وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت 1973ء کا آئین اصل شکل میں جلد بحال کریگی اور قوم کو بجلی‘ گیس کے بحران سے نکال لیا جائیگا۔ گزشتہ روز انہوں نے گوجرانوالہ کے ایک نواحی گائوں میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ توانائی کے مسائل عوام کی طاقت سے حل کئے جائینگے اور شہید بے نظیر بھٹو کے تمام وعدوں کو پورا کیا جائیگا‘ ہم اپنے پارٹی منشور کیمطابق عوام کو ریلیف دینگے۔
عوام کے اقتصادی‘ معاشی مسائل حل کرنا‘ ان کیلئے روزگار سمیت آبرومندی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو یقینی بنانا‘ انکی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کرنا اور جان و مال کے تحفظ سمیت انکے تمام بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہی کسی حکومت کے اولین فرائض میں شامل اور اسکی گڈگورننس کی ضمانت ہوا کرتا ہے‘ جس معاشرے میں شہریوں کو جان و مال کا تحفظ حاصل ہو‘ نہ انکی بنیادی ضرورتیں پوری ہو رہی ہوں‘اسے کسی صورت فلاحی معاشرہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے فلاحی معاشرے کی بنیاد پر ہی اپنے پارٹی منشور میں روٹی کپڑا مکان کا فلسفہ پیش کیا تھا‘ مگر بدقسمتی سے عوام کی ترجمانی کی دعویدار پیپلز پارٹی کے کسی ایک بھی دور حکومت میں اسکے پارٹی منشور پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آئی‘ البتہ اسکے ادوار حکمرانی میں ملک‘ قوم اور عوام کے مسائل میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔
عوام نے 18 فروری 2008ء کے انتخابات میں اپنے ووٹ کی طاقت سے خاموش انقلاب برپا کرتے ہوئے مشرف کی جرنیلی آمریت اور اسکی باقیات کو محض اس لئے مسترد کیا تھا کہ اسکی پالیسیوں کی پیدا کردہ غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور آٹا‘ چینی‘ بجلی‘ گیس کی قلت اور یوٹیلٹی بلوں میں شتربے مہار اضافہ نے انہیں زندہ درگور کر دیا تھا۔ اپنے گوناں گوں مسائل میں ریلیف حاصل کرنے اور فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھنے کیلئے ہی عوام نے موجودہ حکمرانوں کو سلطانی ٔ جمہور کا مینڈیٹ دیا مگر اس حکومت کے دو سال گزرنے کے بعد عوام کی اقتصادی اور معاشی حالت مشرف آمریت سے بھی بدتر ہو چکی ہے اور انہیں سکھ کا سانس لینے کا کوئی راستہ بھی نظر نہیں آرہا۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی جن عوام کی طاقت سے توانائی کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ اور وعدہ کر رہے ہیں‘ ان عوام کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ وہ اپنے گوناںگوں مسائل میں دھنسے خطِ غربت سے نیچے کی زندگی کی جانب تیزی سے لڑھکتے جا رہے ہیں اور بچائو کیلئے انہیں کوئی امید‘ کوئی سہارا بھی نظر نہیں آرہا۔ گزشتہ سال کے عالمی سروے کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالے افراد کی تعداد لگ بھگ چھ کروڑ تھی‘ جو اب یکایک دس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ طبقاتی تفاوت اتنا بڑھ گیا ہے کہ مڈل کلاس کا تصور ہی غائب ہونے لگا ہے۔ اسی طرح امیر اور غریب کے مابین حدِ فاصل کا تصور بھی مفقود ہونے لگا ہے۔ بے وسیلہ غریب عوام کا ہجوم بے کراں ہے‘ جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں‘ اقتدار اور طاقت و اختیار کے ایوانوں تک بھی انکی رسائی نہیں ہو پاتی اور انہیں مستقبل قریب میں اپنی آسودہ زندگی کیلئے کسی قسم کا ریلیف ملنے کی بھی کوئی توقع نہیں۔ اسکے برعکس مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کے وارے نیارے ہیں‘ جو اپنی طاقت و اختیار اور اقتدار کے ایوانوں میں اپنی خاندان در خاندان رسائی کی بدولت تمام قومی دولت و وسائل پر بھی قابض ہو چکے ہیں۔ خود کو احتساب سے بالاتر رکھنے کیلئے انصاف کے ایوانوں میں اپنے عمل دخل کی منصوبہ بندی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور مزید لوٹ مار کی بھی مکمل منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں۔ یہ صورتحال معاشرے کے غیرمتوازن ہونے پر ہی منتج نہیں ہو گی‘ بلکہ غربت‘ بھوک‘ بے روزگاری‘ مہنگائی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عاجز آئے بے وسیلہ مجبور انسانوں کو اس خونیں انقلاب کی راہ بھی دکھا دیگی جس کا ڈراوا وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اپنی اکثر تقاریر میں اپنے فنِ خطابت کو تسلیم کرانے کیلئے دیا کرتے ہیں۔
اس صورتحال میں وزیراعظم کے صرف اس دعوے سے عوام کی تشفی نہیں ہو سکتی کہ وہ انکی طاقت سے انکے مسائل حل کرینگے جبکہ انکے دعوے کے قطعی برعکس گزشتہ روز عوام پر بجلی کے نرخوں میں ایک روپیہ دو پیسے فی یونٹ مزید اضافہ مسلط کر دیا گیا اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی اذیت اس انتہا تک پہنچا دی گئی کہ بغیر کسی پیشگی اعلان کے عوام کو مسلسل چار چار گھنٹے اور روزانہ بارہ سے چودہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب سٹیٹ بنک نے اپنی پانچویں مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود ساڑھے بارہ فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی یہ ’’نوید‘‘ سنائی ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ آئندہ ماہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں پانچ سے سات روپے فی لٹر مزید اضافہ کے خطرے کی گھنٹی بھی اوگرا کی جانب سے پہلے ہی بجائی جا چکی ہے۔ مہنگائی کے عفریت کے سامنے عوام کی قوت خرید پہلے ہی دم توڑ چکی ہے‘ ٹیکسوں کی بھر مار اور اشیائے خوردنی کے نرخوں میں آئے روز کے اضافہ نے بالخصوص تنخواہ دار طبقہ کیلئے جسم کے ساتھ تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل بنا دیا ہے۔ نتیجتاً حالات کے ستائے بے روزگار نوجوانوں میں جرائم کی زندگی اختیار کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو چکا ہے جبکہ اپنے اقتدار کی کشمکش میں مبتلا حکمران طبقہ نے بھی عوام کو چوروں‘ ڈاکوئوں‘ راہزنوں‘ قاتلوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ مہنگائی کے طوفان کے ظالم تھپیڑوں کی بھی زد میں ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مستقل اور مسلسل عذاب بھی ان کیلئے ذہنی کرب و اذیت کا باعث بنا ہوا ہے۔ دہشت گردی کی پیدا کردہ امن و امان کی خراب تر صورتحال میں سرمایہ کاری کا عمل رکنے اور قومی معیشت کی ترقی کا پہیہ جامد ہونے کے باعث روزگار کے دروازے بھی ان پر بند ہو چکے ہیں۔ نہ گھر کے اندر انہیں سکون مل رہا ہے‘ نہ گھر کے باہر سکھ کا سانس دستیاب ہے۔ کیا ایسے حالات میں عوام کو وزیراعظم کی اس تھپکی سے سلایا جا سکتا ہے کہ انکے مسائل حل کرنے کیلئے انہی کی طاقت بروئے کار لائی جائیگی۔ فی الحقیقت انکی آنکھوں کی تو نیند ہی اڑا دی گئی ہے۔ اس صورتحال میں عوام کیلئے جب تک فوری ریلیف کا راستہ نہیں نکالا جائیگا‘ وہ حکومت کی جانب سے ریلیف کے کسی وعدے کے چکمے میں نہیں آئینگے‘ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب ہی عوام کو تنگ آمد بجنگ آمد کی راہ پر لانے کیلئے کافی ہے‘ جس کا پرتشدد عوامی مظاہروں سے واضح اشارہ بھی مل رہا ہے۔
