سانحہ احمد پور شرقیہ اور جنوبی پنجاب کی محرومیاں
عید الفطر سے صرف ایک روز قبل رحیم یار خان سے ملحقہ شہر احمد پور شرقیہ میں آنے والی قیامت صغریٰ نہ صرف 160 افراد کیلئے موت کا پیغام لائی بلکہ اس سے پورے جنوبی پنجاب کے باسیوں میں پائے جانے والے دائمی احساس محرومی کی شدت میں بھی اس قدر اضافہ دیکھنے میں آیا کہ جس کے اثرات شاید آئندہ کئی نسلوں تک محصوص کیے جائیں گے ۔آپ سب کے علم میں ہو گا کہ 29 رمضان المبارک کو احمد پور شرقیہ کے نزدیک پیش آنے والے اس دل خراش واقع میں ایک آئل ٹینکر سے بہنے والے پٹرول کو لگنے والی آگ کے نتیجے میں 160 سے زائد افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے تھے لیکن ذرائع کے مطابق اگر بہاولپور وکٹوریا ہسپتال میں سپیشل برن یونٹ ہوتا تو کم از کم 35 افراد کی جانیں بچائی جا سکتی تھیں لیکن شاید ہمارے حکمران جنوبی پنجاب کی عوام کو بہترین طبی سہولتیں دینے کی بجائے امداد دینے پر یقین رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت نے اس واقع میں شہید اور زخمی ہونے والے افراد کیلئے فوری طور پر امدادی رقوم کا نہ صرف اعلان کر دیا بلکہ ان میں سے بعض میں یہ رقوم تقسیم بھی کر دیں گئیں ۔لاہور میں اربوں روپے مالیتی میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے بعد اب نہ صرف لاہور کے شہریوں کیلئے زیر زمین اربوں روپے مالیتی پرپل ٹرین چلانے کے منصوبے زیر غور ہیں بلکہ لاہور کے قبرستانوں کو بھی جدید سہولتوں سے آراستہ کیا جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے بہاولپور ڈویژن کے عوام کیلئے 70 سال گزرنے کے باوجود نہ صرف کوئی سپیشل برن یونٹ قائم نہیں کیا جا سکا بلکہ یہاں کی عوام ابھی تک کارڈ یالوجی جیسے جدید ہسپتال سے بھی محروم ہیں جس سے پنجاب کے حکمرانوں کا یہاں کی عوام سے محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔اس سانحہ میں جہاں 160 سے زائد لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے وہاں ہمارے موٹر وے پولیس ،پنجاب پولیس ،ریسکیو 1122 اور میونسپل کمیٹی جیسے قومی اداروں کا ”پروفیشنل ازم“ بھی مکمل طور پر ایکسپوز ہو کر سامنے آیا ہے ۔جشم دید گواہوں کے مطابق حادثے کے فوری بعد موٹر وے پولیس کے کچھ اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے مگر آگ کے کالے شعلے دور دور تک پھیلنے کے باوجود موٹر وے پولیس یا پنجاب پولیس نے جائے حادثہ کے نزدیک سے گزرنے والی قومی شاہراہ کو عام ٹریفک کیلئے بند نہیں کیا جس کے باعث اس شاہراہ سے گزرنے والے بعض موٹر سائیکل اور کار سوار کئی شہریوں بھی اس آگ کی لپیٹ میں آ گئے جبکہ حیران کن طور پر میونسپل کمیٹی احمد پور شرقیہ اور ریسکیو 1122کے پاس کوئی ایسی فائربریگیڈ لاری موجود نہیں تھی جو فوری طور پر اس آگ پر قابو پا سکتی جس کے باعث بہاولپور سے ہنگامی طور پر فائربریگیڈز گاڑیاں پہنچی لیکن اتنی دیر تک آگ کی شدت میں مسلسل اضافے سے کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوچکا تھا۔ہمارے ان قومی اداروں کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ واقعہ رونما ہونے کے بعد کافی دیر تک یہ ادارے صرف حادثے میں شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاع دیتے رہے حالانکہ اس وقت تک 100 سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے تھے تاہم ذرائع کے مطابق آرمی کے ہیلی کاپٹرز اور ایمبولینسز نے فوری طور پر موقع پر پہنچ کر ہنگامی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں بچائی جا سکیں ۔
اس دل خراش سانحہ سے جہاں درجنوں شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں وہاں اس سانحہ کا ایک اور انتہائی افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کے ورثاءاپنے پیاروں کی لاشیں تک شناخت نہیں کر سکتے اور نہ ہی بہاولپور ڈویژن کے کسی بھی ہسپتال میں لاشوں کی شناخت یا اس حد تک جلی ہوئی لاشوں کے ڈی این اے کا کوئی سسٹم موجود ہے جس کے باعث مجبوراً ان جلی ہوئی لاشوں کی اجتماعی طور پر تدفین کی جا رہی ہے مگر ان کے پیارے عید اور شب رات کے موقع پرکس قبر پر فاتحہ خوانی کریں گے یہ احساس محرومی ساری عمر ان کا پیچھا کرتا رہے گا ۔
وزیر اعظم نواز شریف اور وزیرا علیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ اس حادثے میں شہید اور زخمی ہونے والوں کیلئے امدادی رقوم کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ بہاولپور ،رحیم یار خان اور بہاولنگر کے ضلعی ہسپتالوں میں برن یونٹس اور کارڈیالوجی سینٹر قائم کرنے کا اعلان کریں تاکہ خدانخواستہ آئندہ کوئی اس طرح کا واقعہ رونما ہونے کی صورت میں زیادہ جانی نقصان سے بچا جا سکے ۔