اسلام آباد (انٹرویو: محمد صابر شاکر) جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ طالبان غیرملکی استعمار کے خلاف افغانستان میں جہاد کر رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا رونا جمعیت علمائے اسلام (ف) رو رہی ہے یا پھر مجید نظامی۔ مضبوط پاکستان کے ذریعے ہی مسئلہ کشمیر پر ہم اپنے موقف کو تقویت دے سکتے ہیں۔ قاضی کی غلطی نے ایم ایم اے کو زک پہنچائی۔ آئینی کمیٹی میں کچھ جماعتوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دی جانے والی ترمیم ختم کرانے کی کوشش کی۔ ”وقت نیوز“ سے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ صوبہ سرحد کا نام پختونخواہ ہو یا کوئی دوسرا متفقہ نام‘ افہام و تفہیم کے تحت ہم حمایت کے لیے تیار ہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں مفتی صاحب کا مقابلہ بھٹو سے ہوا‘ ڈیرہ میں دونوں مدمقابل تھے۔ بڑی طاقتوں نے پاکستان کو علاقائیت اور قومیت کی بناءپر تقسیم کا فیصلہ کر لیا تو ہم ملک کو دو ٹکڑے ہونے سے نہیں بچا سکے۔ مولانا مفتی محمود مساجد میں جایا کرتے تھے‘ ہمارے وزراءنے بھی مساجد میں بیٹھ کر لوگوں کے مسائل سنےں۔ ہم اب بھی مفتی محمود کو فالو کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب بے نظیر بھٹو سیاست میں نئی نئی آئیں تو ہمارا موقف سخت تھا‘ ہم نے مسلم لیگ (ن) کا تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دیا لیکن شریعت کے سوال پر ہمارا ن لیگ سے اختلاف رائے پیدا ہوا۔ دو ہزار کے بعد دینی جماعتوں کو جتنی پذیرائی ملی‘ اس سے قبل کبھی نہیں ملی۔ہم نے عوام میں اعتماد پیدا کیا ہے کہ دوسروں کی نسبت ہم زیادہ بہتر سیاست کر سکتے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں شکست کے حوالے سے فضل الرحمان نے کہا کہ انہیں شکست نہیں ہوئی‘ مدمقابل کو ٹف ٹائم دیا ہے۔ اس حوالے سے زرداری کی جانب سے دھمکی بھی موصول ہوئی کہ آپ ڈیرہ میں اپنا امیدوار کھڑا نہ کریں میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ معاملات میں تلخی پیدا نہ کریں۔ انہوں نے کہاکہ ”اچھا یہ بات ہے تو پھر الیکشن جیت کر دکھائیں“ ایک سوال کے جواب میں مولانا نے کہاکہ مشرف کا دور مارشل لاءکا دور تھا‘ ان کے ساتھ ہم حکومت کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے‘ جب مشرف نے پاکستان کو امریکی اتحادی قرار دیا تو میں‘ قاضی صاحب‘ دیگر رہنما اور کارکن جیلوں میں بھی گئے۔ مارشل لاءکے خلاف سب سے مضبوط موقف ہم نے اختیار کیا۔ ہم نے ایل ایف او کو نہیں مانا‘ ق لیگ کی حکومت تھی اگر اس کی حمایت نہ کرتے تو دوتہائی اکثریت واضح نہ ہوتی اور آئین متنازعہ رہتا آئین بحالی کی بجائے خاتمے کی جانب گامزن ہو جاتا۔ ہم مشرف کو ٹف ٹائم نہیں دے سکتے تھے۔ٹف ٹائم دینے والے خود دوبئی اور لندن چلے گئے۔ مشرف دور میں حالات اس قدر مشکل تھے دونوں بڑی جماعتوں کے قائد ملک میں واپس آنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہم مشرف کو کان سے پکڑ کر ایوان صدر سے باہر نہیں نکال سکتے تھے۔ ملک عقل سے چلا کرتے ہیں جذبات سے نہیں۔ نواز شریف کو جدہ میں کہا تھا کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس کا پھل آپ کو ملتا ہے۔ پارلیمانی سیاست اور جمہوریت میں ہمیشہ تدریجی ارتقاءکا عمل ہوتا ہے نظام کی بساط نہیں الٹی جاسکتی۔ ہماری سیاسی پیش رفت کے نتیجے میں جمہوری ماحول بنا۔ پاکستان میں دہشت گردی سے امریکی موقف کو تقویت ملی۔ بعدازاں مسلم لیگ (ن) نے سترھویں ترمیم اور عدلیہ کے ایشوز اٹھائے‘ انہیں فوقیت جبکہ ہماری جدوجہد کو ثانوی حیثیت ملی۔ ن لیگ کو چاہئے تھا کہ جب پارلیمانی اصلاحات کمیٹی کے اجلاس ہوئے اس میں اپنا موقف کیوں نہیں اٹھایا جب معاملات اب دستخط کے قریب پہنچ گئے اور مشترکہ ایوانوں کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا اب انہیں یاد آیا کہ وہ تین اہم باتیں مس کر گئے ہیں۔ آئینی کمیٹی کے حوالے سے انہوں نے احتراز کرتے ہوئے کہا کہ ہم آئین کی اسلامی حیثیت کو اب تک بحال رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اگرچہ کئی حملے کیے گئے۔ ہم ایسی عدلیہ چاہتے ہیں جو غیر جانبدار ہو۔ اگر ن لیگ اس کے پاس جائے تو اسے چھوٹ ملے اور ہمارے ارکان کو ایوان سے فارغ کیا جاتا رہے‘ ایسی عدلیہ نہیں چاہئے۔ دونوں بڑی جماعتیں میثاق جمہوریت کو کٹ لگانا چاہتی ہیں جبکہ ہم اسے پوری روح کے ساتھ نافذ کرنے کے حامی ہیں۔ اداروں میں ٹکراﺅ ہر دور میں رہتا ہے۔ سیاست کو محدود نہ کیا جائے۔ ہمیں امریکہ کی ڈکٹیشن سے باہر نکلنا ہو گا۔ طالبان افغانستان اور کشمیری کشمیر میں جہاد کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں خودکش حملوں اور عسکریت پسندی کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی انہیں جہاد قرار دیا جا سکتا ہے۔ دریں اثنا مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ صوبہ سرحد کا نام صوبے کے لوگ رکھیںگے‘ پنجاب والے نہیں ‘ ہم17وےں ترمےم لانے کے ذمہ دار ہےں تو پےپلزپارٹی اور مسلم لےگ(ن) اسے اب تک برقرار رکھنے کے مجرم ہےں نواز شرےف سے برطانوی وزےر کاآئےنی اصلاحات کے حوالے سے رابطہ بےرونی مداخلت ہے۔ سکھر مےں پرےس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ حکومت مےں رہتے ہوئے اس کی کارکردگی پر تنقےد اور احتجاج کرتے ہےں ڈےرہ اسماعےل خان کے ضمنی انتخابات مےں ہماری ہار نہےں جےت ہوئی ہے اور پےپلزپارٹی جےت کر بھی ہار گئی ہے۔ آئےنی اصلاحات پر ڈےڈ لاک کا ذمہ دار نواز شرےف کو ہم نہےں مےڈےا نے قرار دےا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024