بے شک کالاباغ ڈیم اور سستی ہائیڈل بجلی کے حصول کیلئے دوسرے آبی وسائل بروئے کار لانا ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مستقل حل ہے‘ کالاباغ ڈیم بنانے کا کوئی نام نہیں لے رہا مگر عوام کو اس عذاب سے فوری ریلیف درکار ہے‘ جس کیلئے سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ جو تھرمل پاور پلانٹس انکے دس ارب روپے کے قریب بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بند پڑے ہیں‘ حکومت اپنی عیاشیاں ختم کرکے اور سرکاری اداروں کے ذمہ واجب الادا واپڈا کے بل ادا کرکے واپڈا کو نجی تھرمل پاور پلانٹس کے واجبات ادا کرنے کے قابل بنائے‘ تاکہ وہ بجلی کی فراہمی کا سلسلہ پھر سے شروع کر سکیں اور اسکے ساتھ ساتھ برادر اسلامی ملک ایران کی 22 سو میگاواٹ تھرمل بجلی کی چھ سے سات سینٹ فی یونٹ کے سستے نرخوں پر فراہمی کی پیشکش پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ اگر نجی تھرمل پاور پلانٹس بھی دوبارہ چالو کرا دیئے جائیں اور ایران سے بھی مطلوبہ بجلی حاصل کرلی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بجلی کا شارٹ فال دور کرکے لوڈشیڈنگ کے عذاب سے عوام کو نکالنے کے قابل نہ ہو سکیں۔ اسی طرح امن و امان کی صورتحال پر قابو پا کر قومی معیشت کا جامد پہیہ چلنے کی صورت میں مہنگائی‘ بے روزگاری جیسے مسائل میں عوام کو فوری ریلیف دیا جا سکتا ہے۔
اگر حکمران طبقہ کے ارادے نیک ہوں اور وہ فی الواقع عوام کے گوناں گوں مسائل حل کرنے کیلئے فکرمند ہوں تو قومی ترقی کی مستقل پالیسیوں کے ساتھ ساتھ فوری ریلیف کے منصوبوں کو بھی عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت کے دعوئوں اور وعدوں کے ساتھ عوام کے مسائل بھی بڑھتے رہیں گے تو عوام اپنے مسائل سے نجات کیلئے اپنی طاقت ضرور استعمال کرینگے مگر وہ طاقت انکے مسائل میں اضافہ کا باعث بننے والے حکمران طبقہ کیخلاف ہی استعمال ہو گی۔
لیڈر نہیں‘ عوام ہی یہ فیصلہ کر سکتے ہیں
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سیکرٹری جنرل سرانجام خان نے کہا ہے کہ صوبہ سرحد کے نام میں تبدیلی، پختونخوا ہمیں قبول نہیں ہے۔ اور صوبہ سرحد کے نام کے مسئلہ پر ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہم نہیں خود اے این پی والے کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ بڑا حساس اور نظریاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) صوبہ سرحد کے ذمہ داران نے اپنی لیڈرشپ کو دئیے جانے والے میمورنڈم میں واضح کیا ہے کہ پختونخوا یا پختونستان کا نام پاکستان کے بنیادی نظریہ سے انحراف ہے۔
