ہزاروں برس سے یونہی
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی کھوج، پرکھ اورتفتیش وغیرہ کے ہیں۔ اس کو انگریزی میں ریسرچ کہا جاتا ہے۔جس کے معنی توجہ سے تلاش کرنا اوردوبارہ تلاش کرنا کے ہیں۔ رابرٹ راس کے مطابق یہ فرانسیسی لفظ ریسرچر سے نکلا ہے۔ جس کے معنی تلاش کرنا کے ہیں۔ہندی میں تحقیق کو انوسندھان کہتے ہیں جس کا مادہ دھابے ہے اور اس کے معنی برقرار رکھنا کے ہیںاور انوسندھا کے معنی ٹوٹے بکھرے دھاگے جوڑ کر رکھنے کے بھی ہیں۔اہل علم و دانش نے اس کی کئی اقسام بیان کی جن کا تذکرہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔سردست مجھے معروف ادیب،شاعر اور محقق سید نصرت بخاری کی ایک تحقیقی کاوش کا تعارف کرانا ہے جو سہ ماہی”جمالیات“ کے تازہ شمارہ میں منظر عام پر آئی ہے۔سہ ماہی ”جمالیات“ اٹک کا پندرہواں شمارہ حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے۔اس شمارے کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے اٹک سے نکلنے والے اخبارات اور رسائل کے تاریخی تذکرے کے طور پر مرتب کیا گیا ہے جسے معروف ادیب اور محقق سید نصرت بخاری نے عرق ریزی سے ترتیب دیا ہے۔سیدنصرت بخاری نے اس مقالے میں اٹک سے نکلنے والے قریباً تمام رسائل وجرائد کو مذکور کیا ہے اور ہر رسالے کے اجرائ،معیادِ اشاعت اور بندش کی تواریخ کے ساتھ ساتھ اس کے مدیر ،بانی اور مدیر اعلیٰ سے متعلق معلومات جمع کر دی ہیں۔انہوں نے یہ اہتمام بھی کیا ہے کہ رسالے یا اخبار کی بندش کے اسباب اور وجوہات بھی قلم بند کر دیں۔سید نصرت بخاری ،علمی وادبی دنیا میں محنت،لگن اور خاموشی سے تحقیقی کام کرنے میں منہمک رہنے والے ادیب کے طور پر معروف ہیں۔اب تک ان کا جو تحقیقی و تخلیقی کام منظرعام پر آیاہے اس میں”گھاﺅ“(افسانے )،”مکاتیب ِ مشاہیر بہ نام حق نواز خان“(مقالہ برائے ایم فل)اور”سخن یہ ہے(شاعری) شامل ہیں۔ ”جمالیات“ کے اس شمارے میں نصرت بخاری نے ”مقامی اخبارات و رسائل کی اہمیت“ کے عنوان سے ایک مبسوط مقالہ بھی تحریر کیا ہے جس میں اخبارات و رسائل کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔جن رسائل و جرائد اور اخبارات کا تذکرہ اس شمارے میں موجود ہے ان میںرہنمائے تعلیم،ترقی اٹک کیمل پور،رہبراٹک،مشعل،غنچہ،اذان،ابدالین،تعمیراٹک،سبدِ گل،خورشید،سیل،کلیاں،پیامِ نیل،اسلوب، ہرو، الارشاد،نذراقبال،حضرو گٹ، سماج ،فروغِ ادب،عروج ،سخنور،مفہوم،اٹک فیسٹیول، انقلاب،کالا چٹا،منزل، پابہ جولاں،کبر آشنائی،اٹک نامہ،چاک،صدف، خزینہ، الحی،سحاب، مائیکروسکرین، نیلاب رنگ،بھوئی نامہ،ہرو ٹائم،انیلہ،سحرتاب، جوہرین،ن والقلم،الدین،ریاض الاسلام،ریاض العلم،حقانی،الاشرف، انضباط،حروف، قندیل،الحدیث،تیسرا رخ،من و تو،کہکشاں،ویژن، حرف وندا،ضیاالقرآن، تاج ِشجاع،تنویرالایمان،چراغ ِراہ،امکان،عکس خیال،اکتساب،تدبر،سنگم،کاوش، جمالیات،فیضانِ میروی،شناسا،قوسِ قزح،الامین، حاشیہ، افق،سلسبیل، عزت و اقبال،نوائے احناف، خراجِ عقیدت،فروغ ِ نعت،نعتیہ ادب،قندیل سلیمان، ضیا ئے مصطفےٰ،لالہ رخ، ستاروں سے آگے، پارس ،چھب، سندیس، روشنی ،اجالا، ونگاں(رسائل) اور حضرو، ہرو ٹائم، صدائے جمہور،تصویر اٹک،ندائے پنڈی گھیب، تیسرارخ ،فوارہ،چشم فلک،اٹک ٹائم،نوائے چھچھ، ناطق، اسلوب ،ناوک،راضی ،صبح تک،عوامی للکار،آج کا پاکستان (اخبارات) اور دیگر شامل ہیں۔نصرت بخاری نے جس محنت اور عرق ریزی سے یہ کارنامہ انجام دیا ہے وہ یقیناً لائق صد ستائش ہے۔مجھے امید ہے متعلقہ ادارے اور علمی ادبی حلقے اس بے مثال تحقیقی کا کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔اس شمارے میں ایک ادبی میگزین”ہرو“ اورایک اخبار ”ہروٹائم“ کے ناموں سے مجھے برادر عزیز اختررضا سلیمی کی ایک خوبصورت نظم ”ہرو“ یاد آ گئی۔میں یہ نظم قارئین کی نذر کرتے ہوئے سید نصرت بخاری کو اس شاندار کام پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کے لیے مزید کامیابیوں کا آرزو مند ہوں۔
میں ہرو ہوں
ہزاروں برس سے یونہی اپنی رو میں بہے جارہا ہوں
مری اور گلیات کی چھاتیوں سے نکلتی ہوئی دودھیا آبشاریں
مرے ظرف کو آزماتی رہی ہیں
مگر میں نے اپنے کنارے پہاڑ ایستادہ رکھے
تاکہ چاہوں بھی تو اپنے آپے سے باہر نہ ہو پاو¿ں میں
قسم ہے زمانے کی
میں نے کسی بھی زمانے میں اپنے کنارے پہ آباد گاو¿ں اجاڑے نہیں
سو مرے پانیوں میں لہو کا نہیں
سیب و شہتوت و زیتون و انجیر کا ذائقہ ہے
مرے ساحلوں پر دیودار اور چیڑ کی خو شبو ئیں تیرتی ہیں
میں گنگا نہ جمنا نہ نیل وفرات
ایک گم نام دریا... ہرو ہوں ہرو
مقدس صحیفے مرے تذکرے سے تہی ہیں
کہ میں نے کسی بھی زمانے میں انسانی جانوں کا نذرانہ مانگا نہیں
داستانوں میں میرا حوالہ نہیں
کہ میں نے کسی سوہنی کو ڈبویا نہیں
اور تاریخ کی سب کتابیں مرے باب میں چپ
کہ میری روانی میں پن چکیوں کی حسیں گونج ہے,
العطش العطش کی صدائیں نہیں
تشنگی پیتے ہونٹوں کی آہیں نہیں