زوال ہی انسان کا مقدر ہے
انسان کے جسم میں 14گرام وزن سے بھی کم ایک ایسی لطیف چیز ہے کہ جس نے 6فٹ سے زائد قد کے انسان کو طاقتور اور نجانے کیا سے کیا بنایا ہواہے اور وہ انسانی جسم کی اصل طاقت روح ہے۔ روح ہی کے دم سے انسان زندہ اور سب کچھ ہے جونہی روح کا رشتہ جسم سے منقطع ہوتا ہے تو وہی چلتا پھیرتا دوسروں کو حقیر سمجھنے اور اپنے آپ کو دنیا کا سب سے طاقت ور اقتدار کے نشے میں چور انسان بے بس و لاچار ہو جاتا ہے، یہ خوب صورت جسم مردہ بن جاتا ہے۔ یہ ہے انسان کی حقیقت ، لیکن ہم سمجھ نہیں رہے دنیا کا طاقتور انسان بھی بیماری اور موت کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے۔
رستم زماں خاندان کا چشم چراغ اور اپنے وقت کا ایک سب سے بڑا شہہ زور اور حسین پہلوان اکرم عرف اکی پہلوان ، جس کو دیکھنے کیلئے لاہور کی سڑکیں بند ہو جایا کرتی تھیں۔ اکی پہلوان شیر ببر امام بخش خان رستم ہند کا تیسرا بیٹا تھا اور اُس نے یو گنڈا کے صدر عدی امین کے ساتھ بھی کشش لڑا کر اُسے شکست دی تھی اور اِس کے علاوہ اپنے وقت میں بڑے بڑے نامی گرامی پہلوانوں کو چت کیا تھا لیکن انجام کیا ہوا صرف 57 برس کی عمر میں شوگر کے ہاتھوں بے بس اور مجبو ر ہو کر اِس فانی دنیا سے کوچ کر گیا۔ ایسا خوب صورت ہیرو کہ جب مکھڑا پنجابی فلم کہ جس میں سنتوش کمار اورصبیحہ خانم ہیرو ہیرو ئن تھے جبکہ ایک دیسی کشتی کے سین میں اکی پہلوان بھی اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ فلم میں موجود تھا جس پر فلم ساز نے افتتاح کے موقع پر اکی پہلوان اور دیگر بھولو برادرن ،سنتوش کمار اورصبحہ خانم بھی اِس موقع پر موجود تھے لیکن جونہی بھولو برادرن آئے تو اُن کے سامنے فلمی مقبول جوڑی سنتوش کمار اورصبیحہ خانم بھی بونے نظر آئے جبکہ اکی پہلوان نے آنکھ اُٹھا کر بھی صبیحہ خانم کی طرف نہ دیکھا یہ تھے اصلی ہیرو اور یہ لوگ طاقت کا پہاڑ تھے لیکن کیا ہوا اکی پہلوان ہڈیوں کا پنجر بن کر فوت ہو گیا ۔
اِسی طرح اقتدار والوں کا انجام بھی بڑا بھیانک اور عبرت ناک ہوتا ہے۔ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کہ جس کی دہشت اور خوف کی وجہ سے بڑے لوگوں کا پیتہ پانی ہو جایا کرتا تھا اور جس کے بغیر صدر ایوب خان کوئی کام نہیں کرتا تھا لیکن کیا ہوا اپنے ہی بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو کر جہاں فانی سے کوچ کر گیا۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے مقدر میں زوال اور کمزور ی لکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو صرف انسانوں کو طاقت اوراقتدار دے کر آزمانا چاہتا ہے کہ میرے بندے کہ پاس اگر طاقت ہے تو یہ اپنی طاقت کس طرح سے اور کہاں خرچ کرتا ہے ۔ قدرت ہر انسان کو دس سے بیس سال تک ایک خاص وقت عطا کرتی ہے جس کو ہم جوانی کہتے ہیں اِسی محدود مدت میں ہی انسان کا امتحان شروع ہو تا ہے کہ وہ اِن دنوں کیا کرتا ہے اور کس طرح سے زندگی بسر کرتا ہے لیکن افسوس کہ ہم میں سے اکثر اِن دنوں اللہ تعالیٰ کی بہت کم مانتے ہیں اور پھر جب جوانی کا نشہ غروب ہونا شروع ہو جاتا ہے تو پھر ہمارے اندر تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے ۔ پھر ہم عاجزی بھی اختیار کرتے ہیں اور دوسروں کے اُن کاموں پر غصہ ہونا شروع ہوتے ہیں جو ہم خود جوانی کے دنوں میں کر چکے ہوتے ہیں۔
شیخ سعدی جیسے دانا بزرگ نے بھی کہا تھا کہ جوانی کی توبہ اور گناہوں سے کنارہ کشی پیغمبروں کا شیوہ ہے۔ اس لیے انسان کو جوانی ہی کے دنوں میں توبہ کرنی چاہئے ۔جب طاقت ختم ہو جاتی ہے تو پھر بھیڑ یا جیسا خونخوار درندہ بھی بکری اُٹھانے سے باز آجاتا ہے اس لیے کہ اُس کے اندر طاقت اور جوانی کا جوہر ہی ختم ہو چکا ہوتا ہے ۔ اگر اُسے قدرت کی طرف سے دوبارہ طاقت اور جوانی مل جائے تو وہ پھر سے خونخواری پر اتر آئے اسی طرح ہی ہم انسان ہیں کہ جوانی اور طاقت ایک مرتبہ ہی ملتی ہے پھر اُس کے بعد انسان چاہے جتنی اعلیٰ خوراک کھائے سب فضول وقت محدود ہوتا ہے اور جوانی نے بھی پھر لوٹ کر نہیں آتا۔ اس لیے تو حضور اقدس ؐ نے فرمایا ! ’’ جوانی کو غنیمت جانو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کی قدر کرو بیماری سے پہلے اور زندگی کی قدر کرو موت سے پہلے۔‘‘ کاش ہم اپنے آقا رسالت مآبؐ کے اقوال مبارک پر صحیح معنوں میں عمل کرنے والے بن جائے وگرنہ انسان کا مقدر ہی زوال اور موت ہے اس لیے پھر تکبر اور ہوس کیسی؟