سرانجام خان ایک ہوش مند سیاستدان ہیں اور وہ درست کہہ رہے ہیں کہ صوبہ سرحد کا نام اب تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر اے این پی والے پختونخوا پر ضد کر رہے ہیں تو عوام سے رجوع کرلیں‘ 47ء کے ریفرنڈم کی طرح وہ پھر ناکام ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت نام کی تبدیلی قومی اتحاد و یکجہتی پر اثرانداز ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی سازش نہیں کی جو لوگ یہ الزام لگاتے ہیں انکی اپنی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اگر کوئی گروہ واقعی نام بدلنے کو ضروری سمجھتا ہے تو اسے یہ خیال اب کیوں آیا ہے؟ انگریز نے صوبہ سرحد کو پنجاب سے کاٹ کر علیحدہ کیا تھا۔ اس وقت موجودہ لیڈروں کے بزرگ موجود تھے۔ انہوںنے شمال مغربی صوبہ سرحد کے نام پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ صوبہ سرحد کا پرانا نام پختونخوا نہیں۔ پنجاب ہے۔ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں کابل تک پنجاب تھا۔ ہری سنگھ نلوا، کابل کا گورنر تھا۔ اس وقت تو کسی کی رگِ حمیت نہیں پھڑکی۔ آج جب سب مسلمان بھائی یہاں بیٹھے ہیں پھر ہم اتنے تلخ اور جان دینے یا لینے پر آمادہ کیوں ہیں۔ اگر صوبہ سرحد کا نام بدلنا ہے تو پھر سرحد کے عوام سے ریفرنڈم کرالیا جائے جس میں یہ وضاحت کی جائے کہ ہم صوبہ کا نام تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیڈروں کو ازخودیہ فیصلہ نہیں کرنا چاہئے یہ فیصلہ عوام کو کرنا چاہئے۔
وطنِ عزیز کے پاسبانو قوم تمہارے ساتھ ہے
پاک فضائیہ کے سربراہ ائرچیف مارشل راؤ قمر سلیمان نے کہا ہے کہ بھارت یا افغانستان سے حملہ ہوا تو بھرپور جواب دینگے۔ اگر بھارت نے پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کرنے کی کوشش کی تو اس کا ایسا جواب دیا جائے جو بھارت کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔
ایئرہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ائرچیف نے کہا کہ فضائیہ کی مشق ہائی مارک میں پاکستان کو درپیش موجودہ خطرات سے نمٹنے اور ملک کے فضائی دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے تمام تر کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کو اس سال ایف 16 بلاک 52 قسم کے 30 طیارے امریکہ سے مل جائینگے جو انتہائی جدید ہیں اور انکی حربی صلاحیت پہلے والے طیاروں سے کہیں بہتر ہے۔
پاکستان کو صرف امریکہ سے ملنے والے طیاروں پر ہی انحصار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ امریکہ بھارت کو ایف18 اور ایف 19 طیارے فراہم کر چکا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے عوام کو اپنی بہادر افواج پر مکمل اعتماد ہے اسکے باوجود حکومت پاکستان کوچاہئے کہ ہم ملک کے اندر خلفشار کو ختم کریں۔ قبائلی علاقوں کے عوام سے قبائلی عمائدین اور ممتاز سیاستدانوں جنرل حمیدگل، عمران خان اور علماء کرام مولانا فضل الرحمان، قاضی حسین احمد اور مولانا سمیع الحق اور دیگر صاحبان جو اس سلسلہ میں مؤثر ثابت ہو سکیں‘ انکے ذریعہ مذاکرات کئے جائیں انکا اعتماد بحال کیا جائے۔ یہ اندرونی خلفشار ختم ہونے کے بعد ہمیں اپنی مکمل توجہ بھارت کی تخریبی سازشوں کے انسداد کی طرف مبذول کی جائے۔
بھارت بلوچستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جس طرح مداخلت کر رہا ہے اسکا بھرپور مقابلہ کیا جائے۔ نیز کشمیر کے محاذ پر بھارت پاکستان کو بنجر اور بے آباد بنانے کیلئے جو سازشیں کر رہا ہے اس کیلئے عالمی سطح پر پروپیگنڈہ مشینری کو بہتر بنانے کیساتھ ساتھ کشمیری عوام کو اخلاقی اور سیاسی محاذ پر جو بھی مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔فراہم کی جائے۔
