پیر ‘ 7؍ذیقعد 1441 ھ‘ 29؍ جون 2020ء
اسامہ کیسے سکون سے رہ رہا تھا، پاکستان کو اس بحث کی ضرورت نہیں: ایلس ویلز
امریکی نائب معاون وزیر خارجہ کی یہ بات سو فیصد صحیح ہے۔ رات گئی بات گئی، اب گڑھے مردے اکھاڑٰنے کا کیا فائدہ۔ کیا ہوا کب ہوا ۔ کیسے ہوا کیوں ہوا۔ ان باتوں سے اب کیا ہوگا جنہوں نے اسامہ کو رکھا جنہوں نے علم ہونے کے باوجود چشم پوشی کی یہ وہ جانیں عوام ان باتوں میں پڑ کر خود کو ہلکان نہ کریں۔ اس سے ان کی صحت پر برا اثر پڑسکتا ہے بس ان کو صرف یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسامہ بن لادن ایک طویل عرصہ امریکہ کے محبوب نظر رہے انہیں امریکی وائٹ ہائوس میں آنے والی ہر حکومت نے ’’ڈارلنگ‘‘ کا درجہ دیئے رکھا پھر ہماری مہربانیوں سے جب سرخ ریچھ افغانستان سے زخم چاٹنا ہوا رخصت ہوا۔ طالبان کے دور میں ان کے طرزعمل کی وجہ سے امریکہ اور مجاہدین میں دوری پیدا ہوئی تو اسامہ بن لادن بھی محبوب سے رقیب بن گئے۔ انہیں وہاں سے نکلنا پڑا القاعدہ کی سرپرستی ان کو مہنگی پڑی یوں کل کے دوست آج کے دشمن بن گئے۔ اسامہ کے سر کی بھاری قیمت لگائی گئی مگر وہ ایک طویل عرصہ غائب رہنے میں کامیاب رہے مگر کب تک انعامی رقم کی لالچ میں بالآخر ان کے پوشیدہ ٹھکانے کی مخبری ہوئی اور ایک رات امریکی فوج نے خفیہ آپریشن کرکے بین الاقوامی سرحدی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایبٹ آباد کے قریب اسامہ بن لادن کو مار کر اس کی نعش سمندر برد کردی۔ یوں ’’یہ خون خاک نشیناںتھا رزق خاک ہوا۔
٭٭٭٭٭٭
امریکہ میں بنک لوٹنے والے لاہور میں جعلسازی کرتے گرفتار
جو لوگ امریکہ میں بنک لوٹ سکتے ہیں وہ تو واقعی نہایت ذہین، اعلیٰ درجے کے بہادر اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے ہوں گے پھر امریکہ سے جرم کرکے بچ نکلنا ان کی اضافی کوالٹی شمار کی جاسکتی ہے ورنہ وہاں سے کسی مجرم کا بچ نکلنا خاصا مشکل ہوتا ہے جس ملک میں داخل ہونے پر غیرملکی حضرات کو کپڑے اتارنا پڑتے ہیں کیا وہاں ملک سے باہر جانے والوں کیلئے ایسا کوئی قانون نہیں ہوگا کہ مجرم بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہوں۔ امریکہ میں جرائم کی اعلیٰ تربیت حاصل کرنے والے اس دو رکنی گینگ میں ایک آئی ٹی سپیشلسٹ محسن ضمیر ہے اور دوسرا ٹرک ڈرائیور وقار گھمن شامل ہیں۔ ان دونوں کی گرفتاری کیلئے امریکی پولیس نے 30 ہزار ڈالر انعام بھی رکھا ہے۔ ویسے یہ ہے تو خوشی کی بات کہ جو کام امریکی پولیس نہ کرسکی وہ ہماری پولیس نے کر دکھایا جسے نکمی اور کرپٹ کہتے ہوئے ہماری زبانیں نہیں تھکتیں۔ یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ یہ کارنامہ اصل میں ایف بی آئی والوں کا ہے جنہوں نے معصوم پاکستانی شہریوں کو ان جعل سازوں کے ہاتھوں مزید لٹنے سے بچالیا۔ اب تک نجانے کتنے سادہ لوح ان کے ہتھے چڑھ کر اپنی جمع پونجی لٹا چکے ہوں گے۔ اب ایف بی آئی والے ان لٹنے والوں کی دادرسی کرتے ہوئے ان کی رقم انہیں واپس دلائیں اور مکمل تفتیش کے بعد ان مجرموں کی اچھی طرح دھلائی کے بعد جب یہ خود ہاتھ جوڑ جوڑ درخواستیں کریں گے انہیں امریکی پولیس کے حوالے کیا جائے اور یہ دوبارہ پاکستان آکر غلط کام کرنے سے توبہ کرلیں تو انہیں امریکی پولیس کے حوالے کرکے ایف بی آئی والے 30 ہزار ڈالر کا انعام حاصل کریں۔ یوں آم کے آم گٹھلیوں کے دام بھی کھرے ہوں گے…
