اسلام عیسائیت کے بعد دنیا کا دوسرابڑا مذہب ہے، یعنی دنیا کی کثیر آبادی مسلمان ہے۔ تمام ممالک میں مسلمان موجود ہیں اور دنیامیں اس وقت55 یا 56ممالک مسلمان ہیں۔ لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ سب ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور خود کو کمزور کرچکے ہیں مجھے بچپن میں پڑھی لکڑہارے اور اس کے بیٹوں کی وہ کہانی یاد آ رہی ہے جس میں وہ سب بیٹوں کو ایک ایک لکڑی دے کر کہتا ہے کہ اسے توڑ یا کاٹ کر دکھائو جسے وہ باآسانی کاٹ دیتے ہیں پھر لکڑ ہارا تمام لکڑیوں کا گٹھا بنا کر کہتا ہے اب اسے توڑ کر دکھائو لیکن اب بیٹوں کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔یہی حال اس وقت مسلم ممالک کا بھی ہوچکا ہے۔اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو والا حکم فراموش ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی قوتیں ہم پر حاوی ہوچکی ہیں اور کوئی قوت ہمیشہ کمزور پر ہی حاوی ہوتی ہے۔تقریبا سبھی ممالک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے محتاج ہیں۔ بالواسطہ یا بلاواسطہ ہر جگہ امریکی پالیسی ہی کا قبضہ ہے۔ مسلمان کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ تمام اسلامی ممالک ایک دوسرے کے ہی خلاف ہیں۔ آپ دوسرے مذاہب کو دیکھئے، اتحاد واتفاق کی بہترین مثالیں آپ کو ملیں گی۔اب وہ طاقتیں تو کبھی یہ نہیں چاہیں گی کہ ان سب کا آپس میں اتفاق ہوجائے اور یہ طاقتور ہوکر ہم پر غالب آجائیں۔ ایسا ہوا تو امریکہ سے اسلحہ کون خریدے گا۔ دوسرے آزاد اور خودمختار ممالک اپنا اسلحہ خود تیار کرتے ہیں جبکہ ہمارا انحصار امریکہ وغیرہ پر ہی ہے۔ امریکہ اس وقت سب سے زیادہ اسلحہ مسلمان ممالک کو ہی فروخت کر رہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں اختلافات پیدا کرکے سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا گیا۔ قطر کے خلاف سعودی عرب کو کئی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں اس کے پیچھے بھی امریکہ سرکار کا ہی دبائو ہے۔ ادھر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کی وجہ بھی امریکہ ہی ہے۔ امریکہ جو چاہے جیسا چاہے مسلمان ممالک کو اپنے اشاروں اور اپنی مرضی کے مطابق چلاتا ہے جبکہ دوسری طرف اس کے خلاف جانے والے ممالک کو عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ عراق اور لیبیا کی مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ لیبیا دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ جو اپنی کرنسی سونے کے سکوں کی صورت میں بنانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن ڈالر کے ڈی ویلیو ہونے کو امریکہ بھلا کیسے برداشت کرتا۔ دکھ اور کرب کی بات تو یہ ہے کہ ایسے مسلمان ممالک کے خلاف امریکہ نے جب جب قدم اٹھایا تو کئی مسلمان ممالک نے اس کی حمایت کی۔ دوسری طرف افغانستان کی قیمتی معدنیات اور پتھروں پر بھی امریکہ کی نظر ہے۔ اس بات کو کون نہیں جانتا کہ وہ وہی کرتا ہے جس میں سراسر اس کا اپنا مفاد پنہا ں ہوتا ہے۔ پچھلے سالوں میں41 مسلمان ممالک کا فوجی اتحاد ایک نہایت حوصلہ افزاء اور خوش آئند قدم تھا۔ جس کی سربراہی جنرل راحیل شریف کر رہے تھے۔ ایسی صورت حال میں تمام ممالک مل کر اپنا اسلحہ خود تیارکرسکتے ہیں۔ مسلمان ممالک میں بے پناہ خزائن اور ٹیلنٹ موجود ہے اب ایران اور سعودی عرب کے پاس ہی اتنا وافر تیل موجود ہے کہ یہ ساری دنیا کو تیل فراہم کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس بہترین فضائی سازوسامان موجود ہے۔ بہترین سائنسدان اور انجینئر موجود ہیں۔ لیکن پاکستان کی اس وقت سب سے بڑی کمزوری اس کا معاشی طور پر کمزور ہونا ہے۔ ورنہ جدید ہتھیاروں سے لے کر جدید طیاروں کی تیاری تک اس کے پاس ٹیلنٹ موجود ہے۔ دوسری طرف مسلمان خود ایک دوسرے سے تجارتی تعلقات کو بھی بہتر نہیں بناسکے۔ اگر ایساہی کرلیں تو درآمدات و برآمدات کیلئے غیروں کے محتاج نہ رہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سودی نظام کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔ آج کل امریکہ اور ایران میںسخت تنائوکی صورت حال جاری ہے اور یہ پچھلے کئی برسوں سے جاری ہے۔ امریکہ نے ایران پر الزام لگایا تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار تیار کرر ہا ہے۔ امریکہ کو ایران سے اس دن بھی ناراضی تھی جس دن ایران نے ہرگان صوبے میں امریکی ڈرون طیارہ مارگرایا تھا۔ امریکہ نے کئی بار ایران پر حملے کی تیاریاں بھی کیں۔ لیکن ایران نے اس وقت بھی اور اب بھی بار بار امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ جنگ کا ارادہ رکھتا ہے تو ایسا کرنے سے مشرق وسطی میں تباہی کے دروازے کھل جائیں گے۔ یہ دھمکی امریکہ کو کچھ خوفزدہ کرگئی اور اس نے ایران پر میزائل داغنے کا منصوبہ ملتوی کردیا۔ ایران اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کیلئے پوری طرح تیار بیٹھا ہے۔ یہ رویہ میری نظر میں بالکل بھی غلط نہیں ہے۔ آخر کوئی تو ایسا ہے جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتا ہے۔ اس کی ہر دھمکی کا منہ توڑ جواب دے سکتا ہے۔ امریکہ یہ بھی جانتا ہے کہ ایسی جارحیت کرنے پر روس بھی خاموش نہیں بیٹھے گا۔لیکن ایران کی اس خوبی کے باوجود سب سے بری خامی یہ ہے کہ وہ مسلمان ممالک کے ساتھ اتحاد نہیں کر رہا۔ نڈر ہونا چاہئے لیکن اکیلے ہونے سے بھی بڑی طاقتیں کمزور پڑ جایا کرتی ہیں۔ عراق کی مثال ہمارے سامنے ہی ہے کہ اگر صدر صدام حسین مسلمان ممالک سے اچھے تعلقات رکھتا تو امریکہ اس پر اس قدر آسانی سے حملہ نہ کرسکتا۔ اسی طرح لیبیا کے صدر کرنل قذافی نے بھی کیا اور اپنا بھرپور نقصان کروایا۔ایران کو اب بھی مسلم ممالک سے اپنی رنجشیں بھلا کر اتحاد کرنے کے بارے مِیں سوچنا چاہئے۔خودپسندی ہمیشہ باعث تنہائی ہوا کرتی ہے اور ایسا کرنے سے جو ممالک امریکہ کے زیر اثر ہیں وہ بھی خوف سے باہر آکر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرکے اپنے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔دوسری طرف ایران اس دشمن ملک کا ساتھ دے رہا ہے جو کبھی مسلمان کا دوست قیامت تک بھی نہیں بن سکتا۔ میری مراد بھارت سے ہے۔ دشمن کا دوست بن کر ایران خود اپنے مسلمان بھائیوں کیلئے خود کو دشمن ثابت کرنے پر کیوں بضد ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024