پاک فضائیہ اور افواجِ پاکستان کے ہر سپاہی کی پشت پر 18 کروڑ عوام کھڑے ہیں۔ قوم کو مکمل اعتماد ہے کہ ہماری افواج آزمائش کے ہر موقع پر کامیاب و کامران ہو گی‘ البتہ اس کیلئے افواج پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کے ساتھ ساتھ میزائل سسٹم میں جدید ترین تبدیلیوں کو بھی نظر میں رکھنا ہو گا اور ہمیں اپنے دوست عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ دفاعی معاہدے بھی کرنے پر غور کرنا چاہئے۔
عوام کے اقتصادی‘ معاشی مسائل حل کرنا‘ ان کیلئے روزگار سمیت آبرومندی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو یقینی بنانا‘ انکی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کرنا اور جان و مال کے تحفظ سمیت انکے تمام بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہی کسی حکومت کے اولین فرائض میں شامل اور اسکی گڈگورننس کی ضمانت ہوا کرتا ہے‘ جس معاشرے میں شہریوں کو جان و مال کا تحفظ حاصل ہو‘ نہ انکی بنیادی ضرورتیں پوری ہو رہی ہوں‘اسے کسی صورت فلاحی معاشرہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے فلاحی معاشرے کی بنیاد پر ہی اپنے پارٹی منشور میں روٹی کپڑا مکان کا فلسفہ پیش کیا تھا‘ مگر بدقسمتی سے عوام کی ترجمانی کی دعویدار پیپلز پارٹی کے کسی ایک بھی دور حکومت میں اسکے پارٹی منشور پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آئی‘ البتہ اسکے ادوار حکمرانی میں ملک‘ قوم اور عوام کے مسائل میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔
عوام نے 18 فروری 2008ء کے انتخابات میں اپنے ووٹ کی طاقت سے خاموش انقلاب برپا کرتے ہوئے مشرف کی جرنیلی آمریت اور اسکی باقیات کو محض اس لئے مسترد کیا تھا کہ اسکی پالیسیوں کی پیدا کردہ غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری اور آٹا‘ چینی‘ بجلی‘ گیس کی قلت اور یوٹیلٹی بلوں میں شتربے مہار اضافہ نے انہیں زندہ درگور کر دیا تھا۔ اپنے گوناں گوں مسائل میں ریلیف حاصل کرنے اور فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھنے کیلئے ہی عوام نے موجودہ حکمرانوں کو سلطانی ٔ جمہور کا مینڈیٹ دیا مگر اس حکومت کے دو سال گزرنے کے بعد عوام کی اقتصادی اور معاشی حالت مشرف آمریت سے بھی بدتر ہو چکی ہے اور انہیں سکھ کا سانس لینے کا کوئی راستہ بھی نظر نہیں آرہا۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی جن عوام کی طاقت سے توانائی کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ اور وعدہ کر رہے ہیں‘ ان عوام کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ وہ اپنے گوناںگوں مسائل میں دھنسے خطِ غربت سے نیچے کی زندگی کی جانب تیزی سے لڑھکتے جا رہے ہیں اور بچائو کیلئے انہیں کوئی امید‘ کوئی سہارا بھی نظر نہیں آرہا۔ گزشتہ سال کے عالمی سروے کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالے افراد کی تعداد لگ بھگ چھ کروڑ تھی‘ جو اب یکایک دس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ طبقاتی تفاوت اتنا بڑھ گیا ہے کہ مڈل کلاس کا تصور ہی غائب ہونے لگا ہے۔ اسی طرح امیر اور غریب کے مابین حدِ فاصل کا تصور بھی مفقود ہونے لگا ہے۔ بے وسیلہ غریب عوام کا ہجوم بے کراں ہے‘ جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں‘ اقتدار اور طاقت و اختیار کے ایوانوں تک بھی انکی رسائی نہیں ہو پاتی اور انہیں مستقبل قریب میں اپنی آسودہ زندگی کیلئے کسی قسم کا ریلیف ملنے کی بھی کوئی توقع نہیں۔ اسکے برعکس مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کے وارے نیارے ہیں‘ جو اپنی طاقت و اختیار اور اقتدار کے ایوانوں میں اپنی خاندان در خاندان رسائی کی بدولت تمام قومی دولت و وسائل پر بھی قابض ہو چکے ہیں۔ خود کو احتساب سے بالاتر رکھنے کیلئے انصاف کے ایوانوں میں اپنے عمل دخل کی منصوبہ بندی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور مزید لوٹ مار کی بھی مکمل منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں۔ یہ صورتحال معاشرے کے غیرمتوازن ہونے پر ہی منتج نہیں ہو گی‘ بلکہ غربت‘ بھوک‘ بے روزگاری‘ مہنگائی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سے عاجز آئے بے وسیلہ مجبور انسانوں کو اس خونیں انقلاب کی راہ بھی دکھا دیگی جس کا ڈراوا وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اپنی اکثر تقاریر میں اپنے فنِ خطابت کو تسلیم کرانے کیلئے دیا کرتے ہیں۔
اس صورتحال میں وزیراعظم کے صرف اس دعوے سے عوام کی تشفی نہیں ہو سکتی کہ وہ انکی طاقت سے انکے مسائل حل کرینگے جبکہ انکے دعوے کے قطعی برعکس گزشتہ روز عوام پر بجلی کے نرخوں میں ایک روپیہ دو پیسے فی یونٹ مزید اضافہ مسلط کر دیا گیا اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی اذیت اس انتہا تک پہنچا دی گئی کہ بغیر کسی پیشگی اعلان کے عوام کو مسلسل چار چار گھنٹے اور روزانہ بارہ سے چودہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب سٹیٹ بنک نے اپنی پانچویں مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود ساڑھے بارہ فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی یہ ’’نوید‘‘ سنائی ہے کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ آئندہ ماہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں پانچ سے سات روپے فی لٹر مزید اضافہ کے خطرے کی گھنٹی بھی اوگرا کی جانب سے پہلے ہی بجائی جا چکی ہے۔ مہنگائی کے عفریت کے سامنے عوام کی قوت خرید پہلے ہی دم توڑ چکی ہے‘ ٹیکسوں کی بھر مار اور اشیائے خوردنی کے نرخوں میں آئے روز کے اضافہ نے بالخصوص تنخواہ دار طبقہ کیلئے جسم کے ساتھ تنفس کا سلسلہ برقرار رکھنا بھی مشکل بنا دیا ہے۔ نتیجتاً حالات کے ستائے بے روزگار نوجوانوں میں جرائم کی زندگی اختیار کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو چکا ہے جبکہ اپنے اقتدار کی کشمکش میں مبتلا حکمران طبقہ نے بھی عوام کو چوروں‘ ڈاکوئوں‘ راہزنوں‘ قاتلوں اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ مہنگائی کے طوفان کے ظالم تھپیڑوں کی بھی زد میں ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مستقل اور مسلسل عذاب بھی ان کیلئے ذہنی کرب و اذیت کا باعث بنا ہوا ہے۔ دہشت گردی کی پیدا کردہ امن و امان کی خراب تر صورتحال میں سرمایہ کاری کا عمل رکنے اور قومی معیشت کی ترقی کا پہیہ جامد ہونے کے باعث روزگار کے دروازے بھی ان پر بند ہو چکے ہیں۔ نہ گھر کے اندر انہیں سکون مل رہا ہے‘ نہ گھر کے باہر سکھ کا سانس دستیاب ہے۔ کیا ایسے حالات میں عوام کو وزیراعظم کی اس تھپکی سے سلایا جا سکتا ہے کہ انکے مسائل حل کرنے کیلئے انہی کی طاقت بروئے کار لائی جائیگی۔ فی الحقیقت انکی آنکھوں کی تو نیند ہی اڑا دی گئی ہے۔ اس صورتحال میں عوام کیلئے جب تک فوری ریلیف کا راستہ نہیں نکالا جائیگا‘ وہ حکومت کی جانب سے ریلیف کے کسی وعدے کے چکمے میں نہیں آئینگے‘ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب ہی عوام کو تنگ آمد بجنگ آمد کی راہ پر لانے کیلئے کافی ہے‘ جس کا پرتشدد عوامی مظاہروں سے واضح اشارہ بھی مل رہا ہے۔
