آئینی اصلاحات کمیٹی کی تجاویز پنڈورا باکس ہیں۔ جو قومی سالمیت اور جمہوریت دونوں کیلئے مضر اور مہلک ہیں کیونکہ مجوزہ تجاویز نظریاتی اسلامی پاکستان کو قومیتی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی گھناونی سازش ہے۔ نیز قومی آئین و قوانین کی محافظ آزاد وفاقی یعنی باہم متحد عدلیہ کی خود مختار مرکزیت کو صوبائیت میں ڈھالنے کی نیت کا اظہار ہے۔ حکومت آتی جاتی ہے ریاست قائم رہتی ہے۔ جبکہ حکومتوں کو یو ٹرن لینے کی عادت ہے۔ موجودہ صوبائی اور قومی اسمبلیاں آج ایک قرارداد منظور کرتی ہیں۔ کل آنے والی پارلیمانی حکومت برعکس فیصلے کر سکتی ہے۔ لہٰذا نظریاتی پاکستان کو نظریاتی جمہوری نظام اور افکار سے مضبوط کرنا چاہئے۔ اتحادی ممالک یعنی ہنود و یہود اور صلیبی قوتوں کے خطے میں اپنے مذموم مقاصد ہیں جس میں پاک سرزمین کو نسلی‘ لسانی‘ علاقائی‘ صوبائی‘ ترجیحات میں تقسیم کرکے تحلیل کرنا ہے اور اس ضمن میں پاکستان کے قومی مرکزی محکموں یا اداروں مثلاً عدالتی نظام کو وقتی حکومتی کے تحت صوبائی خود مختاری کی طرف دھکیلنا ہے مثلاً جوڈیشنل کمشن آف پاکستان کے سربراہ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ ہوں گے۔ جبکہ صوبائی عدالتی کمشن عدالت اعلیٰ ججوں کی تقرری اور دیگر امور میں خود مختار ہوں گے۔ اسلام آباد اور شرعی عدالت بھی خود مختار عدالتی کمشن کے ماتحت ہوں گی اور مذکورہ تمام عدالتی کمشن میں حکومتی نمائندے موثر ہوں گے۔ فی الحقیقت حکومت محمد نواز شریف (ن لیگ) کی آزاد خود مختار عدلیہ کی کوششوں کو بے ثمر کرنا چاہتی ہے۔ آئینی اصلاحات کمیٹی کی تجاویز نظریاتی پاکستان پر سہ جہتی حملہ ہے۔ پہلی جہت 1973ءکے آئین کی بحالی جس کی رو سے قادیانی غیر مسلم نہیں رہیں گے۔ سپیکر سندھ اسمبلی نثار کھوڑو نے بجا کہا کہ محمد نواز شریف‘ ضیاءالحق کی ترامیم ختم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم محمد ضیاءالحق نے قرار دیا تھا کیونکہ ترمیم در رد قادیانیت Anti Qadyoni Bill پر محمد ضیاءالحق نے دستخط کئے‘ ذوالفقار علی بھٹو نے نہیں۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے پرویز مشرف نے قرآن و سنت کے منافی تحفظ حقوق نسواں آرڈیننس جاری کیا۔ دونوں پارلیمان سے منظور کرایا اور آخر میں کنونشن کی تقریب میں خود دستخط کرکے اس کا حصہ بنایا جس کی رو سے پاکستانی نوجوان لڑکے‘ لڑکیوں کے غیر نکاتی تعلقات سرعام عریانی و فحاشی اور بدکرداری کو آئینی تحفظ دیا گیا اور آج پاکستانی خواتین و حضرات مغرب کی بے حیائی اور اخلاق باختگی اپنانا چاہیں تو آئین رکاوٹ بننے کے بجائے محافظ ہو۔ محمد ضیاءالحق نے قرارداد مقاصد کو ترمیم کے ذریعے پاکستانی آئین کا حصہ بنایا جس کی رو سے پاکستانی حکومت آئینی طور پر قرآن و سنت کے منافی قوانین نہیں بنا سکتی۔ ذہن میں رہے کہ جمہوریہ اسلامیہ پاکستان میں لفظ اسلامی بھی ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا تھا۔ دوسری جہت پختونواہ اور پختونستان کی ہے جس کے پیچھے بھارتی قومیت کے حامی خدائی خدمتگار سرحدی گاندھی عبدالغفار خان کی کی آل اولاد اور جماعت اے این پی ہے۔ جس کے پاکستان دشمن نظریات‘ خیالات اور مساعی کو محترم منیر احمد منیر نے اپنی مضمون ”صوبہ سرحد‘ تبدیلی نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔ نواز شریف سے ایک سوال“ مورخہ 27-3-10 میں بخوبی بیان کیا ہے۔ پختونخواہ یا پختونستان نظریاتی پاکستان کی (خاکم بدہن) تدفین ہے۔ جس کو فقط نظریاتی مسلم لیگ روک سکتی ہے اور الحمد اللہ مسلم لیگ کے دو بڑے دھڑوں یعنی ن اور ق پختونخواہ کی شق کے مخالف ہیں۔ اے کاش ن‘ ق باہم نظریاتی ورکنگ تعلقات بھی قائم کر لیں۔ آئینی اصلاحات کی بہتری جہت عدالتی نظام ہے جس کی شکست و ریخت کا حکومتی منصوبہ پہلے ہی بیان کیا جا چکا ہے۔آئینی اصلاحات کمیٹی مسلم لیگ ن اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی باہمی محاذ آرائی کا شاخسانہ بھی ہے۔ نوازشریف کا موقف ہے حکومت میثاق جمہوریت اور مری معاہدے کے تحت 17ویں ترمیم کے خاتمے کی پابند ہے۔ مجوزہ آئینی اصلاحات میں مذکورہ ترمیم کے خاتمے کو مشروط در مشروط کر دیا گیا ہے۔ اس کو پختونستان اور 1973ءکے آئین کی بحالی سے نتھی کرنا حکومت وقت کی بدنیتی ہے۔ نیز یہ اصلاحات اچانک یعنی بغیر افہام تفہیم کے پیش کرنے میں بھی حکومتی جلد بازی کا اظہار بھی ہے۔ محمد نواز شریف کا موقف واضح بھی ہے درست بھی کہ معاملات کو گڈمڈ اور خلط ملط نہ کیا جائے۔اگر آئینی کمیٹی کی اصلاحات کو قومی منظر کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو معاملہ سیدھا سادھا نہیں۔ اتحادی ممالک افغان مزاحمتی مجاہدین کی حکمت عملی کے سامنے فوجی شکست تسلیم کر چکے ہیں۔ اتحادی ممالک کے سربراہ امریکی صدر اوباما کی پالیسی ہے کہ پاک افواج اور ISI کو دہشت گردی کی جنگ کے نام پر مزاحمتی مجاہدین سے لاحاصل جنگ میں الجھائے رکھو۔ مذکورہ اداروں کی پیشہ ورانہ مہارت کی تشریح کرو اور مزاحمتی مجاہد قوتوں سے لڑ کر کمزور ہونے دو۔ جو جنگ روس‘ امریکہ اور اتحادی ممالک ملکر جیت سکے یا پاکستانی فوج جیت جائے گی؟ اتحادی ممالک کو جلدی ہے کہ وہ پاکستانی سرزمین اور وسائل پر قبضہ کرے۔ پختونستان پاک سرزمین کی نسلی تقسیم کا پیش خیمہ ہے۔ جو خطے کے مسلمانوں کی عظیم نظریاتی جدوجہد کو زمین بوس کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کی نسلی‘ لسانی‘ علاقائی اور قومیتی بنیادوں پر تقسیم کی اتحادی منصوبہ بندی ہو چکی ہے۔ اس وقت آزاد‘ خود مختار اور مرکزیت کی حامل عدلیہ وقت کی ضرورت ہے۔ اس وقت آزاد محفوظ اور مضبوط عدلیہ کیلئے لانگ مارچ سے زیادہ سعی اور کوشش درکار ہے۔ جو نظریاتی مسلم لیگ کی متقاضی ہے۔ جو باہم متحد ہے اوپر سطح پر عوام و خواص میں بااثر ہو۔ مسلم لیگ کی عوامی رابطہ مہم اتحادی ممالک کی حلیف مرکزی و صوبائی حکومتوں (ماسوا پنجاب) کے سازشی ہتھکنڈوں کا تدارک کر سکتی ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024