مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کا کئی علاقوں کا پھر محاصرہ‘ سرچ آپریشن‘ کشمیری سراپا احتجاج‘ بیسیوں گرفتار
سرینگر (اے این این + کے پی آئی) مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف احتجاج جاری ہے ،قابض فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری مظاہرین زخمی، ترال میں قابض فورسز کا 15گھنٹے تک آپریشن ،کپواڑہ میں جنگلات کا محاصرہ ،پلوامہ سمیت مختلف علاقوں میں مظاہرے ،ڈورو اور اوڑی میں طلباء کا احتجاج، تفصیلات کے مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ٹہاب علاقے میںکریک ڈائون کے دوران عام شہریوںکو ہراساں اورز دوکوب کرنے کے خلاف دوسرے روز بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ادھر سوپور کے مضافاتی علاقے میںمحاصرے کے دوران گرفتاریوں کیخلاف تشدد بھڑک اٹھا جس کے نتیجے میں 5افراد زخمی ہوئے۔جبکہ کپوارہ کے وارسن جنگلات کا 2روز سے محاصرہ جاری ہے۔ٹہاب پلوامہ میں سوموارکی شام دیر گئے یہاں قائم آر پی ایف کیمپ کی حفاطت پر مامور اہلکاروں نے مشتبہ نقل و حرکت کی وجہ سے فائرنگ کی اور کچھ وقت تک گولیاں چلائیں۔ جس کے بعد پورے علاقے کو دوران شب ہی محاصرے میں لیا گیا ۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ دوران تلاشی فورسز نے کچھ لوگوں کو ہراساں کر کے رہائشی مکانوں میں توڑ پھوڑ بھی کی۔ مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ تلاشی کارروائی کے دوران خورشید احمد میر اور معراج الدین کو گرفتار کیا گیا۔گرفتاریوں کے خلاف مرد و زن سڑکوں پر نکل آئے اور مظاہرے کئے جبکہ فورسز پر پتھرائو بھی کیا گیا۔فورسز نے جواب میں آنسو گیس اور پیلٹ کا استعمال کیا جس کے نتیجہ میں ایک خاتون سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے جنہیں فورا نزدیکی اسپتال علاج و معالج کے لئے پہنچایا گیا۔دریں اثنا سرحدی ضلع کپوارہ کے وارسن گزریال جنگلات کا فوج نے دو روز سے محاصرہ کر رکھا ہے۔ علاوہ ازیں قابض سکیورٹی فورسز شمال و جنوب میں ’’آپریشن آل آئوٹ‘‘ میں تیزی لے آئی ہے۔ سوپور، پلوامہ، ترال اور کولگام میں جنگجو مخالف آپریشنوں کے دوران تشدد بھڑک اٹھا مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے سکیورٹی فورسز نے بے تحاشہ آنسو گیس شیلنگ کی۔ سوپور میں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے فورسز نے پیلٹ فائرنگ کی جس کے نتیجے میں نصف درجن کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ لوگوں کے تیور دیکھ کر سکیورٹی فورسز نے بعد میں جنگجو مخالف آپریشن موخر کردیا۔ ادھر پلوامہ میں گھر گھرتلاشی کارروائی شروع کردی گئی تو سینکڑوں نوجوانوں گھروں سے باہر آئے اور انہوں نے محاصرے پر مامور فوج پرپتھرائو کیا۔ فوج نے مشتعل نوجوانوں کو منتشر کرنے کیلئے شیلنگ اور شائونڈ شلوں کا استعمال کیا اور ہوا میں گولیاں چلائیں۔ فوج نے محاصرے کے دوران درجن کے قریب نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں لائی۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ علاقے میں ایک مقامی جنگجو کی برسی منائی جا رہی تھی جس کو پچھلے سال فوج نے ایک جھڑپ کے دوران شہید کیا تھا۔ علاوہ ازیں راجوری میں مسلسل تیسرے روز بھی جنگجو مخالف آپریشن جاری رہا۔ جبکہ بھارتی فوجی سربراہ گزشتہ روز اچانک دورہ مقبوضہ کشمیر پر پہنچ گئے اس موقع پر جنرل بینراوت نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈائون اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آخری عسکریت پسند کو ڈھیر نہ کیا جائے۔ پچھلے چھ ماہ کے دوران فورسز نے کشمیر میں دو سو سے زائد عسکریت پسندوں کو جھڑپوں کے دوران مار گرایا۔ کشمیر میں حالات بہتر ہو رہے ہیں آزاد کشمیر سے بڑی تعداد میں عسکریت پسند اس طرف آنے کی تاک میں بیٹھے ہیں۔ کنٹرول لائن پر فوج پوری طرح چوکس ہے۔ دراندازی کے واقعات کو روکنے کیلئے جدید طور طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ دراندازی کے واقعات کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ بھارتی فوجی سربراہ نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ریاست میں حالات معمول پر آ رہے ہیں تاہم آزاد کشمیر میں عسکریت پسندوں کو جدید اسحلہ کی تربیت دے کر اس طرف دکھیلنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہیں۔ سرحدوں پر فوج کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں جبکہ فوج کو چوبیس گھنٹے متحرک رہنے کے احکامات صادر کئے گئے ہیں۔ جبکہ لبریشن فرنٹ چیئرمین محمد یاسین ملک نے دانشوروں اور قلمکاروں سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ تجاویز اور مشورے دینے کے برعکس’’تحریک‘‘ کو الجھن کا شکار نہ بنائیں۔ تحریک حریت چیئرمین محمد اشرف صحرائی نے 1993 جیسے’’ عظیم اتحاد‘‘ کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ چھوٹے بڑے ہونے کا دعویٰ بے معنی ہے۔ سرینگر صدر کورٹ میں ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی طرف سے ایڈوکیٹ جلیل اندرابی کی22ویں برسی پر منعقدہ سمینار’’حق خوداردایت اور وادی میں بشری حقوق کی مسلسل پامالیاں‘‘ کے موضوع پر محمد یاسین ملک نے کہا کہ حکومت ہند کی سوچ ہے کہ کشمیری مزاحمتی لیڈرشپ اور لوگوں کو کسی طور پر خود سپردگی کرنے کیلئے مجبور کیا جائے،اور اسکا جواب مزاحمتی سے ہی دیا جاسکتا ہے۔ آپریشن آل آوٹ اصل میں کشمیریوں کو سرنڈ رکرانے کی پالیسی ہے۔انہوں نے کہا’’این آئی اے کی طرف سے مزاحمتی لیڈرشپ کے خلاف کارروائی اور مرکزی حکومت کشمیریوںکو سرنڈر کرانا چاہتی ہے،اور اسکا جواب مزاحمت ہے،اور ہم وہی کر رہے ہیں‘‘۔ اس موقعہ پر تحریک حریت کے نومنتخب چیئرمین محمد اشرف صحرائی نے بھی اتحاد کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ آج تک ہم نے کافی بار اتحاد کی کوشش کی۔ 1993کے بعد حریت کانفرنس کی شکل میں تمام تنظیموں نے اتحاد کیا،تاہم10برسوں کے بعد کچھ مشکلات اور کچھ غلطیوں کی وجہ سے وہ اتحاد برقرار نہیں رہا،اور دو لخت ہوا‘‘۔ دوسری طرف سرینگر میں جھیل ڈل کنارے واقع ایس کے آئی سی سی میں ’ٹریول ایجنٹس ایسو سی ایشن آف انڈیا‘‘ کے سالانہ کنونشن سے خطاب میں مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ریاست میں قیام امن کیلئے متبادل طریقہ کار عملانے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ بندوق کے جواب میں بندوق سے صرف زخم لگتے ہیں،اور زخموںکا مرہم بھی ضروری ہے۔الیکٹرانک چینلوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ ریپبلکن ٹی وی،انڈیا ٹو ڈے، نیوز ایکس،اور دیگر چینل اس طرح کشمیر سے متعلق خبریں پیش کرتے ہیںجیسے لگتا ہے پورا کشمیر آگ میں جل رہا ہے۔مگر ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک سخت ترین دور سے گزر رہا ہے۔ بحران میں ہمیں بھارت نے تنہا چھوڑ دیا۔ وزیر اعلیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ حالات کو ٹھیک کرنے کے کئی طریقے ہیں،تاہم ہم صرف ایک ہی طریقہ کار بندوق کا مقابلہ بندوق سے اپنا تے ہیں ۔ ادھر مقبوضہ کشمیر کی سابق حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ بی جے پی سپریم کورٹ میں سنگھ پریوار کی ذیلی تنظیموں کے ذریعے جموں وکشمیر کی آئین ہند کے تحت دی گئی خصوصی پوزیشن کی دفعات370 اور 35 اے کے خلاف سازشیں کررہی ہے۔انہوں نے ٹویٹر پر ایک ٹویٹ میں کہا ’ایک طرف حکومت دعویٰ کرتی ہے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ختم کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں دوسری طرف یہی جماعت سنگھ پریوار کی ذیلی تنظیموں کے ذریعے سپریم کورٹ میں ان دفعات کے خلاف سازشیں کررہی ہے۔ ایک اجلاس سے خطاب میں حریت فورم کے چیئرمین میرواعظ عمرفاروق نے کہا ہے کہ کشمیر محض ایک سیاسی اور انسانی مسئلہ ہے اور کشمیریوں کی جائز جدوجہد کو دبانے والی ہر کوشش ناکام ہوکر رہے گی۔ تنازعہ کشمیر کو پاکستان ، بھارت اور کشمیریوں کے درمیان مسلسل مذاکرات کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی فوجی حکمت عملی بدقسمتی ہے اور اس سے ظاہر ہوتاہے کہ بھارتی حکمران فوجی طاقت کے ذریعے کشمیری عوام کاجذبہ حریت دبانا چاہتے ہیں۔ دریں اثنا بھارت کے مرکزی مذاکرات کار دینوشورشرما کی آمد کے پیش نظر ضلع بانڈی پورہ میں این ایچ پی سی ملازمین نے پروجیکٹ پر مامور سکیورٹی عملہ کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ ملازمین نے این ایچ پی سی کی انتظامیہ سمیت وہاں مامور سکیورٹی عملہ پر ملازمین کو ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا۔ قبل ازیں انتہائی کڑے سکیورٹی حصار کے بیچ مرکزی مذاکرات کار دنیشور شرما گزشتہ روز نئی دہلی سے سیدھے بانڈی پورہ پہنچے جہاں وہ مختلف وفود سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ پہلے روز مرکزی مذاکرات کار کے ساتھ 17 وفود نے ملاقات کی جن میں زیادہ تر مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے جبکہ ضلع بانڈی پورہ کی ٹریڈرز فیڈریشن نے مذاکرات کار سے ملنے سے انکار کردیا۔