بھارتی وزیراعظم مودی کا جادو ایک بار پھر امریکہ پہنچ کر امریکی صدر ٹرمپ پر چل گیا۔ وہ بھی شاید ان کے ہاتھوں سے بننے والی چائے پی کر اوبامہ کی طرح مودی کے بندہ بے دام بن گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں دونوں سربراہوں نے واشنگٹن میں پریس کے دوران جس طرح پاکستان پر دہشت گردی کے حوالے سے الزامات عائد کئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مودی نے اس دورے میں زیادہ تر وقت تجارتی معاشی اور دفاعی معاملات سے زیادہ پاکستان کے خلاف امریکی صدر کے کان بھرنے میں لگایا۔ اب اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کو عالمی سطح کا دہشت گرد قرار دیدیا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ کشمیر میں ہونے والی کارروائیوں کا الزام حزب المجاہدین قبول کرتی ہے۔ اب شاید کچھ عرصہ بعد حزب المجاہدین کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دیدیا جائے۔ حزب المجاہدین خود کشمیریوں کی اپنی بنائی ہوئی تنظیم ہے۔ یہ مکمل کشمیریوں کی تحریک آزادی چلانے والوں پر مشتمل ہے۔ مگر چونکہ اسکی سرپرستی پاکستان کرتا ہے۔ اس لئے بھارت اسے غیرملکی مدد سے چلنے والی تنظیم قرار دے کر دنیا کو گمراہ کر رہا ہے۔ امریکی صدر کو بھی یہی کہہ کر گمراہ کیا گیا کہ پاکستان کی مدد سے یہ مسلح تنظیم بھارت میں کارروائیاں کر رہی ہے۔ مگر کیا امریکہ سمیت اقوام متحدہ اور عالمی برادری نہیں جانتی کہ پاکستان یا حزب المجاہدین بھارت میں کسی بھی ایسی سرگرمی میں ملوث نہیں جس کا تعلق بھارت کو نقصان پہنچانے سے ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو آج نکسل باڈی، خالصتانی، ماؤ نواز باغیوں کی پاکستان سب سے پہلے مدد کر رہا ہوتا۔ جو بھارت سے اپنے علاقوں کی مکمل علیحدگی کی تحریکیں چلا رہے ہیں۔
کشمیر کا معاملہ ان سب سے الگ ہے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ ریاست ہے۔ اقوام متحدہ تک اس کے پرامن حل کے لئے رائے شماری کی قرارداد منظور کر چکی ہے۔ یہاں اگر کشمیری اپنی تحریک آزادی چلا رہے ہیں۔ بھارت سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں تو ان کا یہ حق عالمی سطح پر تمام اقوام متحدہ کے ممبران ہی نہیں خود بھارت نے بھی تسلیم کر رکھا ہے۔ بھارت کے انکار اور مسلسل ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہی کشمیری مسلح جدوجہد کی طرف راغب ہوئے ہیں۔ اس میں اگر پاکستان ان کی مدد کر رہا ہے۔ تو اس کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ بھی اس مسئلہ کا ایک فریق ہے۔ اور کشمیری بطور فریق اور وکیل اس سے مدد چاہتے ہیں۔ رہی بات دہشت گردی کی تو کوئی کشمیری بھارت میں جا کر دھماکے نہیں کراتا، قتل عام نہیں کرتا۔ بھارت میں تو خود بھارتی حکمران جماعت کے انتہاپسند ہندو کھلم کھلا دہشت گردی کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کا قتل عام آئے روز ہوتا ہے ان کے مساجد اور مذہبی مقامات اور گھر جلائے جا رہے ہیں۔ بچوں عورتوں اور بوڑھوں تک کو قتل کیا جاتا ہے۔ امریکی صدر کو انسانی حقوق کی یہ خلاف ورزی اور دہشت گردی نظر نہیں آتی۔ الٹا وہ بھارت کے قاتل قصاب وزیراعظم کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ کشمیر میں چلائی جانے والی تحریک آزادی اول و آخر کشمیریوں کی اپنی تحریک ہے۔ حزب المجاہدین ہو یا لبریشن فرنٹ یہ کشمیریوں کی اپنی جماعتیں ہیں، تنظیمیں ہیں انہیں کوئی باہر سے مدد دیتا ہے یا انکی حمایت کرتا ہے تو اسے دنیا کا کوئی قانون دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا نہیں کہہ سکتا۔ آزادی کی تحریکوں کی حمایت اگر جرم ہے تو دنیابھر میں فلسطین کی تحریک آزادی کی حمایت سب کرتے ہیں کیا وہ سب مجرم ہیں۔ کشمیری مجاہدین کو تحریک آزادی میں حصہ لینے والے حریت پسندوں کو کوئی بھی انسان دہشت گرد قرار نہیں دے سکتا۔ کیونکہ کشمیری اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قراردادوں کے مطابق اپنا حق رائے شماری طلب کر رہے ہیں۔ جس کے جواب میں بھارتی قابض افواج دہشت گردی کرتے ہوئے ان نہتے مظلوم کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ پاکستان صرف ان کی حمایت کرتا ہے۔ عالمی برادری بھی ان کے اس مطالبہ کی حمایت کرتی ہے۔ امریکی صدر بھی حقائق سے آنکھیں بند نہ کریں۔ مودی کی منافقانہ سیاسی لچھ دار باتوں میں آ کر پاکستان پر کشمیری مجاہدین پر الزامات لگانے سے قبل حقائق کا مطالعہ کریں۔ کشمیری دہشت گرد نہیں وہ تو آزادی پسند ہیں جو اپنا چھینا گیا حق غاضب بھارتی حکمرانوں سے مانگ رہے ہیں۔ جس کے جواب میں بھارت ایک لاکھ سے زیادہ کشمیریوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ چکا ہے۔ ظلم و تشدد کا ہر حربہ آزماتے ہوئے کشمیریوں کی نسل کشی کر کے وہ انہیں دبانا چاہتا ہے۔ اس لئے دہشت گرد کشمیری نہیں بھارت ہے جس کے وزیراعظم کے ساتھ امریکی صدر خوش گپیاں لگاتے ہوئے حقائق کو فراموش کر رہے ہیں۔
پس تحریر۔ احمد پور شرقیہ کا المناک سانحہ اہل پاکستان کو عید کے پرمسرت موقع پر سوگوار کرگیا۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان اب انسانی المیوں پر بھی سیاست کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ یہاں بھی جنوبی پنجاب کے نام پر لاشوں پر سیاست کرنے کی کوشش افسوسناک رہی۔ سانحہ پر سیاست کرنے والی جماعتوں نے خود کیا کیا۔ کیا کسی زخمی یا ہلاک ہونے والی کی اشک شوئی کی، ان کی مدد کے لئے اپنے گرہ سے کچھ نکالا۔ مگرمچھ کے آنسو بہانے سے سانحہ سے متاثرہ افراد کو کیا حاصل ہوگا۔ خود ان جماعتوں کے سربراہ لاہور، کراچی، مری اور اسلام آباد کے ٹھنڈے ٹھار محلات میں گھسے بیٹھے رہے۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اپنا دورہ لندن مختصر کرکے عید کے روز وطن واپس آئے اور احمد پور شرقیہ گئے، متاثرین کی دلجوئی کی، ان میں کھلے دل سے وافر مالی امداد تقسیم کی۔ ان کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف متاثرہ علاقے میں پہنچے، وہاں بیٹھ کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرتے رہے، قدم قدم پر انتظامیہ کے ساتھ مل کر زخمیوں اور مرنے والوں کے لواحقین کی مدد میں مصروف رہے۔ ان ہیلی کاپٹر بھی زخمیوں کو لے جانے میں مصروف رہا۔ کیا ہماری باقی سیاسی جماعتیں بھی اس سے سبق حاصل نہیں کرسکتیں کہ عوام کی خدمت سے ہی ان کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔ صرف بیان دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف جس طرح عملی طور پر اس سانحہ سے متاثرہ علاقہ میں بیٹھ کر کام کرتے رہے، وہ عوام فراموش نہیں کریں گے۔ جنوبی پنجاب کے نام پر سیاست کرنے والے ان کی محرومیوں کا رونے والے اس موقع پر کہاں غائب رہے۔ اب وہ بھی گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے، مگرمچھ کے آنسو بہانے آئیں گے۔ کیا اس علاقے کی پسماندگی میں خود ان ہی بڑا ہاتھ نہیں جو برسوں یہاں حکمران رہنے کے باوجود یہاں کے باسیوں کے لئے کچھ نہ کر سکے مگر متاثرین کو کیا دیں گے، یہ بھی وقت بتائے گا۔ حکومت کی طرف سے ہلاک شدگان کو 20، 20 لاکھ روپے اور زخمیوں کو 10، 10 لاکھ روپے کی امداد اگرچہ ان کے دکھوں کا مداوا نہیں مگر اشک شوئی کی احسن کوشش ضرور ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسے سانحات سے بچنے کے لئے عوام کو ایسے حادثات کے موقع پر جائے حادثہ سے دور رہنے کی تربیت دے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024