ناکامی سے دو چار نظام حکومت؟
دنیا میں تین طرح کا طرز حکمرانی جاری ہے ، کہیں پارلے مانی نظام جمہوریت ہے ،کہیں صدارتی نظام حکومت تو کہیں بادشاہت ہے ۔ کچھ ممالک میں جمہوریت نہیں، آمریت ہے کہ باپ کے بعد بیٹا حکمران بن جاتا ہے ،مثلا شام اور شمالی کوریا وغیرہ ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت نہیں بادشاہت ہے ۔ باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی اپنی سیاسی پارٹی کی تخت نشین ہوتی ہے ۔عوام کبھی ایک سیاسی پارٹی مالکان سے امیدیں باندھ لیتے ہیں ، کبھی دوسری سیاسی پارٹی کو نجات دہندہ خیال کر کے اس کے گیت گانا شروع کر دیتے ہیںلیکن عوام کو بے وقو ف بنانے کا فن ہمارے سیاست دانوں سے زیادہ کون جانتا ہے ۔ اگر پارلیمانی نظام حکومت کی بات کی جائے تو سوائے پاکستان کے یہ نظام ہر جگہ بڑی کامیابی سے چل رہا ہے ۔ پاکستان میں یہ نظام اس لیے ملک و قوم کی تباہی کا باعث بنتا جا رہا ہے کہ پاکستانی سیاست دان قوم سے مخلص نہیں۔ دنیا میں جو بھی طرز حکمرانی ہو ، ترقی کی سیڑھی بلدیاتی نظام کو ہی تسلیم کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ نظام اس لیے نہیں پھل پھول سکتا کہ ہمارے سیاست دان جن کا تعلق وڈیروں ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے ہوتا ہے، وہ بلدیاتی اداروں کے عام ممبران کو منہ نہیں لگانا چاہتے۔دنیا میں جہاں بھی پارلے مانی نظام حکومت ہے ، وہاں بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے الیکشن ہوتے ہیں، سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے منشور عوام کے سامنے پیش کرتی ہیں، عوام ان کے منشور پر اعتماد کرتے ہیں اور جس کا منشور پسند ہوتا ہے ، اسے حکومت کرنے کا حق دیا جاتا ہے اور حکمران پارٹی اپنے منشور پر عمل کرتی ہے ۔کیا پاکستان میں ایسا ہوتا ہے ؟ یہاں اس لیے ایسا نہیں ہوتا کہ سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی جائز ناجائز دولت مند کی ملکیت ہوتی ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کا مالک اپنی حکمرانی کے لیے عوام کو بے وقوف بنانے میں ماہر ہے ۔ یہ سیاسی پارٹیاں نہیں، سیاست کے نام پر سیاسی جتھے ہیں۔یہ اپنی حکمرانی کے لیے کھوکھلے نعرے اور جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔ الیکشن اس قدر مہنگا کر دیا گیا ہے کہ دوچار کروڑ والا الیکشن کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہمارے ہاں جو الیکشن جیت کر صوبائی یا قومی اسمبلی کا رکن بن جاتا ہے ، وہ اسمبلی میں عوام کے حقوق کے لیے بات نہیں کرتا بلکہ اس کا جس پارٹی سے تعلق ہوتا ہے ، اس کے مالکان کی کرپشن کی پردہ داری پر وقت ضائع کرتا ہے ۔ایک دوسرے کو تم چور ، تم چو ر کہہ کر قوم پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ قوم کو تم چو ر تم چور کی گردان سننے کے لیے کیا کچھ ادا کرنا پڑتا ہے اس کی ذرا تفصیل پڑھیے ۔ بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد پینسٹھ ہے ، ہر رکن کو ماہانہ ایک لاکھ پچیس ہزار روپے دیے جاتے ہیں، یوں پینسٹھ ارکان کو سال میں نو کروڑ پچھتر لاکھ روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی کے ارکان کی تعداد ایک سو پینتالیس ہے ، ہر رکن کو ایک لاکھ پچاس ہزار روپے ماہانہ الائونس ملتا ہے ، گویا پختونخوا اسمبلی کے ایک سو پینتالیس ارکان کو ایک سال میں چھبیس کروڑ دس لاکھ روپے ادائیگی ہوتی ہے ۔ سندھ اسمبلی کے ارکان کی تعداد ایک سواڑسٹھ ہے اور ہر رکن کو ہر ماہ ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے دیے جاتے ہیں، گویا سندھ اسمبلی کے ارکان کو ایک سال میں پینتیس کروڑ اٹھائیس لاکھ روپے کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے ۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد تین سو اکہتر ہے ، ہر رکن کو دو لاکھ پچاس ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں، گویا سال کے یہ اخراجات ایک ارب گیارہ کروڑ تیس لاکھ روپے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد تین سو بیالیس ہے ، ہر رکن کو تین لاکھ روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں، گویا انہیں ایک سال میں ایک ارب تیس کروڑ بارہ لاکھ روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ سینیٹ ارکان کی تعدا د ایک سو چار ہے ، ہر رکن کو چار لاکھ روپے ماہانہ ادائیگی ہوتی ہے ۔ گویا سال بھر کی ادائیگی انچاس کروڑ بانوے لاکھ روپے ہوتی ہے ۔ صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے ارکان اور ایک سو چار سینیٹرز کو قوم کے تین ارب چون کروڑ ستر لاکھ روپے ہر سال تنخواہوں کی مد میں ادائیگیاں ہوتی ہیں۔گویا پاکستان کے ہر بچے بوڑھے جوان اور خواتین کو ان ارکان اسمبلی کے تم چور تم چور کی گردان کے عوض ایک سو اٹھتر روپے سالانہ ادا کرنا پڑتے ہیں۔ان ارکان کو ملنے والی دیگر بہت سی سہولتیں اس کے علاوہ ہیں۔پارلیما نی نظام کی بدولت وزیراعظم کو اسمبلی میں گنتی پوری رکھنے کے لیے بعض گروپ بلیک میل کرتے ہیں اور مفادات حاصل کرتے ہیں۔ مثلا گندم کی کابل کے ذریعے تاجکستان وغیرہ میں اسمگلنگ ہوتی ہے، آٹا چینی کے ذمہ داروں کا کیا ہوا ، یہ اسی پارلیمانی نظام کی برکتیں ہیں کہ ہر ملزم کٹری کا نشان بناتا ہے ۔ خواتین کی مخصوص نشستوں پر بااثر سیاست دانوں کی بیویاں ، بیٹیاں، سالیاں براجمان کر دی جاتی ہیں، یا پھر ایک ہی طبقے کی خواتین کو آگے لایا جاتا ہے ، ان ارکان اسمبلی نے کبھی خواتین کے حقوق کی بات نہیں کی بلکہ وہ اپنی سیاسی پارٹی مالکان کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے بولتی رہتی ہیں۔ یوں یہ ارکان اسمبلی صرف اور صرف کرپشن بچاو کے لیے بولتے ہیں۔ دوسری جانب یہ حالت ہے کہ چھوٹے لیول پر کلرک بھی بھرتی کرنا ہو تو تعلیمی قابلیت کم سے کم ایف اے اور کمپیوٹر کے مکمل علم کی رکھی جاتی ہے لیکن سیاست کا ایسا کھیل کہ نہ تعلیم کی قید نہ عمر کی پابندی ۔ جس کے پاس مال و دولت ہے ، خواہ جائز ہو یا ناجائز ، وہ قوم کی قسمت کا مالک بن سکتا ہے ۔ پارلیمانی نظام حکومت کرپشن کے لیے بہت سازگار ہے ، اگر مزید دس سال یہ نظام رہا تو پاکستان کے عوام کے لیے ، اس سے برے دن شاید ہی کبھی ہوں گے ، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سب سے بہتر صدارتی نظام ہے ، جہاں مفاد پرست ٹولہ حکومتوں کو بلیک میل نہیں کر سکتا ۔ علاوہ ازیں اسمبلی یا سینیٹ کا رکن بننے کے لیے کم از کم تعلیم بی اے رکھی جائے اور خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے ہر سیاسی پارٹی اپنی تمام امیدواروں کے نام الیکشن کمیشن کو بھیجیںاور الیکشن کمیشن بذریعہ قرعہ اندازی ، ہر سیاسی پارٹی کو اس کے حق کے مطابق نشستیں الاٹ کرے تاکہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر وہ کچھ نہ ہو جو ہوتا ہے اور خواتین ارکان اسمبلی صرف پارٹی مالکان کی ان دیکھی تعریفیں کرنے پر مجبور نہ ہوں ۔جب تک اعلی تعلیم یافتہ افراد اسمبلیوں میں نہ آئیں ، عوام کو کچھ نہیں ملے گا ۔ اسمبلیوں ، سینیٹ ، صدر اور بلدیاتی اداروں کی مدت چار سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے ۔