شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا کے حوالے سے اگر دنیا بھر میں کسی ملک کے فیصلوں میں کنفیوژن نہیں ہے تو وہ پاکستان ہے۔ ہمارے فیصلوں میں کہیں کوئی تضاد نہیں ۔ہمیں کورونا سے تحفظ کے لئے ایس او پیز پر عمل کرنا چاہیے۔ ہم دہری مشکل کا شکار ہیں۔ ہم نے ایک طرف کورونا اور دوسری طرف بھوک سے بچنا ہے ۔وزیراعظم ملک کے باپ کی طرح ہوتا ہے اور عوام اس کے بچے ہوتے ہیں اگر میرے بچے بھوکے ہوں، ان کا علاج نہ ہو تو میں بادشاہ کی طرح رہوں گا ۔کہیں حادثہ ہو یا کورونا تو کہا جاتا ہے کہ ریاست مدینہ کدھر ہے۔ ہمیں مل کر ملک کو مدینہ کی ریاست بنانا ہے جب ہم حکومت میں آئے تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ بے روزگاری اور مہنگائی نے جینا محال کررکھا تھا۔ حالات یہ ہیں کہ احتساب کا عمل آگے نہ بڑھا تو ہم تعلیم اور صحت کے لئے پیسے اکٹھے نہیں کرسکیں گے۔ اخراجات کم کرنے کے لئے ہم سٹاف کم کرسکتے ہیں مگر ہمیں کسی کو بے روزگار نہیں کرنا چاہتے۔
حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو وزیراعظم عمران خان کی قومی اسمبلی میں کل کی تقریر حقائق پر مبنی تھی ۔ بلاشبہ پاکستان اس وقت دوہری مشکل کا شکار ہے کہ ایک طرف کورونا سے مکمل تحفظ کے لئے سخت لاک ڈائون کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے اور دوسری طرف عوام کے لئے سر اٹھائے معاشی مسائل کا اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ عوام کو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس حوالے سے وزیراعظم کا موقف شروع سے واضح رہا ہے کہ عوام شعور کا مظاہرہ کریں اور کورونا جیسے موذی وائرس سے بچائو کے لئے ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں تاکہ معیشت کا پہیہ جام نہ ہونے پائے مگر حقائق یہ ہیں کہ عوام کی اکثریت اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی۔ جب سے لاک ڈائون میں نرمی کا اعلان ہوا ہے عوام خوشی سے تو نہال ہیں مگر کورونا سے بچائو کے لئے حفاظتی تدابیر پر عمل کرنے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں اگر دوبارہ لاک ڈائون کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو پہلے سے بسترِ مرگ پر پڑی ہماری معیشت کی حالت مزید بگڑ سکتی ہے۔ نت نئے مشورے دینے اور تنقید کے نشتر چلانے والے حالات کا ادراک نہیں کررہے ۔وزیراعظم پاکستان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ بطور ملک کے وزیراعظم وہ عوام کے باپ ہیں اور ایک باپ واقعی اپنی اولاد کو بھوکا دیکھ سکتا ہے، نہ بیمار اور نہ سر کے سائے سے محروم دیکھ سکتا ہے مگر ہماری کمزور معیشت اجازت نہیں دیتی کہ عوام کو سب بنیادی سہولتیں یکساں فراہم کی جا سکیں۔ جس ملک کا نظام ہی بیرونی قرضوں پر چل رہا ہو وہاں عوام کی حالت ترقی یافتہ ممالک جیسی یقیناً نہیں ہوسکتی حالات تقاضا کرتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر مشکلات کے شکار پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی جدوجہد کریں مگر اس کے لئے حکمران جماعت کو ہی قدم آگے بڑھانا ہوگا کہ یہ حالات اور جمہوریت دونوں کا تقاضا ہے۔ تحریک انصاف جب اقتدار میں آئی تو حالات جیسے بھی تھے ملک بہر حال چل رہا تھا، حالات اتنے ابتر نہیں تھے جتنے اب ہیں۔ اس تناظر میں عوام یہ سوال کرنے میں حق بہ جانب ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کی گزشتہ دوسال میں اپنی کارکردگی کیا ہے؟ حکمرانوں نے معیشت میں بہتری لانے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے۔ خاص طور پر انصاف حکومت نے ملک میں مثبت تبدیلی کے لیے اپنے منشور پر کس حد تک عمل کیا اور تاحال اس کے کیا نتائج سامنے آئے ہیں؟ کورونا سے حالات میں خرابی پیدا ہونا عالمی مسئلہ ہے، یہ وباء چین سمیت متعدد ملکوں میں دسمبر 2019اور جنوری 2020میں آئی۔ پاکستان میں اس وائرس نے مارچ میں سر اٹھانا شروع کیا ۔سوال یہ ہے کہ کیا اس سے قبل حکومت معیشت کو سنبھالا دے چکی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے حکمرانوں کے تمام دعوئے محض طفل تسلی ثابت ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے انصاف حکومت قائم ہوئی ہے مہنگائی اور بے روز گاری کے ساتھ ساتھ سیاسی انتشار ہمارا مقد ر بنے ہوئے ہے۔وزیر اعظم کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال اور حقائق اپنی جگہ بہرحال حکمرانوں کو اب یہ گردان چھوڑ دینی چاہیے کہ انہیں تمام مسائل ورثے میں ملے۔ اب وہ صرف اپنی کار کردگی عوام کے سامنے رکھیں۔ یہ کہنا کہ احتساب کاعمل آگے نہ بڑھا تو تعلیم اور صحت کے لئے ہمارے پاس پیسے نہیں ہوںگے ،کمزور استدلال ہے۔ احتساب موجودہ حکومت کے دور میں ہورہا ہے اور بقول وزراء کے آئین اور قانون کے مطابق ہو رہا ہے اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پھر ابہام کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے۔ حکمران تسلیم کریں کہ بے لاگ احتساب کے عمل کو یقینی بنانا ان کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ایک طرف کروڑوں لوگوں میں صحت کارڈ تقسیم کرنے کا مژدہ سنانا اور بعد ازاںیہ کہنا کہ صحت اور تعلیم کے لئے مستقبل میںپیسہ نہیں ہوگا، یہ حکمرانوں کے دعوئوں سے متصاد باتیں ہیں۔ خان صاحب کو چاہیے کہ نہ صرف متضاد بیانات سے گریز کریں بلکہ ہربات حقائق کے آئینہ میں دیکھ کر کریں تاکہ عوام مایوسی اور بے بسی کا شکار نہ ہوں، حالات تقاضا کرتے ہیں کہ ملک کو ریاست مدینہ بنانے کے دعوے دار ذاتی کام کے وقت سرکاری چراغ گل کردیا کریں حالات میں خرابی پیدا ہو رہی ہے جس سے معیشت میں سدھار لانے کے تمام دعوے دم توڑ سکتے ہیں۔
٭…٭…٭