لداخ ۔ نئی عالمی سرد جنگ کا آغاز؟
لداخ میں جوکچھ ہو رہاہے اسے دراصل علاقائی نہیں بلکہ عالمی حالات کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 1962 کے بعد سے وہاں چین اور بھارت کے مابین امن تھا۔ پھر ایسا کیا ہو گیا کہ اچانک چینی فوج کو ’’ ڈنڈوں سوٹوں‘‘ سے ایک کرنل سمیت 20سے زائد بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کرنا پڑا۔ اس سب کے تانے بانے CPEC سے شروع ہو کر بحر اوقیانوس تک جاتے ہیں ( سائوتھ چائنا سی بحر اوقیانوس کا حصہ ہی ہے)۔ دراصل معاشی میدان میں چین امریکہ سمیت تمام دنیا کو شکست دینے کے بعد اب فوجی لحاظ سے بھی امریکہ کی دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کی کرسی کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آ چکاہے۔یہ سب امریکہ کو بھی نظر آ رہا ہے اسی لیے وہ چین کو گھیرنے کے لیے شطرنج کی عالمی بساط پر اپنے مہرے ترتیب دے رہا ہے۔
ویت نام کی جنگ میں شکست سے امریکہ نے جو سبق سیکھے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اب اسے کوئی بھی جنگ اکیلے نہیںلڑنی بلکہ کوئی نہ کوئی بہانہ اور پریشر استعمال کر کے ہر جنگ میں اپنے ساتھ دوسرے ممالک کو شریک کرنا ہے تاکہ نہ صرف اسکا جانی نقصان کم سے کم ہو بلکہ کسی بھی جنگ میں شکست بھی امریکہ کے کھاتے میں نہ لکھی جائے ( جسکی ایک مثال افغانستان ہے) ۔ صرف اتنا ہی نہیںبلکہ اس طرح سے جنگ کے اخراجات بھی شریک ممالک سے بانٹ لیے جائیں بلکہ ان سے اتنا کچھ وصول کیا جائے کہ یہ جنگ امریکہ کے لیے ایک منافع بخش کاروبار بن جائے۔( جیسا کہ وہ عرب دنیا میں کر رہا ہے)۔ اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے امریکہ نے بحر اوقیانوس ( جو دنیا کی سب سے اہم تجارتی گزرگاہ ہے) کی جانب جاپان، فلپائین، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا وغیرہ اور CPEC ( جو مستقبل قریب میں چین کی اقتصادی شہہ رگ ہو گی) کی جانب بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ بھارت کاعلاقے کا چوہدری بننے کا خواب پرانا ہے اور ساتھ ہی اسے لگا کہ لداخ میں فوجی اقدامات سے کشمیر میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ویسے بھی مودی سرکار کا طریقہ کار ہی یہ رہا ہے کہ دوسرے ممالک کے خلاف جنگی ماحول اور نفرت کو ہوا دے کر اس سب کو اپنے الیکشن جیتنے کے لیے استعمال کرو۔ ان مفادات اور امریکہ کی آشیرباد کے زیر اثر بھارت نے لداخ کے علاقے میں ایسی سڑکیں اور تعمیرات شروع کر دیں جو آنے والے سالوں میں چین کے خلاف استعمال ہو سکتی تھیں۔ یاد رہے یہ وہ علاقہ ہے جہاںسے CPEC گزرتی ہے۔ سونے پر سہاگا اس وقت ہو گیا جب 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کیا تو لداخ کو بھی اپنا وفاقی علاقہ قرار دیا تھا۔ بات یہیں تک نہیں رہی بلکہ بھارت کے یونین ہوم منسٹر امیت شاہ نے اس کے بعد پالیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اکسائی چن‘‘ بھی لداخ کے وفاقی بھارتی علاقے کا حصہ ہے۔ یاد رہے کہ اکسائی چن کا علاقہ کئی دہائیوں سے چین کے کنٹرول میں ہے۔ چینی قیادت کے لیے یہ سمجھنا کوئی مشکل نہ تھا کہ یہ سب بساط کس لیے بچھائی جا رہی ہے۔ اور چین نے وقت آنے پر رد عمل دینے کی بجائے اپنی پسند کے وقت پر خود عملی اقدام کرنے کا فیصلہ کیا اور لداخ کے بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اب چین کا بھارت سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ لداخ کی خصوصی حیثیت ( یونین ٹیریٹوری) ختم کی جائے۔ یعنی آرٹیکل 370 کو بحال کیا جائے۔ ( ظاہر ہے کہ اگر لداخ میں ایسا ہوتا ہے تو جموں کشمیر میں بھی ہو گا)۔ دراصل چین نے بھارت اور امریکہ کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ CPEC کی حفاظت کے لیے وہ کسی بھی عملی اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔
بھارت کے لیے شاید یہ حیرت کی بات ہو لیکن امید کے مطابق امریکہ نے لداخ کے معاملے میں کھل کر بھارت کی طرفداری کرنے کی بجائے ثالثی کی پیش کش کی ہے۔ لیکن ساتھ ہی چین پر دبائو ڈالنے کے لیے بحر اوقیانوس میں ( جہاں چین کے جاپان، فلیپائن سمیت دیگر کچھ ممالک کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں) اپنی موجودگی بڑھانے اور اپنے تین بحری بیڑے علاقے میں بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔ امریکہ نے اپنی بحری طاقت بحر اوقیانوس میںبھیج تو دی ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کوئی عملی اقدام کرے گا یا پھر اسکے بحری جہاز سیر سپاٹا کر کے واپس چلے جائیں گے؟ ایران کے ساتھ تنازعہ میں بھی ایسا ہی ہوا اور اسکے بعد شمالی کوریا کے خلاف بھی امریکی بیڑہ بحراوقیانوس آیا تھا اور پھر اسی طرح واپس ہو گیا۔ ساتھ ہی امریکہ نے وہی پرانا بیان بھی جاری کیا ہے کہ وہ علاقے میں امن کے لیے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔ لیکن اب امریکہ کو امید کے مطابق اتحادی نہیں مل رہے۔آسٹریلیا اور جاپان تو امریکہ کے ساتھ نظر آ رہے ہیں لیکن فلپائین، ویتنام، انڈونیشیا سمیت بہت سے ممالک جو پہلے چین کے مخالفت میں سب سے آگے تھے اب چین کے ساتھ انکے اقتصادی اور معاشی تعلقات اس طرح کے ہیں کہ وہ چین کی مخالفت نہیں کر رہے۔ اور تو اور امریکہ کا سب سے قریبی حلیف برطانیہ بھی نہ صرف کھل کر چین کی مخالفت کرنے سے کترا رہا ہے بلکہ برطانوی وزیر اعظم نے تو یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ برطانیہ اپنے بڑے حصے میں 5G کی تنصیب کے لیے چینی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ یہ امریکہ کے لیے پیغام بھی ہے اور تجارتی جنگ میں امریکہ کی ایک اور بڑی ناکامی بھی۔ اسی طرح بھارتی قیادت بھی شاید اس وقت یہ سوچ رہی ہو گی کہ امریکہ کی باتوں میں آ کر چین کے خلاف کس حد تک جایا جائے کیونکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکہ اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر اپنے کسی بھی اتحادی کو کسی بھی وقت دھوکہ دے سکتا ہے۔ اور سب کو معلوم ہے کہ امریکہ کی معیشت او ر عوام اس وقت امریکہ کو کسی نئی جنگ میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔اس سب سے لگتا ہے کہ بھارت کو دو قدم پیچھے ہٹنے کا کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔اور 27 فروری کی طرح میدان میں جنگ ہارنے کے بعد بھارتی سرکار اپنے سرکاری میڈیا پر ہی جنگ جیت کر اپنی عوام کو میٹھے فریب میں رکھ کر اگلے الیکشن کی منصوبہ بندی میں لگ جائے گی۔
٭…٭…٭