بے شک کالاباغ ڈیم اور سستی ہائیڈل بجلی کے حصول کیلئے دوسرے آبی وسائل بروئے کار لانا ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مستقل حل ہے‘ کالاباغ ڈیم بنانے کا کوئی نام نہیں لے رہا مگر عوام کو اس عذاب سے فوری ریلیف درکار ہے‘ جس کیلئے سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ جو تھرمل پاور پلانٹس انکے دس ارب روپے کے قریب بلوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بند پڑے ہیں‘ حکومت اپنی عیاشیاں ختم کرکے اور سرکاری اداروں کے ذمہ واجب الادا واپڈا کے بل ادا کرکے واپڈا کو نجی تھرمل پاور پلانٹس کے واجبات ادا کرنے کے قابل بنائے‘ تاکہ وہ بجلی کی فراہمی کا سلسلہ پھر سے شروع کر سکیں اور اسکے ساتھ ساتھ برادر اسلامی ملک ایران کی 22 سو میگاواٹ تھرمل بجلی کی چھ سے سات سینٹ فی یونٹ کے سستے نرخوں پر فراہمی کی پیشکش پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ اگر نجی تھرمل پاور پلانٹس بھی دوبارہ چالو کرا دیئے جائیں اور ایران سے بھی مطلوبہ بجلی حاصل کرلی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بجلی کا شارٹ فال دور کرکے لوڈشیڈنگ کے عذاب سے عوام کو نکالنے کے قابل نہ ہو سکیں۔ اسی طرح امن و امان کی صورتحال پر قابو پا کر قومی معیشت کا جامد پہیہ چلنے کی صورت میں مہنگائی‘ بے روزگاری جیسے مسائل میں عوام کو فوری ریلیف دیا جا سکتا ہے۔
اگر حکمران طبقہ کے ارادے نیک ہوں اور وہ فی الواقع عوام کے گوناں گوں مسائل حل کرنے کیلئے فکرمند ہوں تو قومی ترقی کی مستقل پالیسیوں کے ساتھ ساتھ فوری ریلیف کے منصوبوں کو بھی عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت کے دعوئوں اور وعدوں کے ساتھ عوام کے مسائل بھی بڑھتے رہیں گے تو عوام اپنے مسائل سے نجات کیلئے اپنی طاقت ضرور استعمال کرینگے مگر وہ طاقت انکے مسائل میں اضافہ کا باعث بننے والے حکمران طبقہ کیخلاف ہی استعمال ہو گی۔
لیڈر نہیں‘ عوام ہی یہ فیصلہ کر سکتے ہیں
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سیکرٹری جنرل سرانجام خان نے کہا ہے کہ صوبہ سرحد کے نام میں تبدیلی، پختونخوا ہمیں قبول نہیں ہے۔ اور صوبہ سرحد کے نام کے مسئلہ پر ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہم نہیں خود اے این پی والے کر رہے ہیں۔ یہ معاملہ بڑا حساس اور نظریاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) صوبہ سرحد کے ذمہ داران نے اپنی لیڈرشپ کو دئیے جانے والے میمورنڈم میں واضح کیا ہے کہ پختونخوا یا پختونستان کا نام پاکستان کے بنیادی نظریہ سے انحراف ہے۔
سرانجام خان ایک ہوش مند سیاستدان ہیں اور وہ درست کہہ رہے ہیں کہ صوبہ سرحد کا نام اب تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر اے این پی والے پختونخوا پر ضد کر رہے ہیں تو عوام سے رجوع کرلیں‘ 47ء کے ریفرنڈم کی طرح وہ پھر ناکام ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت نام کی تبدیلی قومی اتحاد و یکجہتی پر اثرانداز ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی سازش نہیں کی جو لوگ یہ الزام لگاتے ہیں انکی اپنی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اگر کوئی گروہ واقعی نام بدلنے کو ضروری سمجھتا ہے تو اسے یہ خیال اب کیوں آیا ہے؟ انگریز نے صوبہ سرحد کو پنجاب سے کاٹ کر علیحدہ کیا تھا۔ اس وقت موجودہ لیڈروں کے بزرگ موجود تھے۔ انہوںنے شمال مغربی صوبہ سرحد کے نام پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ صوبہ سرحد کا پرانا نام پختونخوا نہیں۔ پنجاب ہے۔ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں کابل تک پنجاب تھا۔ ہری سنگھ نلوا، کابل کا گورنر تھا۔ اس وقت تو کسی کی رگِ حمیت نہیں پھڑکی۔ آج جب سب مسلمان بھائی یہاں بیٹھے ہیں پھر ہم اتنے تلخ اور جان دینے یا لینے پر آمادہ کیوں ہیں۔ اگر صوبہ سرحد کا نام بدلنا ہے تو پھر سرحد کے عوام سے ریفرنڈم کرالیا جائے جس میں یہ وضاحت کی جائے کہ ہم صوبہ کا نام تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیڈروں کو ازخودیہ فیصلہ نہیں کرنا چاہئے یہ فیصلہ عوام کو کرنا چاہئے۔
وطنِ عزیز کے پاسبانو قوم تمہارے ساتھ ہے
پاک فضائیہ کے سربراہ ائرچیف مارشل راؤ قمر سلیمان نے کہا ہے کہ بھارت یا افغانستان سے حملہ ہوا تو بھرپور جواب دینگے۔ اگر بھارت نے پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کرنے کی کوشش کی تو اس کا ایسا جواب دیا جائے جو بھارت کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔
ایئرہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ائرچیف نے کہا کہ فضائیہ کی مشق ہائی مارک میں پاکستان کو درپیش موجودہ خطرات سے نمٹنے اور ملک کے فضائی دفاع کو مضبوط بنانے کیلئے تمام تر کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کو اس سال ایف 16 بلاک 52 قسم کے 30 طیارے امریکہ سے مل جائینگے جو انتہائی جدید ہیں اور انکی حربی صلاحیت پہلے والے طیاروں سے کہیں بہتر ہے۔
پاکستان کو صرف امریکہ سے ملنے والے طیاروں پر ہی انحصار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ امریکہ بھارت کو ایف18 اور ایف 19 طیارے فراہم کر چکا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے عوام کو اپنی بہادر افواج پر مکمل اعتماد ہے اسکے باوجود حکومت پاکستان کوچاہئے کہ ہم ملک کے اندر خلفشار کو ختم کریں۔ قبائلی علاقوں کے عوام سے قبائلی عمائدین اور ممتاز سیاستدانوں جنرل حمیدگل، عمران خان اور علماء کرام مولانا فضل الرحمان، قاضی حسین احمد اور مولانا سمیع الحق اور دیگر صاحبان جو اس سلسلہ میں مؤثر ثابت ہو سکیں‘ انکے ذریعہ مذاکرات کئے جائیں انکا اعتماد بحال کیا جائے۔ یہ اندرونی خلفشار ختم ہونے کے بعد ہمیں اپنی مکمل توجہ بھارت کی تخریبی سازشوں کے انسداد کی طرف مبذول کی جائے۔
بھارت بلوچستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جس طرح مداخلت کر رہا ہے اسکا بھرپور مقابلہ کیا جائے۔ نیز کشمیر کے محاذ پر بھارت پاکستان کو بنجر اور بے آباد بنانے کیلئے جو سازشیں کر رہا ہے اس کیلئے عالمی سطح پر پروپیگنڈہ مشینری کو بہتر بنانے کیساتھ ساتھ کشمیری عوام کو اخلاقی اور سیاسی محاذ پر جو بھی مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔فراہم کی جائے۔
پاک فضائیہ اور افواجِ پاکستان کے ہر سپاہی کی پشت پر 18 کروڑ عوام کھڑے ہیں۔ قوم کو مکمل اعتماد ہے کہ ہماری افواج آزمائش کے ہر موقع پر کامیاب و کامران ہو گی‘ البتہ اس کیلئے افواج پاکستان کو ایٹمی صلاحیت کے ساتھ ساتھ میزائل سسٹم میں جدید ترین تبدیلیوں کو بھی نظر میں رکھنا ہو گا اور ہمیں اپنے دوست عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ دفاعی معاہدے بھی کرنے پر غور کرنا چاہئے۔