بھارت کو امریکی فوجی ٹیکنالوجی کی فراہمی سے امن خطرے میں پڑجائیگا: پاکستان
واشنگٹن (نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) امریکہ اور انڈیا کی جانب سے پاکستان پر ایک مرتبہ پھر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین دیگر ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمالنہ ہو۔ یہ بات امریکی صدر کے دفتر وائٹ ہا¶س نے ایک بیان میں کہی ہے جو کہ واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کی ملاقات کے بعد جاری کیا گیا۔ وائٹ ہا¶س کے بیان میں کہا گیا بھارت نے امریکہ کی جانب سے کشمیری تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو خصوصی طور پر نامزدہ کردہ عالمی دہشت گرد قرار دئیے جانے کے اعلان کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا دونوں رہنما¶ں نے دہشت گردی کے لئے اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دینے کے لئے پاکستان پر زور دینے کے علاوہ اتفاق کیا کہ وہ پاکستان میں سرگرم جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ سمیت شدت پسند تنظیموں سے لاحق خطرات کے خلاف تعاون میں اضافہ کریں گے۔ بیان کے مطابق صدر ٹرمپ اور وزیراعظم مودی نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ 2008 ءکے ممبئی حملوں اور 2016ئ میں پٹھانکوٹ کے فضائی اڈے پر حملہ کرنے والوں کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں لا کر سزا دے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی سے ملاقات کے بعد کہا کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات اس سے پہلے اتنے مضبوط کبھی نہیں رہے۔ واشنگٹن میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا وہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں فروغ کے متمنی ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم مودی کا کہنا تھا کہ انڈیا اور امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ وائٹ ہا¶س میں ہونے والی اس ملاقات سے قبل صدر ٹرمپ نے نریندر مودی کو سچا دوست کہہ کر مخاطب کیا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے آپ کو اور وزیراعظم مودی کو سوشل میڈیا پر عالمی رہنماوں کے طور پر بھی بیان کیا۔ امریکی صدر نے ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے کہا بھارت کے ساتھ مل کر دنیا سے اسلامی انتہا پسندی کا خاتمہ کریں گے جبکہ اس موقع پر نریندر مودی ایک آفس کے ملازم کی طرح ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ اس سے قبل نریندر مودی نے 20 امریکی کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقات کی جن میں ایپل کے ٹم کک اور گوگل کے سندر پچائی بھی شامل تھے۔ ملاقات کے دوران نریندر مودی نے انہیں بتایا ان کی حکومت نے ہزاروں اصلاحات کے ذریعے بھارت کو کاروبار کے لئے سازگار بنایا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ بھی کیا 'بہترین سی ای اوز کے ساتھ بات چیت۔ ہم نے انڈیا میں مواقعوں کے حوالے سے گفتگو کی۔ ملاقات سے قبل نریندر مودی نے وال سٹریٹ جرنل میں اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ انڈیا اور امریکہ مشترکہ طور پر پیداوار اور جدت کو تقویت دے رہے ہیں۔ وائٹ ہاﺅس کے مطابق دونوں ممالک نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین کا دہشتگردوں کے ہاتھوں استعمال روکے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کی خوشامد میں تمام حدیں پار کر گئے اور کہا کہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات مثالی دور سے گزر رہے ہیں۔ وائٹ ہا¶س میں بھارت کا سچا دوست موجود ہے۔ امریکہ اور بھارت کی دوستی کبھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی جتنی آج ہے۔اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر دنیا سے اسلامی انتہا پسندی کا خاتمہ کرے گا جبکہ اس موقع پر نریندر مودی ایک آفس کے ملازم کی طرح ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ممالک کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ بھارت کے ساتھ دفاع سمیت تمام شعبوں میں تعاون بڑھائیں گے۔ امریکی صدر نے بھارتی وزیراعظم کو وائٹ ہا¶س میں عشائیہ بھی دیا۔ اس سے قبل وائٹ ہا¶س میں دونوں رہنما¶ں کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی جس میں انسداد دہشت گردی، دفاع اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے، باہمی تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔ دونوں رہنما¶ں نے اقوام عالم پر زور دیا کہ وہ اپنے تمام علاقائی اور سمندری تنازعات کو عالمی قوانین کے تحت پر امن طریقے سے حل کریں۔ دوطرفہ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکہ دہشت گردی کی برائی اور اسے چلانے والے انتہا پسند نظریات سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اور دو طرفہ شفاف تجارتی تعلقات کی تعمیر کرنا چاہتا ہے جس سے دونوں ممالک کے لوگوں کو ملازمتوں کے مواقع میسر آسکیں اور ساتھ ہی دونوں ممالک کی معیشتیں بھی مضبوط ہوں گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب امریکی اشیاءکی بھارتی منڈیوں تک رسائی کی رکاوٹیں ختم ہو گئیں جس کی مدد سے امریکہ کا مالی خسارہ کم ہوجائے گا۔نریندر مودی نے بھارت کو امریکی کمپنیوں کےلئے بہترین منڈی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اب امریکی سرمایہ کاروں کےلئے ایک محفوظ ملک کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہاکہ امریکہ بھارت کےلئے سماجی و اقتصادی تبدیلی میں اہم شراکت دار ہے۔ اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کی ترقی کےلئے میرے نقطہ نظر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کو دوبارہ عظیم ملک بنانے کے نظریے کی مدد سے دونوں ممالک کے تعاون میں نئی وسعت پیدا ہوگی۔اس موقع پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں تعمیر و ترقی کے عمل میں تعاون پر بھارتی عوام کے شکر گزار ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نے بھی امریکی صدر کو یقین دلایا کہ بھارت عالمی امن و استحکام کے حصول میں امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی سیکرٹری دفاع جم میٹس اور امریکی سیکرٹری سٹیٹ ریکس ٹلرسن سے بھی ملاقات کی۔ ٹرمپ مودی ملاقات کے موقع پر بڑی تعداد میں کشمیریوں اور سکھوں کی بڑی تعدادنے وائٹ ہا¶س کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔کشمیری مظاہرین نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر احتجاج کیا۔ مظاہرے کی قیادت ورلڈ کشمیر اویئرنیس فورم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام نبی فائی نے کی۔ مظاہرین نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مودی کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرے بلند کئے۔ یورپ میں مقیم کشمیریوں نے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی ہالینڈ آمد پر بھی احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کا اہتمام کشمیر پیس کونسل ہالینڈ اور کشمیر کونسل یورپ نے ہالینڈ کے دارالحکومت دی ہیگ میں کیا۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف نعرے درج تھے۔
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)پاکستان نے امریکہ اور بھات سربراہ ملاقات کے اعلان واشنگٹن کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سربراہ ملاقات میں بھارت کو امن دشمن پالیسیاں ترک کرنے پر قائل کرنے کا موقع گنوا دیا گیا ہے۔حق کودارادیت کیلئے کشمیریوں کی جدوجہد کی حمائت کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دینا اور اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت مظالم سے چشم پوشی ناقابل قبول ہے۔ جدید ترین ملٹری ٹیکنالوجی کی منتقلی اور ہتھیاروں کی فروخت بھارت کو فوجی مہم جوئی پر اکسا رہی ہے جس پر پاکستان کو گہری تشویش ہے۔ بدھ کی شام ترجمان دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے ستائیس جون کو واشنگٹن سے جاری کردہ ، امریکہ بھارت مشترکہ اعلامیہ کا نوٹس لیا ہے۔ اس اعلامیہ کے ذریعہ یکطرفہ انداز میں جنوبی ایشیاءکے اندر سٹریجک استحکام کا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جنوبی ایشیاءمیں کشیدگی کی بنیادی وجہ کا اعلامیہ میں ذکر کئے بغیر پہلے سے کشیدہ صورتحال کو مزید بگاڑ دیا گیا ہے۔ واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرا مودی کے درمیان ملاقات ایک موقع تھا جس میں بھارت کو جنوبی ایشیاءمیں امن دشمن پالیسیوں کو تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا لیکن یہ موقع ضائع کر دیا گیا۔ اعلامیہ میں جمہوریت اقدار کی بالاستی کا ذکر کیا گیا ہے جس کا تقاضہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی، ملک بھر میں ریاست کی زیر سرپرستی، مذہبی اقلیتوں پر جبر کو انسانی حقوق کی پاسداری اور مذہبی حقوق کے احترام میں بدلنے اور اظہار رائے کی آزادی دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کشمیر کاز کی جائز اور قانونی حثییت ہے کیونکہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعہ عالمی برادری نے کشمیروں سے ان کا حق خودارادیت دلوانے کا وعدہ کر ر کھا ہے۔ کشمیریوں کی حق کودارادیت کیئے جائز جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنے اور اس جدوجہد کی حمائت کرنے والے افراد کو دہشت گرد قرار دینے ناقابل قبول ہے۔اسی طرح بھارتی د سیکورٹی فورسز کی طرف سے کشمیریوں پر بدترین مظالم سے روا رکھی گئی چشم پوشی بھی ناقابل قبول ہے۔ یہ چشم پوشی اقوام متحدہ کے منشور کے منافی اور خطہ میں امن و سلامتی کے استحکام کے خلاف ہے۔پاکستان ، بھارت کے ساتھ تمام تنازعات ، خصوصاً مسلہ کشمیر کو پرامن ذرائع سے ، سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق طے کرنے کیلئے تیار اور پرعزم ہے۔ بھارت بھی اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ پاکستان اس خطہ میں ہونے والی دہشت گردی کا سب سے بڑامتاثر ملک ہے۔ کسی بھی ملک نے پاکستان سے زیادہ جانی و مالی قربانیاں نہیں دی ہیں۔مسلسل کارروائیوں کے ذریعہ پاکستان نے اپنی سرزمین سے، بلا امتیاز دہشت گردی کی جڑ اکھاڑنے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ہم اس جہدوجہد کو منقطی انجام تک پہنچانے کیلئے پرعزم ہیں۔پاکستان توقع کرتا ہے کہ عالمی برادری، اس جہدوجہد میں پاکستان کا غیر متزلزل ساتھ دے۔ بھارت نے سرحد پر سے تحریک طالبان پاکستان کو ،پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ اس طریقہ سے بھارت خطہ میں امن کو جس خطرہ سے دوچار کر رہا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کے خلاف شور مچانے والے ہی،پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کے بڑے سرپرست ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو جدید ترین ملٹری ٹیکنالوجی کی فروخت پر بھی گہری تشویش ہے۔ یہ فروخت، جنوبی ایشیاءمیں سٹریٹجک استحکام کو بگاڑ رہی ہے اور پہلے سے موجود عدم توازن کو مزید گہرا کر رہی ہے اور بھارت کو مزید جارحانہ فوجی رویہ اختیار کرنے پر اکسانے کے علاوہ فوجی مہم جوئی پر بھی مائل کر رہی ہے۔ جدید فوجی ٹیکنالوجی کی فروخت کے باعث بھارت خطہ میں پائیدار امن کے قیام کی کوششوں میں عدم دلچسبی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