بقائے انسانیت پر ہمارے رویئے۔۔۔!
ویسے تو کورونا دنیا بھر سے 21ہزار سے زائد جانیں لے چکا ہے،لیکن ابھی تک اس کی پیاسی روح اپنے شکنجے پھیلائے ہوئے باقی ہے۔بلا لحاظ مذہب و ملت کورونا کا خوف طاری ہے،جو خوف خدا سے عاری تھے وہ بھی دہل گئے ہیں،لیکن کورونا نے ایک کام یہ بھی کیا ہے کہ انسانوں پر حملہ آور ہو کر ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔جو بے جا اختلافات،تنازعات کی وجہ سے بے یقینی کا شکار تھے،عدم تحفظ اور اندیشوں کے سائے میں زندگیاں گزاری جا رہی تھی،ہر سو نفسانفسی کا عالم اور انسانی اقدار کی پامالی نے انسان کو اکیلا کر کے رکھ دیا تھا۔کورونا نے تمام اختلافات،خدشات کو پسِ پشت ڈال کر بقائے انسانیت کی خاطر ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ہمارا رویہ دنیا سے مختلف ہے ،ہم ان حالات میں کیا کر رہے ہیں؟حکومت پر تنقید کہ وزیر اعظم کے دوست کے حکم پر زائرین کا ملک میں واپس آنا اور ان کو قرنطینہ سینٹر میں مقرر ہ وقت تک نہ رکھنا ،کورونا وائرس کے پھیلائو کا سبب بنا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاملے کی انکوائری ہونی چاہیئے اور جو بھی قصور وار ہے اسے سخت سزا بھی ملنی چاہیئے۔ہمیں ان کی حب الوطنی ،دیانتداری اور خلوص پر شک نہیں کرنا چاہیئے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے داری آئین و قانون کے مطابق وزیر اعظم اور ان کے رفقاء پر آتی ہے۔اس موقع پر حزب اختلاف کے بڑے قائدین نے نہایت مثبت سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے، حکومت سے تمام تر اختلافات اور تحفظات بالائے طاق رکھ کر کورونا وائرس کی وبا کے مقابلے پر ایک صف میں کھڑے ہونے کا اصولی فیصلہ کیاہے،جو کہ خوش آئند ہے،لیکن پھر بھی عمران خان فیصلہ سازی میں اتنے کمزور ہیں کہ ابھی تک کرفیو اور لاک ڈائون کی تشریح واضح نہیں کر سکے۔حالاں کہ حکومت سندھ نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے فیصلوں اور عملی اقدامات سے صورت حال واضح کر دی ہے اور بہت دبنگ اوردرست فیصلے کیئے ہیںجس کی وجہ سے سندھ حکومت نے کورونا جیسی وبا کا بخوبی مقابلہ کیا ہے،مگروزیر اعظم کی اس بات پر تحسین دینا چاہیئے کہ انہوں نے گمبھیر صورت حال سے نبٹنے کے لئے غلط فیصلے کرنے یا عجلت سے کام لینے کی بجائے محتاط رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ہر جانب سے عمران خان پر دبائو ہے کہ کرفیو لگانے کے احکامات دیئے جائیں،مگر عمران خان کا مؤقف ہے کہ اگر لوگوں کو زبردستی گھروں میں بند کر دیا،تو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگ جن کی ہمارے ملک میںکثیر تعداد ہے،وہ کورونا وائرس
سے شاید بچ جائیں مگروہ فاقوں سے مر جائیں گے۔اب وزیر اعظم نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں کہ ان غریبوں کو زندہ رہنے کے لئے خوراک مہیا کر سکیں ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔انہیں کورونا وائرس سے خطرہ نہیں بلکہ خوف میں آ کر غلط فیصلے کرنے کا خطرہ ہے۔یہ درست ہے کہ پاکستان پر اللہ کا ہمیشہ بڑا فضل رہا ہے،ابھی بھی دوسرے تمام ممالک سے پاکستان میںکورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کم ترین ہے ورنہ اٹلی اور پاکستان تقریباً پہلا کیس اوپر نیچے رہا ہے ،لیکن اٹلی میںآٹھ ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ہمارے نو اموات کی خبر ہے،لیکن اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ خزاں رسیدہ ہوائیں ہمارے ہاں بھی آ پہنچی ہیں ۔چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں ۔آزمائش کے سیاہ بادل چھا گئے ہیں،مگر وزیر اعظم کا یہ رویہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ پارلیمانی لیڈرز کا اجلاس ہوتا ہے اور وزیر اعظم اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔بچے بچے کو صورت حال کی سنگینی کا علم ہے ۔دنیا کے بڑے دشمن آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔کیا نا گہانی آفات کا مقابلہ اس انداز میں کیا جا سکتا ہے۔حیرت ہے کہ کون انہیں ایسا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔یہ رویے غلط ہیں،جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔عمران خان تحریک انصاف کے چیئرمین اور اسی پارٹی کے وزیر اعظم بن کر سامنے نہ آئیں بلکہ وہ پوری قوم کے وزیر اعظم بنیں ‘وہ وائرس کے خلاف جنگ کو لیڈ کر رہے ہیں ۔یہ عوام میں خوف کی آگ نہیں بلکہ حوصلے اور امید دینے کا وقت ہے۔ہمیں بھی من حیث القوم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔لاک ڈائون کا مقصد اسی وقت پورا ہوسکتا ہے جب عوام اس صورت حال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے حکومت اور اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ پورا تعاون کرے ۔یہ حفاظتی اقدامات عوام کی زندگیوں کے لئے ہی تو ہیں۔سب سے پہلے خراج تحسین کے مستحق وہ ڈاکٹرز،پیرا میڈیکل سٹاف ہیں جواپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صف اوّل پر کام کر رہے ہیں۔پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے لائق تحسین ہیں ۔جو دن رات کام کر رہے ہیں ۔اس لئے ہر فرد پر فرض ہے کہ وہ اپنی ،فیملی اور دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے کا سبب نہ بنے۔ہر ممکن کوشش کی جائے کہ گھروں میں رہا جائے۔ہاتھوں اور ارد گرد کے ماحول کی صفائی انتہائی ضروری ہے۔اپنے لباس،بستراور استعمال کی تمام اشیاء کو صاف رکھنے کا اہتمام کریں۔خاص طور پر اللہ بزرگ وبرتر سے کثرتِ استغفارکریں۔ہمیں اپنی غلطیوں پر نادم ہوکر اپنی اصلاح کرنے کا موقع مل رہا ہے،جسے فراموش نہ کریں۔صرف اللہ سبحان تعالیٰ کی ذاتِ واحد ہمیں اس وبا کے چنگل سے نجات دے سکتی ہے۔