اسرار بخاری ۔۔۔
”کیا پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا“ کوئی ناپسندیدہ بات ہو جائے کوئی ایسا کام جسے ذہن قبول نہ کرتا ہو سرزد ہو جائے جھنجھلاہٹ آمیز ردعمل کی تان اس فقرے پر ٹوٹتی ہے کیا پاکستان خودکار میکانیکی قوت کا نام ہے جسے اپنے قیام کے مقاصد ازخود تکمیل کرنی ہے لیکن اگر یہ زمین‘ پہاڑوں‘ دریاوں‘ سمندروں‘ جنگلات‘ صحراوں‘ سڑکوں اور عمارتوں پر مشتمل ایک ملک کا نام ہے۔ تو پھر تو یہ ایسا ہی ملک ہے جیسا انڈیا ہے۔ ایران ہے‘ افغانستان ہے یا کوئی اور دوسرا ملک ہے۔ نباتات‘ جمادات اور معدنیات کے مجموعوں سے مقصد کی تکمیل کا تقاضا کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو کسی ملک کے لوگ ہوتے ہیں جو کوئی متعین کرتے اور اس کے حصول کےلئے جدوجہد کرتے ہیں ”تاہم پاکستان اس لئے بنا تھا ”ذومعنی جملہ ہے اس سے تاسف‘ حسرت‘ شدید ردعمل اور طنز و تضحیک کی متضاد کیفیتوں کا اظہار ہوتا ہے البتہ گجرات کے ایم شعیب کے اس جملے میں درد مندی کی کمک ہے۔ انہوں نے ”رجو کا تھیٹر“ کے نام پر اسلام اور نظریہ پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنانے کی ایک نظم میں ہم پر دکھ کا اظہار کیا ہے ”رجو کا تھیٹر“ شاہد محمود ندیم اور ان کی اہلیہ مدیحہ گوہر نے قائم کیا ہے جن کی بہن فریال گوہر بڑے بڑے لوگوں کی انگریزی درست کرتی ہیں جنرل (ر) پرویز مشرف بھی ان کے ”فیض یافتگان“ میں شامل ہیں بہرحال شاہد محمود ندیم اور مدیحہ گوہر جو لبرل و آزاد خیال ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی تحریروں اور ان کے ڈراموں میں اسلامی شعار اور اسلامی طرز حیات ہدف تنقید ہوتے ہیں اور شاید اسی لئے سرن کے ڈراموں کی بھارت میں بے حد پذیرائی کی جاتی ہے اور حکومتی سرپرستی سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے سمجھوتہ ایکسپریس بند ہونے کے بعد بھارتی پاسپورٹ رکھنے والے دو سال تک پاکستان میں پھنسے رہے اسلام آباد میں موجود بھارت ہائی کمشن نے ان کے ذریعہ سفر کو ریل سے تبدیل کرکے ”روڈ“ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اس عرصہ میں کسی پاکستانی کو ویزہ ملنے کا تو کیا سوال تھا مگر اس مدت میں ”اجوکا تھیٹر“ کیلئے بھارتی سرکار دیدودل فرش راہ کی تصویر بنی رہی اور یہ بھارت کے مختلف شہروں میں اسلامی شعار اور روایات کو نشانہ بنا کر مال بٹورتے رہے علمی کالج گجرات کے ایم شعیب صورت شناسا نہیں ہیں یقیناً اسلامی ذہن رکھنے والے نوجوان ہوں تب ہی انہیں ”اجوکا تھیٹر“ میں ”اے وطن کے سجیلے جوانو‘ میرے برقعے تمہارے لئے ہیں“ اسلام کا نعرہ برقع برقع جیسے تضحیک آمیز کا رنگ لئے گیتوں اور خواتین اداکاراوں برقعے پہن کر ڈانس کرنے جیسے تماشوں نے مضطرب کیا ہے۔ ایک اجوکا تھیٹر ہی کیا پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اس کے بنیادی نظرئیے اور اس میں بسنے والوں کے دین کا کھلا مذاق اڑایا جا سکتا ہے لیکن یہ قصور پاکستان کا تو نہیں ہے یہ تو پاکستانیوں کا قصور ہے جس ملک میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہو وہاں ہی اسلام کو ’اسلامی شعار کو‘ اسلامی طرز حیات کو تضحیک و تمسخر کا نشانہ بنائے جائے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے کیا اس بے نیازی کے باوجود یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے ”کیا پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا؟منڈی بہاو الدین سے عزیزی رعنا کا نوائے وقت کیلئے عقیدتوں بھرا پیغام ملا۔ شکریہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کیلئے خدمات پر جناب مجید نظامی اور نوائے وقت کے سرکار پر جن جذبات کا اظہار کیا گیا ہے وہ ہر سچے پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔
