وزیراعلیٰ کو باز پرس کرنا چاہیے
چند روز پہلے ایک اردو معاصر میں افسر نامی مخلوق کے عنوان سے کالم نظر سے گذرا تو مجھے اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد آگیا ۔ میں نے لکھا کہ اعلیٰ افسروں کی دو اقسام ہیں جس طرح کالم نگار نے افسر شاہی کی تصویر کشی کی میرے ساتھ بھی ہو بہو ایسا ہی ہو رہا ہے یہ دسمبر 2018 کی بات ہے لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق مجھے اپنی پینشن کی اپیل کے سلسلے میں اسپیشل سیکرٹری ہائر ایجوکیشن نے لاہور بلایا تھا ہائی
کورٹ نے سیکرٹیری ہائیر ایجوکیشن کو میری اپیل کا ایک ماہ میں فیصلہ کرنے کی بھی ہدایت کی تھی۔جب ہم سیکرٹیریٹ پہنچے تو ہماری ملاقات اسپیشل سیکرٹری ہو گئی خیر انہوں نے ہمیں حسب دستور چائے بھی پلائی اور ساتھ ہی کہا کہ انہوںنے چیف منسٹر کے ہاں میٹنگ کے سلسلے میں جانا ہے لہذا فراغت کے بعد اپیل کی سماعت کر لیں گے۔اس وقفے کے دوران میں اپنے ایک محترم دوست جو ان دنوں ہائی کورٹ کے جسٹس تھے ان سے ملاقات کے لئے چلا گیا۔جج صاحب پوچھنے لگے کیسے آنا ہوا تو میں نے انہیں بتایا کہ پنشن کی اپیل کے سلسلے میں آیا تھا ۔ تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد واپس سیکرٹیریٹ چلا گیا۔جب میں سیکرٹیریٹ پہنچا تو اسپشیل سیکرٹری میٹنگ سے فراغت کے بعد واپس آرہے تھے دیکھ کر کہنے لگے چلو آپ کا کیس سن لیتے ہیں۔چنانچہ پوچھنے لگے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں تو میں نے بتایا کہ جس آرڈننس کے تحت محکمہ تعلیم نے ہمیں ملازمت سے ڈسمس کیا ہے اور جو سکیشن لگائی گئی ہے وہ تو مجھ پر لاگو نہیں ہوتی ۔ جوابا کہا کہ آپ کیسے کہتے ہو۔ تو میں نے انہیںپیڈا ایکٹ کی سکیشن آٹھ اور نو پڑھنے کو کہا ۔ انہوں نے فور ی طور پر اپنے موبائل کا نیٹ آن کرکے پیڈاایکٹ کی وہ شک پڑھنی شروع کر دی۔پڑھنے کے بعدساتھ بیٹے ایک افسر سے کہنے لگے یہ تو درست کہہ رہا ہے آپ نے اسے غلط نکلا ہے اس کے بعد ہم نے انہیں سپریم کورٹ کے دو عدد فیصلے بھی اس سلسلے میں پیش کر دیئے۔سپریم کورٹ کے فیصلے پڑھنے کے بعد کہنے لگے آپ کے ساتھ تو زیادتی ہوئی ہے اس کے بعد کہا کہ آپ چلے جائیں میں آپ کا کیس سمجھ گیا ہوں۔قارئین جب اس بات کو ایک سال کا عرصہ گذر گیا تو اس دوران ہم نے اسپیشل سیکرٹری کی برادر نسبتی سے انہیں سفارش بھی کرا دی جن سے انہوں نے میری اپیل کا جلد فیصلہ کرنے کا وعدہ بھی کر لیا۔موصوف چونکہ ان دنوں گریڈ انیس میں کام کر رہے تھے لہذا ان کا نام نیپا کورس کے لئے آگیا اور وہ کورس پر چلے گئے لیکن اس دوران شام کو فائلوں پر احکامات بھی جاری کرتے رہے لیکن انہیں ہماری اپیل کا فیصلہ کرنے کی فرصت نہیں مل سکی۔ جب وہ نیپا سے واپس آئے تو نہیں سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کے عہدے کا چارج بھی دے دیا گیا۔جب ہماری اپیل کا پذیرائی نہ مل سکی تو دوستوں کے اصرار پر میں ایک روز لاہور چلا گیا تاکہ سیکرٹری صاحب سے مل کر ایک بار پھر گذارش کر سکوں کہ کچھ وقت نکال کر میری اپیل کا فیصلہ کر دیں۔ جب ہم ان کے آفس پہنچے تو حسب روایت چٹ بھیجی تو جواب آیا کہ کیا کام ہے ہم نے ان کے پرائیویٹ سیکرٹری جو بہت ہی خوش اخلاق ہے سے کہا کہ انہیں بتاو کام ہے تو میں راولپنڈی سے آیا ہوں۔تو انہوں نے مجھے بلوایا لیا۔ جب ہم نے انہیں اپنی اپیل کا یاد دلایا تو کہنے لگے یار مجھے تو یاد ہی نہیں ہے میں تو کورس پر چلا گیا تھا لہذا دوبارہ آپ کو بلوا لیتے ہیں۔جس کے بعد انہوں نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری سے مجھے نئی تاریخ دینے کو کہا اس کے بعد ہم مایوسی کے عالم میں واپسی کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔اس دوران سیکرٹیر ی صاحب کا تبادلہ خیبر پختوخواہ بھی ہوا لیکن وزیر صاحب ان پر خاصے مہربان ہیں لہذا ان کا تبادلہ رک گیا اور وہ بدستور اپنے سیٹ پر براجمان ہیں۔اس دوران ہم نے ایک عدد دورخواست وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کو بھیجوا دی کہ ہماری اپیل پر ایک ماہ پر فیصلہ کرنا تھا لیکن ڈیڑھ سال گذرنے کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ کوئی دو ماہ پہلے ہمیں ایڈشینل سیکرٹری تعلیم کے پرائیویٹ سیکرٹری غلام محمد کا فون آیا ہم بہت خوش ہوئے کہ چلو کوئی فیصلہ تو ہو گیا ہوگا لیکن مجھے اس وقت مایوسی ہوئی جب پرائیویٹ سیکرٹری نے ہمیں اپنے کیس کے کاغذات دوبارہ لاہور بھیجنے کو کہا ۔میں انہیں بتایا کہ سیکشن آفسیر بورڈز کے دفتر میں تمام کاغذات موجود ہیں تو ان کا جواب تھا کہ وہ خاتون سیکشن آفسیر بدل گئی ہے لہذا فائل دسیتاب نہیں ہے۔پنجاب سول سیکرٹیریٹ میں اب عالم یہ ہو چکا ہے کہ کوئی آفسیر تبدیل ہو تا ہے تو فائل بھی اس کے ساتھ ہی چلی جاتی ہے ورنہ دفاتر میں تو برسوں پرانا ریکارڈ موجود ہوتا ہے بلکہ ریکار روم ہوتے ہیں۔تو بات کالم نگار سے شروع ہوئی تھی کہ سی ایس پی چائے بھی پلاتے ہیں لیکن کام نہیں کرتے ۔تو بات سچ ثابت ہوگئی کہ واقعی سی ایس پی کام نہیں کرتے بلکہ جائز کام بھی کرنے میں لیت ولعل کرتے ہیں جو ہماری بڑی بدقسمتی ہے۔سیکرٹری ہائی ایجوکیشن راولپنڈی میں ڈپٹی کمشنر بھی رہ چکے ہیں ان کا شمار شہباز شریف سے بہت زیادہ قربت رکھنے والے آفیسروں میں ہوتا ہے اسی لئے تو میاں صاحب نے انہیں راولپنڈی سے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں لگائے رکھا جہاں وہ شہبازشریف کے دور کے آخری دنوں تک تعنیات رہے۔ہم پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب عثمان بزدار کے علم میں لانا چاہتے ہیں کہ اس طرح کی آفسر حکومتوں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔آپ ایک راست باز اور اچھی شہرت کے مالک ہیں محکمہ تعلیم میں تو کوئی بہتر کارکردگی کے حامل سیکرٹری کو لگا دیں تاکہ تعلیم جیسے مقدس پیشے سے منسلک لوگ سول سیکرٹریٹ کی ٹھوکریں کھانے سے محٖفوظ رہ سکیں ۔جناب وززیراعلی تحریک انصاف حکومت کو عوام نے اس امید پر مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ غریب اور بے سہارہ لوگوں کے مسائل حل کرئے گی اگر آپ کی حکومت میں بھی عوام در بدر ہوں گے تو آنے والے وقت میں آپ کی جماعت عوام سے میڈیٹ کی کوئی امید نہ رکھے ۔ کاش آج تعلیم کے سیکرٹری سید اسد علی شاہ، پروفیسر سراج، میاں نامدار اور ڈاکٹر صفدر محمود جیسے لوگ ہوتے ۔