٭٭٭٭٭٭
سربراہ پی آئی اے کا سیکرٹری ایوی ایشن کو خط، مشتبہ پائلٹوں کی مزید معلومات طلب
سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا پھر بھی مقام شکر ہے کہ اس المناک حادثے کے بعد جعلی لائسنس اور ڈگریاں حاصل کرکے پی آئی اے یا دیگر فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے پائلٹوں کی چھان بین تو شروع ہوئی۔ اس سے قبل جتنے بھی حادثے ہوئے ان کے بعد بھی بڑی ہلچل مچی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات گو نگلوئوں سے مٹی جھاڑنے والی بات ثابت ہوئی نہ کسی کو سزا ہوئی نہ کسی کیخلاف ایکشن۔ الٹا پی آئی اے کی یونین سازی کام آئی اور ہڑتال کرنے کام چھوڑنے کی دھمکیاں کام کرگئیں مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ اب تو عالمی سطح پر بھی ہمارے ہوا بازوں کی ہوا بازی ختم ہورہی ہے اس جعلی لائسنس اور ڈگریوں کے سکینڈل کے بعد خیر سے ویت نام جیسے ملک نے بھی 20 پاکستانی ہوا بازوں یعنی پائلٹوں کو نوکری سے برطرف کردیا ہے۔ کویت نے 7 کو معطل کردیا ہے۔ اس طرح ملک کی بدنامی ہورہی ہے اب ظاہر ہے یہ خالی جگہ ہمارے دشمن بھارت کے پائلٹ ہی بھریں گے۔ ہوا بازی کے شعبہ میں کوئی بھی ملک کسی قسم کی رعایت نہیں دیتا۔ یہ سینکڑوں انسانوں کی زندگی کا سوال ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں جس طرح ٹرک ڈرائیوروں کو ٹیکسی ڈرائیوروں کو بطور پائلٹ بھرتی کی پالیسی اپنائی گئی آج اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
پٹرولیم کی قیمتوں میں بہت کم اضافہ کیا، وفاقی وزراء عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے لگے
ایک لٹر پٹرول پر 47 روپے ٹیکس وصول کرتے ہوئے بھی اگر حکومت کا دل نہیں بھرا تو پھر ’’نرخ بالاکن کہ ارزانی ہنوز‘‘بسم اللہ کریں 2 روز بعد اس میں مزید اضافہ کریں آپ کو کس نے روکا ہے۔ عوام کے پاس سوائے خودکشی کے اور کوئی ر استہ بچا ہی کون سا ہے۔ پٹرول مہنگا ہونا کوئی ایک مصیبت نہیں اس کے ساتھ مہنگائی کا سونامی بھی چلا آتا ہے۔ اگر وزراء کو فرصت ہو تو وہ ذرا ذرائع ابلاغ کی مدد سے ازخود آج مارکیٹوں کا دورہ کریں تو معلوم ہوگا ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ درویش شاعر ساغر صدیقی نے کیا خوب کہا تھا؎
جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
سو اب ہمارے حکمرانوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ کہاں اور کس سے بھول ہورہی ہے۔ وزراء کی تو یہ حالت ہے کہ وہ 25 روپے اضافے کو بھی تھوڑا خیال کررہے ہیں اور عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے مقابلے میں ابھی بھی ہمارے ہاں پٹرول کے نرخ کم ہیں۔ بے شک حضرت غالب نے درست کہا تھا؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اسکا آسمان کیوں ہو
کیا یہ ہوتی ہے عوام دوستی غریب پروری، زخم لگانے کے بعد اگر اس پر ہم مرہم نہیں لگا سکتے تو کم از کم نمک پاشی سے تو ہمیں پرہیز کرنا چاہئے۔
وہ بھی تب جب زخمی بھی اپنے ووٹر ہی ہوں