پیپلز پارٹی کا وزیراعظم کیخلاف تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ
اسلام آباد(آن لائن) پاکستان پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ ہائوس میںوزیر اعظم شاہد خاقان کے خلاف تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ کر لیا جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے دوبارہ انتخابات کا غیر آئینی مطالبہ کیا ہے جو کہ پارلیمنٹ کے وقار کی بے حرمتی ہے، شاہد خاقان کو معافی مانگنی ہو گی ورنہ دونوں ایوانوں میں پوری قوت کے ساتھ بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے دوبارہ انتخابات کے مطالبہ پر پارلیمنٹ ہائوس میں بھاری اکثریت سے تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔تحریک میں مؤقف اختیار کیا گیا وزیراعظم کے بیان سے پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوا ہے کیونکہ صادق سنجرانی اسوقت چیئرمین سینٹ ہیں اور چیئرمین سینٹ کے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ آئین کے خلاف ہے جس پر وزیراعظم کو معافی مانگنی چاہئے ورنہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھرپور طاقت کے ساتھ احتجاج کیاجائے۔ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر شیری رحمان نے نجی ٹی وی سے بھی گفتگو کرتے کہا کہ وزیر اعظم نے جو کہا وہ جھوٹ نہیں بلکہ ساری قوم نے سنا ۔ایسا تو نواز شریف نے بھی کیا کیونکہ وہ بھی ہمیشہ کسی کا نام نہیںلیتے بلکہ کہتے ہیں کہ فلاں قوت اور فلاں ادارے میرے خلاف ہیں۔ شاہد خاقان ایک طر ف ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں اور دوسری جا نب ایسے بیانات دیتے ہیں حالانکہ ان کے اپنے قول اور فعل میںتضاد ہے اور اس معاملے پر شاہد خاقان کو ضرور ایوان میں معافی مانگنی چاہیے ۔ دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سسٹم اور آئین جو کہتا ہے اس پر عمل کرنا چاہیے۔ این آر او کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا، ملک میں سسٹم،ادارے اور عدلیہ کو مضبوط کرنا چاہیے۔ادارے اور سسٹم مضبوط ہونے سے این آر او کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ گزشتہ روز چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے درمیان ہونے والی ملاقات پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا ایسی ملاقاتیں ہوتی ہیں اور ہونی چاہئیں، اداروں کے رہنماؤں کو ملتے رہنا چاہیے۔کل کی میٹنگ ان حالات میں بیک فائر کرے گی جو خطرناک ہے۔کل کی ملاقات کے بعد چیف جسٹس دفاعی پوزیشن پر آ کر بات کریں گے،اگر ایسا نہ کیا تو کہا جائے گا معاملات طے ہو جانے کا الزام آئے گا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ملنا ضروری تھا تو ایسی جگہ ملتے جہاں لوگوں کو پتہ نہ چلتا،این آر او ہو یا جوڈیشل این آر او اس پر بات نہیں کروں گا۔سسٹم اور آئین جو کہتا ہے اس پر عمل کرنا چاہیے۔ این آر او آئے یا نہیں،کچھ نہیں کہہ سکتا۔،خورشید شاہ نے مزید کہا عدلیہ کو چاہیے کہ وزرائے اعلیٰ کو بلا کر بتائے کہ کیا کرنا چاہیے۔عدلیہ صوبوں کو گائیڈ لائن دے کہ یہ کیا جائے۔