جمعرات ‘ 4 ؍ شوال المکرم ‘ 1438ھ‘ 29 ؍جون 2017ء
ہاکی فیڈریشن میں وسیع پیمانے پر تبدیلیوں پر غور
اچھا ہے کہ اس وقت جبکہ پوری قوم کرکٹ ٹیم کی فتح کی خوشی سے سرشار ہے اور اِدھر اُدھر کے حالات کی طرف ان کی توجہ نہیں جا رہی ورنہ ہاکی ٹیم والے دیکھتے کہ ان کی وطن واپسی پر ان کی کیسی جی آیاں نوں ہوتی۔ ہاکی میں اس طرح کی شرمناک شکست کو قوم آسانی سے ہضم نہ کر پاتی کھلاڑیوں کو برقعہ پہن کر ادھر اُدھر منہ چھپا کر بھاگنا پڑتا۔ ہاکی ٹیم نے ورلڈ کپ کوالیفائنگ رائونڈ میں نہایت شرمناک کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور دس میں سے ساتویں پوزیشن حاصل کی۔اس پر ہاکی فیڈریشن والوں اور کھلاڑیوں کو خود ہی شرم کرنی چاہیے۔ ہاکی ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر لگتا ہے کہ ورلڈ کپ میں شرکت کا خواب دیکھنا بھی اس وقت سوائے ذہنی عیاشی کے اور کچھ نہیں۔ اب ہماری ہاکی فیڈریشن کو ہوش آبھی گیا تو بقول شاعر
’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا‘‘
اب کہتے ہیں عید کی چھٹیوں کے بعد بڑے پیمانے پر ہاکی فیڈریشن میں تبدیلیاں ہوں گی۔ ایسا بیان عرصہ دراز سے ہر شکست کے بعد سامنے آتا ہے۔ مگر تبدیلیاں ندارد۔ وہی گھسے پٹے چہرے، عمر رسیدہ عہدیدار پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں انہیں شکست یا جیت کی نہیں اپنے اپنے عہدوں اور نوکریوں کی فکر رہتی ہے ۔ جب تک کھلاڑیوں سے لے کر عہدیداروں تک میں کوئی تبدیلی سامنے نہیں آتی تبدیلیوں کا نعرہ صرف روایتی نعرہ ہی رہے گا اور کچھ عرصہ بعد واقعی تبدیلیاں نہیں آتیں تو ہاکی کے مزار پر کوئی فاتحہ پڑھنے والا بھی نہیں ملے گا…
٭٭٭٭٭٭
عید کی چھٹیوں میں لوڈشیڈنگ سے نجات پر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔
ورنہ گرمی اور حبس اس قدر تھا کہ سانس لینا بھی دوبھر ہو رہا تھا۔ ملک بھر میں پری مون سون نے 27 ویں رمضان کے بعد رنگ جمانا شروع کیا تو روزداروں کو پتہ چلا کہ شدید گرمی کے باوجود حبسِ دم نہ ہونے کی وجہ سے روزے بہرحال آرام سے گزرے آخری دو روزوں نے جب گھٹن سے دم بند کرنا شروع کیا تو لوگ بارش کی دعائیں مانگنے لگے۔ عید کا دن بھی پسینے میں تتر بتر گزرا۔ یہ تو واپڈا اور بجلی فراہم کرنے والوں کی مہربانی رہی کہ حکومت کی طرف سے ایام عید پر لوڈشیڈنگ نہ کرنے کے احکامات پر مکمل عمل درآمد کر کے انہوں نے عوام کی دعائیں لیں۔ اب خدا کرے عوام کی دعائیں پوری ہوں اور لوگوں کی اس لوڈشیڈنگ نامی مصیبت سے ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جائے جو ماسی مصیبتے بن کر مستقل ہی چمٹ گئی ہے۔ ان ایام عید میں بجلی کی مسلسل فراہمی سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اور بجلی پیدا کرنے والے ادارے اگر نیک نیتی سے کام کریں تو لوڈشیڈنگ پر قابو پا سکتے ہیں۔ ان کے پاس وسائل ہیں۔ بس اگر کمی ہے تو نیک نیتی کی۔ اسلئے اب یہ حکومت اور بجلی پیدا کرنے والے ادارے خوف خدا سے کام لیں اور اس گھٹن والے حبس زدہ ماحول میں عوام کو سانس لینے میں مدد دیں۔ ورنہ مون سون یعنی ساون بھادوں میں تو لوڈشیڈنگ کی وجہ وہی ’’میرے نیناں ساون بھادوں‘‘ والی حالت ہر لمحہ جاری رہے گی۔جس سے پاکستانی قوم چھٹکارہ پانا چاہتی ہے اور اسی نعرے پر ووٹ بھی دیتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
