جیسے ملک میں جہاں پولیو،ملیریا اور ٹی بی جیسے مرض دوبار حملہ آور ہوچکے ہیں اور ہم اب پھر ایک مرتبہ ان سے نمٹ رہے ہیں۔ کرونا وائرس جیسے عالمی وبا یہ بارآور کرانے کے لئے کافی ہیں کہ کسی بھی ملک کے لئے صحت اور سوک نظام کتنا ضروری ہے۔یہ شوقیہ نہیں بلکہ لازمی ہوتا ہے۔پھر یہ کسی پر احسان نہیں بلکہ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔لوگوں کو بیماریوں سے محٖفوظ رکھنا۔ان کی صحت کا خیال رکھنا۔صفائی کی تربیت اور اس پر عمل کو ئی ہنگامی کام نہیں بلکہ یہ کسی بھی ملک میں سال بھر جاری رہنا چاہیئے۔اب ہمیں احساس ہونا چاہیئے کہ ہیلتھ کا بہترین نظام ملک و قوم کے لئے کتنا لازمی ہے۔قوم اگر صحت مند نہیں اور ہر آنے والی بیماری کے آگے مجبور ہوجائے تو وہ کیا پڑھے گی اور کیا لڑے گی۔جہاں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو ہم خراج تحسین پیش کر رہے ہیں وہیں پر یہ توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ سائنسی تحقیق اور ریسرچ کو جس بری طرح ملک میں نظرانداز کیا گیا ہے وہ زیادہ تر مشکلات کا باعث بناہے۔جدید ٹیکنالوجی کا طبی شعبے میں استعمال وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ہمیں یہ ضرور جاننا چاہیئے کہ چین جیسے بڑی آبادی والے ملک نے کس طرح سائنسی تحقیق اور ٹیکنالوجی کو استعمال کیا۔ انھوں نے آئی ٹی ٹیکنالوجی کا موثر استعمال کیا اور صرف کرونا وائرس سے متاثر افراد کو مصنوعی ذہانت پر مرتب سافٹ ویئرز کی بدولت ملک کے طول و عرض پر تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔ اسی طرح انہوں نے متاثرہ شہروں کو لاک ڈائون کیا اور وہاں کے طبی عملے اور ڈاکٹرز کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جس کے نتیجے میں وہ ایک محدود وقت میں بہتر نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ملکوں کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اپنے آپ کو تیار کرتے رہیں۔ ہر بار دوسروں کو مدد کیلئے دیکھنا یا امید لگانا اچھی بات نہیں۔ محدود وسائل میں بھی ریاستیں کسی بھی مشکل وقت کا مقابلہ جوش و جذبے سے کر سکتیں ہیں لیکن اس کیلئے پوری قوم کو ایک ہونا پڑتا ہے۔ وہاں کی سیاسی قیادت کو متحرک ہونا پڑتا ہے۔ تب ہی جاکر قومیں مشکل وقت یا حالات کا بہتر مقابلہ کر سکتیں ہیں۔ علاوہ ازیں لوگوں کو صحت اور اس میں صفائی اور احتیاط کی تربیت اور شعور بیدار رکھنا اب دنیا میں بہت آسان ہوگیا ہے کیونکہ اس کے لئے موبائل فون ہر ایک کے ہاتھ میں ہے۔ بس ڈاکٹر اور ماہرین کے مستند مشوروں سے اس کا موثر استعمال وسیع پیمانے پر کیا جا نا ایک قومی ضرورت بن گیا ہے۔