پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کا معاملہ ؟
Right person for the right jo b ایک سہانہ خواب اور صریحاََ اپنے ساتھ دھوکہ دہی کی مانند ہوگیا ہے ۔ شاید تاریخ پاکستان کی شروعات سے اب تک ہم رائٹ پرسن فار دا رائٹ جابکے حامل نعرے کو کسی بھی جگہ نافذ نہیںکر سکے۔پچھلی حکومتیں جیسی بھی تھیں مگر 2018 میں عمران خان کی بمشکل کامیابی کے بعد پرانے پاکستان میں نیا پاکستان بننے کی تمنا ابھر نے لگی۔ عمران خان نے جب ملک کی باگ دوڑ سنبھالی تولوگوں کے ذہن و افکار پر چھائے عمران اسماعیل کے گانے’’ روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی‘ کا خمار سر چڑھ کر بولنے لگا۔ پہلے 90 دن پھر ایک سال اور پھر کہا گیا کہ پچھلے 35 سالہ حکومتی ادوار کی گندگی کو پانچ سال میں نہیں ٹھیک
کیا جاسکتا اس کے لیے دس سے پندرہ سال چاہیے ہوں گے ۔خیر چار و ناچار لوگوں نے آنکھیں موند لیں مگر احتساب کا نظام ٹھیک کرنے کی بجائے صرف اپوزیشن کا احتسا ب شروع کر دیا گیا ۔ معیشت کی ڈوبتی نیا کو بچانے کے ترکیبیں سوچنے کے بجائے خوش آمدیوں اور غیر منتخب شدہ لوگوں کی خدمات کو حاصل کر لیا گیا۔ اس تحریر کی کا مقصد یہ بات باور کرانا ہے کہ آخر خود کو ملک و قوم کا مسیحا اور ہیرو کہنے والے بھی جب ناکامی کا راگ الاپنے لگیں، آج اڑھائی سال گزرنے کے بعد بھی اداروں کے کرپٹ ہونے کی بات کریں اور اپنی بے بسی کا رونا روئیںتو پھر تف ہی کیا جاسکتا ہے کہ انہیں ٹیسٹنگ کے لیے کیوں لایا گیا؟ انہیں کیوں مسلط کیا گیا؟اڑھائی سال گزر گئے مگر وفاقی وزیر ہوا بازی سرور خان کو یہ نہ پتہ چل سکا کہ پی آئی اے کے 869 پائلٹس میں سے 262 پائلٹس کی ڈگری فیک ہے۔ اس دور میں جتنے ریل حادثات ہوئے اور انسانی جانوں کا ضیاع ہو ا اتنا تو آج تک نہیں ہوا۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تواپنی 22 سالہ جدوجہد میں ہمیشہ حکومتوں پر الزامات لگانے کیساتھ ساتھ بیڈ گورننس ، کرپٹ لیڈر شپ ،رول آف لا ء اور معیشت کی بات کرتے۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ اپنی ٹیم پر کچھ ضرورت سے زیادہ ہی اعتماد کربیٹھے ہیں۔ یا پھر شاید انہوں نے ٹیم کے انتخاب میں غلطی کر دی ہو ! یا پھر شاید ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہو کہ مشہور کہاوت ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دیکھانے !! عمران خان نے ہمیشہmoney launderer ، کرپٹ اشرافیہ اور اداراجاتی نقائص کی بات کی اور جس کا ذکر وہ ٹی وی ٹاک شوز ، پریس کانفرنسزاور نجی محافل اور پھر 126 دن کے تاریخوں دھرنوں میں کرتے تھے اور اپنی ڈریم ٹیم کا بتا تے تھے، افسوس وہ کھوٹے سکے ثابت ہو رہے ہیں۔پارٹی گروپ بندی ، حرص بندی ، انا پرستی اور اقرباء پروری کا شکار ہوچکی ہے۔عمران خان کہاکرتے تھے کہ اگر مجھے ایک بار حکومت مل جائے تو پھر دیکھیں میں کیسے چوروں ڈاکوئوں اور معیشت دشمن عناصر کا احتساب کرا کر انصاف کی مثال بنائوں گا۔ احتساب اوپر سے شروع ہوتا ہے مگر کچھ لوگوں کو نااہلی کے باوجود دوبارہ حکومتی عہدے سونپ کر انہوں نے ,,مثال،،قائم کردی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بندہ حکومت میں نہیں ہوتا تو اسے حکومت صرف تین چیزوں کا مرکب ’’ چمچ، پلیٹ اور شہد‘‘ نظر آتی ہے ، مگر حکومت سنبھالنے کے بعد طبیعت کی سختی میں کافی افاقہ ہو جاتا ہے۔ عمران خان کو چند عوامل پر کام کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ تاریخ موقع باربارنہیں دیا کرتی اور مرتبین تاریخ بڑے بے رحم واقع ہوئے ہیں کہ وہ کبھی غلطی معاف کرتے ہیں نا کوئی مستی!!(1)۔ انصافی ایجنڈے کے مطابق ریفارمز کریں پھر چاہیے وہ اداراجاتی ہوں یا غیر ادارہ جاتی ، رکاوٹ چاہیے بیوروکریسی ہو یا کوئی اور ۔اگلے الیکشن میں کامیابی چاہیے تو ریفارمز کرڈالیں۔(2)۔ میرٹ بحال کریں ، کمزور افراد کو صوبوں اور دیگر وزارتوں سے ہٹھا کرصحیح لوگوں پر کرسی پر بٹھائیں(3)۔ صرف اور صرف منتخب نمائندوں کو ہی وزارتوں پر براجماں ہونے دیں اور غیر منتخب نمائندوں کو وزارتوں سے باہر کریں اور ان سے کوئی اور تعمیری کام لیں۔ (4)۔ خواہ مخواہ کے کان بھرنے والے خالی ٹائپ مشیروں کی خوش آمد سے بچیں ، جو بھی وزیر یا خیر خواہ مثبت اور مدلل بات کرے اسے سنیں ، فالو کریں اور پاکستان کے لیے پلان کریں ۔(5) ۔ کم عقل ، بد لاابالی افراد کو فارغ کریں اور ملکی معیشت کا پہیہ گھمانے کا سوچیں۔ آپ کی ناتجربہ کار ٹیم کا کام صرف اور صرف تنقید ہے اور اس پر اس کا عزم غیر متزلزل ہے۔ آپ چھ ماہ میں کچھ کر لیں گے ایسا ناممکن ہے۔ اگلے چند ماہ میں آٹھ دس مہمان ارکان آپ کو داغِ مفارقت دے جائیں اس لیے آپ کارکردگی پر توجہ دیں۔(6) ۔ تانیہ ادرس ،ڈیجیٹل کی دنیا میں جھوٹے انقلاب کی رام لیلٰی کو سائیڈ پر رکھ کر بے روزگاروں کے سر پر دست شفقت رکھیں اور کم آمدنی والے افراد کی تنخواہوں میں اضافہ کرے۔ (7)۔ اپنی ایکسپورٹڈ معاشی ٹیم جس میں حفیظ شیخ، رضا باقر، رزاق دائود، ندیم بابراور ارباب شہزاد جیسے نیشنل سیکورٹی کے لیے چیلنج افراد ہیں ان کو ان کے دیس روانہ کریںاور حقیقی معنوں میں ملکی معاشی خدوخال کو سمجھنے والی منتخب شدہ ٹیم کو لگائیںاور کچھ سمجھ نہ آئے تو مسلم لیگ ن کے مفتاح اسماعیل ، خرم دستگیر، مصدق ملک، احسن اقبال جیسے کئی اور افراد سے رہنمائی لینے سے دریغ نہ کرے کیوں کہ بھلا پاکستان کا ہی ہوگا۔فی الحال تو پی ٹی آئی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔البتہ اگلا
ایک سال ضرور اہم ہے جس میں انہیں اپوزیشن کے دبائو یا پارٹی ورکرز کیطرف سے پارٹی چھوڑنے کی دھمکیوں کا سامنے بھی کرنا پڑھ سکتا ہے مگر حکومت کو عدم اعتماد وغیرہ کا خطر ہ نہیں ہے۔ اگر حکومت سال میں اپنے سیٹ ٹارگٹس اور اپنے پارٹی منشور پر بنا کسی منفعت کے کام شروع کردیتی ہے تو پھر عمران خان کو 23ء کا الیکشن جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا نہیں تو مورخ واپسی کا راستہ دکھانے کے لیے تیار کھڑا ہے۔