آٹھ دس دنوں میں حکمرانوں کی آنکھیں کھلنے والی ہیں:شیخ رشید
ویسے تو سیاسی دنیا کے یہ نجومی جو اپنی پیشنگوئیاں پوری نہ ہونے پر عوام الناس میں مزاحیہ سیاستدان کے طور پر مشہور ہیں۔ آئے تو بہاولپور تھے سانحہ احمد پور شرقیہ کے زخمیوں کا حال احوال دریافت کرنے مگر ٹی وی کیمروں اور صحافیوں کو دیکھ کر ان کی سیاسی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور وہ زخمیوں کے رنج و غم کو ان کے اہل و عیال کی پریشانیوں کو بھول گئے اور لگے سیاست جتانے اور بیٹھ گئے اپنی سیاسی جنتری کھول کر جس میں نجانے کتنی اور غلط سلط سیاسی پیشن گوئیاں درج ہیں۔ اب نئی پیش گوئی کے مطابق انہوں نے کہا ہے کہ حکمرانوں کی آنکھیں 8 یا 10 روز میں کھلنے والی ہیں۔ معلوم نہیں انہیں یہ کس نے کہہ دیا کہ حکمرانوں کی آنکھیں بند ہیں۔ ماسوائے نیند کی حالت میں حکمرانوں کی آنکھیں شاید ہی کبھی بند ہوتی ہوں۔ ان کا بس چلے تو وہ نیند کی حالت میں بھی آنکھیں کھلی رکھیں تاکہ اِدھر اُدھر جو کچھ ہو رہا ہے وہ انہیں پتہ چلتا رہے۔ یہ الگ بات کہ کبھی کبھار وہ مزہ لینے کے لئے یونہی جان کے اَکھ میٹ لیں!
اب شیخ جی جو پھر اپنی شیخی بگھار رہے ہیں۔ وہ بھی دیکھ لیتے ہیں جہاں چار برس گزر گئے وہاں آٹھ یا دس دن اور سہی۔ بس دھیان رہے کہیں یہ مقررہ مدت گزرنے کے بعد کہیں شیخ جی کی آنکھیں کھلی کی کھلی نہ رہ جائیں۔ اور حکومت اپنی بقیہ مدت بھی پوری کر کے 2018ء میں الیکشن کرائے۔ رہی بات اس الیکشن کے نتائج کی تو فی الحال اس طرف سے آنکھیں اور منہ دونوں ہی بند رکھنا بہتر ہے…
٭٭٭٭٭٭
مری میں تیسرے روز بھی موٹرسائیکلوں کا داخلہ ممنوع۔
بھئی یہ تو سراسر زیادتی ہے۔ گاڑیوں والے جہاں مرضی جائیں ادھم مچائیں انہیں کوئی پوچھتا نہیں۔ یہ معمولی غریبوں کی سواری پر سب کی نظریں ٹکی رہتی ہیں۔ کوئی سانحہ ہو حادثہ ہو یا کچھ اور سارا زور موٹرسائیکل والوں پر نکلتا ہے۔ کبھی ڈبل سواری پر پابندی لگتی ہے کبھی موٹرسائیکل کے داخلے پر…
اب مری و دیگر تفریحی مقامات پر بے شک موٹرسائیکلوں کا رش مسائل پیدا کرتا ہو گا۔ من چلے تیز رفتاری اور ون ویلنگ کرکے خود کو موت کے کنویں کا سٹار بھی ثابت کرتے ہیں۔ مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ سب سے زیادہ رش اور ٹریفک کے مسائل گاڑیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ جو جگہ بھی زیادہ گھیرتی ہیں۔ اب موٹرسائیکل بے چاری کی کیا اوقات یہ چھٹانک بھر کی سواری تو جگہ بھی کم گھیرتی ہے ۔ہاں البتہ سڑکوں پر ٹریفک قانون کو ہوا میں یوں اڑاتی ہے جیسے موٹرسائیکل چلانے والے اسے جہاز سمجھ کر اڑاتے ہیں۔عید کے ایام میں ذرا حادثات کی لسٹ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ پہلا نمبر ہماری اسی غریب نواز سواری کو ہی حاصل ہوتا ہے اس کے بعد عوامی سواری یعنی رکشاؤں کا نمبر آتا ہے۔ اب اگر موٹرسائیکل والے قانون کی پاسداری کریں موٹرسائیکل کو موٹرسائیکل ہی رہنے دیں۔ ہوائی جہاز نہ بنائیں تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہو سکتے ہیں۔ مگر نجانے کیوں موٹرسائیکل والے ہر رکشہ‘ گاڑی حتیٰ کہ ٹرک اور بسوں سے بھی ریس لگانا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے درمیان سے نکلنا سامنے آ کر کٹ مارنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ چاہے اس کے بعد وہ خود اپنے تمام حقوق زندگی سے ہی محروم کیوں نہ ہو جائیں۔