حکومت کو درپیش چیلنجز اور اتحادیوں کے بدلتے تیور
حکومتی اتحادی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی (پاپ)،متحدہ قومی موومنٹ اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے حکومت کے ساتھ گلے شکوے شروع ہو گئے ہیں۔ یہ گلے شکوے بالخصوص سندھ حکومت کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ میں (باپ) کے رکن قومی اسمبلی خالد مگسی نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ حکومت دو ووٹوں پر کھڑی ہے، تبدیلی کا مقصد کچھ اور تھا مگر اب کچھ اور نظر آرہا ہے‘ اب ہم بات کرتے ہیں تو یہ منہ دوسری طرف کرلیتے ہیں‘ ابھی وقت ہے‘ رویے بدل لیں۔ اسی طرح بلوچ رہنما اسلم بھوتانی نے بھی حکومتی معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم کسی کی محبت میں موجود حکومت کا حصہ بنے ہیں‘ ہمیں فنڈز تک نہیں دیئے جارہے۔ انکے بقول ہم پی ٹی آئی کے دور میں خوش تھے‘ تحریک انصاف کے دور میں فنڈز تھے مگر عزت نہیں تھی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی اسامہ قادری نے بھی حکومت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کا تقاضا کیا کہ اتحادیوں کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں اور ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا اس پر عمل کیا جائے۔ ایم کیو ایم نے گزشتہ روز معاہدے سے دستبردار ہونے کی دھمکی بھی دی اور سندھ میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات اور انکے نتائج پر بھی سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ وسیم اختر کے بقول ہم معاہدے کی وجہ سے خاموش ہیں‘ اگر پیپلزپارٹی معاہدے سے منحرف ہوتی ہے تو ایم کیو ایم بھی بہادرآباد کو تالہ لگا کر سڑکوں پر ہوگی۔ علاوہ ازیں حکومتی اتحادی جمعیت علماء اسلام (ف) نے سندھ حکومت کیخلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ جے یو آئی سندھ کے جنرل سیکرٹری راشد محمود نے گزشتہ روز لاڑکانہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی پر سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے اپنی پارٹی قیادت سے بھی ’’زرداری بھگائو‘ سندھ بچائو تحریک‘‘ شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔
حکومتی اتحادی جماعتوں کے یہ گلے شکوے اگرچہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں پیدا ہوئے ہیں جن میں حکمران پیپلزپارٹی نے واضح برتری حاصل کی ہے تاہم جب اختلافات کی گرہ کھلتی ہے تو حکومتی اتحادیوں کے مابین وجہ اختلاف بننے والے دیگر معاملات بھی لپیٹ میں آنے کے امکانات مسترد نہیں کئے جا سکتے۔ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرنیوالی جماعتیں چونکہ وفاق میں بھی حکومتی اتحادی ہیں جن کے ارکان نے عدم اعتماد کی تحریک میں اس وقت کے حکومتی اتحاد کو چھوڑ کر اپوزیشن اتحاد کا ساتھ دیا اور انکی معاونت سے ہی عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی تھی اس لئے ان حکومتی اتحادیوں کے تحفظات لامحالہ وفاقی حکومت پر بھی اپنے اثرات مرتب کر سکتے ہیں جو پی ٹی آئی حکومت ہی کی طرح موجودہ حکومت کی بساط لپیٹنے میں بھی معاون ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور انکے بقول یہ صرف مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی کی نہیں بلکہ تمام اتحادیوں کی حکومت ہے اس لئے اتحاد کے قائدین جو بھی فیصلہ کرینگے اس پر عملدرآمد ہوگا۔ اسکے باوجود آج حکومت کی رٹ اور کارکردگی کے حوالے سے ملک کے عوام میں جس تیزی کے ساتھ مایوسی کی فضا پیدا ہو رہی ہے وہ سابق حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمرانوں کے پائوں کے نیچے سے بھی اقتدار کا قالین کھسکانے کا موجب بن سکتی ہے۔ حکومتی اتحادیوں کے تو اقتدار میں حصہ کے حوالے سے اختلافات و تحفظات ہو سکتے ہیں جو سیاسی بلیک میلنگ کے ذریعے حکومت سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے متقاضی رہتے ہیں جبکہ اس سے حکومت کی صفوں میں انتشار اور عدم استحکام کا تاثر اجاگر ہوتا ہے تو حکومتی مخالفین کو یہ فضا حکومت مخالف تحریک اور اسے گرانے کیلئے استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے ساتھ بھی یہی المیہ کارفرما رہا کہ اسکے اتحادیوں نے عوام کے حکومت مخالف جذبات کو بھانپ کر ہر مرحلہ پر حکومت پر کاٹھی ڈالنے کی کوشش کی اور بالآخر اپوزیشن اتحاد کے کیمپ میں داخل ہو کر حکومت کی بساط الٹانے کی راہ ہموار کردی۔ اب یہی حکومتی اتحادی موجودہ مخلوط کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں تو محض دو ووٹوں پر ان کا حکومت کے دارومدار کا دعویٰ درخوراعتناء نہیں سمجھتا جاسکتا جبکہ موجودہ حکومت آج غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتے مسائل کے باعث عوام میں پیدا ہونیوالی مایوسی کی زیادہ زد میں ہے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ حکومتی اتحادی جماعتوں کے قائدین نے پی ٹی آئی حکومت کے دور میں عوام کے گھمبیر ہوتے روٹی روزگار اور غربت‘ مہنگائی کے مسائل کی بنیاد پر ہی حکومت کیخلاف چائے کے کپ میں طوفان اٹھایا تھا اور اسکے اقتدار کے خاتمہ کی راہ ہموار کی جس کیلئے بالآخر حکومتی اتحادیوں نے ہی فیصلہ کن کردار ادا کیا اور حکومت کے پائوں کے نیچے سے اقتدار کا قالین سرکانے میں اس وقت کی اپوزیشن کی معاونت کی۔
جے یو آئی (ف) کے علاوہ آج وہی اتحادی موجودہ حکومت کا حصہ ہیں جو اگرچہ فی الوقت سندھ حکومت کے معاملات پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں تاہم غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے باعث عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی کو بھانپ کر وہ موجودہ حکومت کو بھی چلتا کرنے میں معاون بن سکتے ہیں۔
ملک کے اقتصادی مسائل تو پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہو چکے ہیں اور آئی ایم ایف کے ڈومور کے تقاضے نبھاتے ہوئے حکومت نے عوام پر مہنگائی کے سونامی اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پی ٹی آئی حکومت بھی اس حوالے سے عوام کے بڑھتے مسائل پر بے نیاز نظر آتی تھی جس کا خمیازہ اس نے اقتدار سے فراغت کی صورت میں بھگتا۔ اگر موجودہ حکومت بھی اپنے اقدامات سے مہنگائی کے طوفان اٹھانے کے بعد عوام کو مطمئن کرنے کیلئے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھاتی اور انکی مالی اور اقتصادی مشکلات میں مزید اضافے کا ہی عندیہ دیتی ہے جیسا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے گزشتہ روز اتحادی قائدین سے ملاقات اور ارکان اسمبلی سے خطاب کے دوران اگلے ماہ بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھنے کا بھی خدشہ ظاہر کیا ہے تو عوام انکے منہ سے یہ لالی پاپ سن کر ہرگز مطمئن نہیں ہونگے کہ حکومت درپیش چیلنجز سے نمٹ کر آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر اس انداز میں حکومت کے آگے بڑھنے کا عمل مرے کو مارے شاہ مدار کی تصویر بنے عوام کو قبرستان کی راہ دکھا رہا ہے تو عوام میں بڑھتی اس مایوسی کا موجودہ اپوزیشن پی ٹی آئی بھی فائدہ اٹھائے گی اور حکومتی اتحادی بھی اسکے ساتھ وہی سلوک کر سکتے ہیں جو انکے ہاتھوں پی ٹی آئی حکومت کو بھگتنا پڑا تھا۔
حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں آج عوام کی جو درگت بن رہی ہے اور وہ روزافزوں مہنگائی کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کی اذیت ناک لوڈشیڈنگ بھی بھگت رہے ہیں جبکہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ان پر ہر ماہ بجلی کے بلوں میں سات آٹھ روپے فی یونٹ اضافی بوجھ بھی ڈالا جا رہا ہے تو وہ سسٹم کے استحکام کی خواہش رکھتے ہوئے بھی حکومت اور سسٹم کیلئے رطب اللسان نہیں ہو سکتے۔ حکومت کو انہیں بہرحال انکے غربت‘ مہنگائی کے مسائل میں فوری ریلیف دے کر ہی مطمئن کرنا ہے‘ بصورت دیگر اقتدار کی میوزیکل چیئر میں ایک دوسرے کو ٹوپل کرنے کا کھیل چلتا ہی رہے گا جس میں سسٹم کا استحکام خواب بن کر رہ جائیگا۔