اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور ان کی رحمت ہر لمحہ ہمارے ساتھ ہے۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم کسی کو بھی اُس کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے موت برحق اور اٹل ہے۔ مگر آج جب ٹرمپ نے یہ کہا کہ آؤ خدا سے رجوع کریں تو ہمارے سمیت دنیا والوں کو یہ تو یقین ہو گیا کہ سپر پاور امریکہ یا چائنہ نہیں صرف رب العالمین ہے۔ نام نہاد ایٹمی قوتیں بے بس ہیں۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ دو منٹ میں افغانستان تباہ کر سکتا ہوں مگر بے چارہ ’’کرونا‘‘ کو ختم نہیں کر سکا۔ بدقسمتی ہے کہ ہم مسلمان خاتم النبینؐ سے زبانی تو عشق کے دعویٰ کرتے ہیں مگر اُن کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔ ویسے تو ہمارے اینکروں سمیت ’’مبلغین‘‘ کی بھرمار ہے۔ مگر ہم باتیں کرتے ہیں خود عمل نہیں کرتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے رسولؐ کی اطاعت کی تو گویا اُس نے میری اطاعت کی۔ فرمایا میرا رسولؐ جو تمہیں دے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ آپؐ کا واضح ارشاد ہے کہ جب کہیں وبا پھیلے تو نہ ہی وہاں سے کوئی باہر جائے اور نہ ہی باہر سے کوئی ادھر آئے۔ اگر آپؐ کے اس فرمان پر پہلے دن سے عمل کر لیا جاتا تو بخدا ہمارے ہاں ایک بھی ہلاکت نہ ہوتی۔ 21 مارچ کو جو فلائٹس بند کی گئی ہیں پہلے دن ہی دو تین ہفتوں کے لیے بند کر دی جاتیں۔ ایران میں جو زائرین تھے۔ ایران والے بھی مسلمان ہیں ان کو ادھر ہی دو تین ماہ کے لیے روک لیتے۔ جیسا کہ چائنہ میں طلبہ روک دیئے گئے۔ ہمارے دین میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے ہماری مسلمانی کا یہ عالم ہے کہ بقول اقبال تم یوں تو سید، افغان مرزا سبھی کچھ کہلاتے ہو مگر کیا تم مسلمان بھی ہو؟ اقبال کہتا ہے کہ ہماری ایسی مسلمانی کو دیکھ کر ہنود بھی شرماتا ہے۔
مسلمانی کا عالم یہ ہے کہ آج ماسک اور سینی ٹائزر کی ضرورت ہے۔ ’’مسلمانوں‘‘ نے ذخیرہ کر لیا ہے۔ مہنگے داموں فروخت کر رہے ہیں۔ موت سامنے نظر آ رہی ہے۔ old is gold کے مصداق آیئے اپنی پرانی ماؤں سے رجوع کرتے ہیں۔ ہمیں ماسک اور سینی ٹائزر کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ میری نانی اماں سردیوں میں مجھے ’’مفلر‘‘ اور گرمیوں میں ایک دو گز کا کپڑا لے کر دیتی تھیں۔ جن کو ہمارے ہاں ’’صافہ‘‘ یا ’’پرنا‘‘ کہتے تھے۔ یہ دھوپ کے علاوہ کھانسی، چھینک میں بھی کام آتا اور اس سے پورا منہ ناک سمیت ڈھانپا جا سکتا ہے۔ آج بھی ہم وہ ہی لے لیتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا صابن پاس رکھ لیں۔ بار بار ہاتھ دھوئیں۔ صفائی رکھیں۔ آنے جانے میں پرہیز کریں۔ گھروں میں کچھ عرصے کے لیے رہیں ہمارے بس میں اتنا ہی ہے۔ باقی اللہ کریم سب کچھ جاننے والا ہے۔ انفرادی طور پر ملک کو اپنی بدر اعمالیوں کا جائزہ لینا ہو گا۔ ہم بحیثیت ’’مسلمان‘‘ انتہائی بدعمل ہیں۔ ہمارے ہاں سود کا کاروبار عام ہے۔ معصوم بچوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی ہیں۔ عدل و انصاف بالکل نہیں ہے۔ جھوٹ، ریاکاری عام ہے۔ صلہ رحمی نہیں بلکہ قطع رحمی کا چلن ہے۔ ذلت عزت کا معیار صرف ’’دولت‘‘ ہے۔ بے حیائی، فحاشی فروغ پا رہی ہے۔ موبائل نے ہماری نوجوان نسل کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ آج کے والدین بھی ’’ماڈرن‘‘ ہیں۔ لہٰذا اولاد میں ادب و احترام کہاں سے آئے گا؟ سیاستدان صرف ملک کو لوٹتے رہے ہیں۔ تین تین بار وزیراعظم رہ کر بھی ایک اچھا ہسپتال نہیں بناتے خود علاج کے بہانے ’’باہر‘‘ چلے جاتے ہیں۔’’کرونا‘‘ کا علاج ہے۔ ہر کسی کے پاس ہے۔’’کرونا‘‘ کا واحد علاج ’’استغفار‘‘ ہے۔ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا۔ مگر انسان آج اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اس قدر ذلت میں مبتلا ہے کہ اپنے ہی لوگوں سے بیزار نظر آتا ہے۔ ایک دوسرے کے لیے بجائے رحمت کے مہلک بن گیا ہے۔ یہی تو کہا جا رہا ہے کہ ایک دوسرے سے مصافحہ نہ کرنا۔ ایک دوسرے کو گلے نہ ملنا۔ مل کر نہ بیٹھنا۔ یہ ہماری بداعمالیوں اللہ تعالیٰ اور خاتم النبینؐ کی تعلیمات سے دوری کا ثمر ہے۔ نمازوں سے بھی روکا جا رہا ہے۔ شاید ہماری نمازیں خالصتاً اللہ کے لیے بلکہ یہ بھی ’’ریاکاری‘‘ سے لبریز ہوتی ہیں۔ تمہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت سے کبھی بھی مایوس نہ ہونا۔ ’’کرونا‘‘ ایک معمولی سا جھٹکا ہے۔ آیئے توبہ استغفار کریں۔ اللہ کے سامنے خلوص دل سے سجدہ ریز ہو جائیں۔ کشمیر بھی یاد آ رہے ہیں۔ جب مودی نے اُن کو بند کیا۔ تعلیمی ادارے بند کر دیئے۔ کسی نے بھی اُن کا ساتھ نہ دیا۔ قدرت الہٰی دیکھئے آج سبھی ممالک اپنے ہاتھوں سے اپنے اپنے اداروں کو لاک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ خود ہی اپنے تعلیمی ادارے بند کر رہے ہیں۔ دہشت گرد مودی جس نے کشمیر میں کرفیو لگایا آج ’’کرونا‘‘ سے ڈر کر پورے بھارت میں کرفیو لگا رہا ہے۔
بحیثیت مسلمان آیئے اپنے رب تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ خاتم النبینؐ کا واسطہ دے کر یقیناً وہ ہی معاف فرمانے والا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024