”کیا پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا“ کوئی ناپسندیدہ بات ہو جائے کوئی ایسا کام جسے ذہن قبول نہ کرتا ہو سرزد ہو جائے جھنجھلاہٹ آمیز ردعمل کی تان اس فقرے پر ٹوٹتی ہے کیا پاکستان خودکار میکانیکی قوت کا نام ہے جسے اپنے قیام کے مقاصد ازخود تکمیل کرنی ہے لیکن اگر یہ زمین‘ پہاڑوں‘ دریاوں‘ سمندروں‘ جنگلات‘ صحراوں‘ سڑکوں اور عمارتوں پر مشتمل ایک ملک کا نام ہے۔ تو پھر تو یہ ایسا ہی ملک ہے جیسا انڈیا ہے۔ ایران ہے‘ افغانستان ہے یا کوئی اور دوسرا ملک ہے۔ نباتات‘ جمادات اور معدنیات کے مجموعوں سے مقصد کی تکمیل کا تقاضا کیسے کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو کسی ملک کے لوگ ہوتے ہیں جو کوئی متعین کرتے اور اس کے حصول کےلئے جدوجہد کرتے ہیں ”تاہم پاکستان اس لئے بنا تھا ”ذومعنی جملہ ہے اس سے تاسف‘ حسرت‘ شدید ردعمل اور طنز و تضحیک کی متضاد کیفیتوں کا اظہار ہوتا ہے البتہ گجرات کے ایم شعیب کے اس جملے میں درد مندی کی کمک ہے۔ انہوں نے ”رجو کا تھیٹر“ کے نام پر اسلام اور نظریہ پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنانے کی ایک نظم میں ہم پر دکھ کا اظہار کیا ہے ”رجو کا تھیٹر“ شاہد محمود ندیم اور ان کی اہلیہ مدیحہ گوہر نے قائم کیا ہے جن کی بہن فریال گوہر بڑے بڑے لوگوں کی انگریزی درست کرتی ہیں جنرل (ر) پرویز مشرف بھی ان کے ”فیض یافتگان“ میں شامل ہیں بہرحال شاہد محمود ندیم اور مدیحہ گوہر جو لبرل و آزاد خیال ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی تحریروں اور ان کے ڈراموں میں اسلامی شعار اور اسلامی طرز حیات ہدف تنقید ہوتے ہیں اور شاید اسی لئے سرن کے ڈراموں کی بھارت میں بے حد پذیرائی کی جاتی ہے اور حکومتی سرپرستی سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے سمجھوتہ ایکسپریس بند ہونے کے بعد بھارتی پاسپورٹ رکھنے والے دو سال تک پاکستان میں پھنسے رہے اسلام آباد میں موجود بھارت ہائی کمشن نے ان کے ذریعہ سفر کو ریل سے تبدیل کرکے ”روڈ“ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اس عرصہ میں کسی پاکستانی کو ویزہ ملنے کا تو کیا سوال تھا مگر اس مدت میں ”اجوکا تھیٹر“ کیلئے بھارتی سرکار دیدودل فرش راہ کی تصویر بنی رہی اور یہ بھارت کے مختلف شہروں میں اسلامی شعار اور روایات کو نشانہ بنا کر مال بٹورتے رہے علمی کالج گجرات کے ایم شعیب صورت شناسا نہیں ہیں یقیناً اسلامی ذہن رکھنے والے نوجوان ہوں تب ہی انہیں ”اجوکا تھیٹر“ میں ”اے وطن کے سجیلے جوانو‘ میرے برقعے تمہارے لئے ہیں“ اسلام کا نعرہ برقع برقع جیسے تضحیک آمیز کا رنگ لئے گیتوں اور خواتین اداکاراوں برقعے پہن کر ڈانس کرنے جیسے تماشوں نے مضطرب کیا ہے۔ ایک اجوکا تھیٹر ہی کیا پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اس کے بنیادی نظرئیے اور اس میں بسنے والوں کے دین کا کھلا مذاق اڑایا جا سکتا ہے لیکن یہ قصور پاکستان کا تو نہیں ہے یہ تو پاکستانیوں کا قصور ہے جس ملک میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہو وہاں ہی اسلام کو ’اسلامی شعار کو‘ اسلامی طرز حیات کو تضحیک و تمسخر کا نشانہ بنائے جائے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگے کیا اس بے نیازی کے باوجود یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے ”کیا پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا؟منڈی بہاو الدین سے عزیزی رعنا کا نوائے وقت کیلئے عقیدتوں بھرا پیغام ملا۔ شکریہ پاکستان اور نظریہ پاکستان کیلئے خدمات پر جناب مجید نظامی اور نوائے وقت کے سرکار پر جن جذبات کا اظہار کیا گیا ہے وہ ہر سچے پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