پیپلز پارٹی سندھ حکومت کی ناکامی کے اسباب و عوامل
2018ء کے الیکشن سے بے نیاز پیپلزپارٹی سندھ کی حکومت اس کے متعدد ارکان اور متعدد و زراءتاحال واقعتا سندھ کے عوام کے حال کے بجائے عوام کے مال سے غرض رکھے ہوئے ہیں متعدد ارکان قومی اسمبلی تو کھڑکی توڑ کارکردگی پر مامور و مگن ہیں ان لوگوں نے نیب ایف آئی اے اور رینجرز کے خلاف ہلا گلا آہ و بکا کرکے بل آخر پھر ان حالات کو اپنے حق میں موافق کر لیا ہے کہ جو ڈی جی رینجرز جنرل بلال کے دور میں ہرگز نہیں تھے اور ان دنوں آج کے کئی متذکرہ مال مست ارکان وزراء اور ایم این ایز کی باتصویر داستانیں اخبارات اور چینلز کی اسکرینوں کی زینت بن چکی تھیں۔ خطہ میں ملک عزیز کے خلاف یکدم پیدا ہونے والی ہمہ جہتی ہنگامی جنگی صورتحال نے فی الوقت ڈی جی رینجرز جنرل سعید احمد کور کمانڈر وغیرہ جیسے اہم جرنیلوں کو ملک کی جغرافیائی اور معنوی نظریاتی حفاظت جیسے فرائض پر کاربند کر دیا ہے اس لئے شاید پیپلز پارٹی سندھ حکومت کے مذکورہ عناصر شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی گلو خلاصی ہوچکی ہے مگر ان لوگوں کو مع آصف علی زرداری اور دیگر زعما کے یہ تو ضرور معلوم ہی ہوگا کہ اگر فوج ایک کام شروع کرتی ہے تو چاہے کچھ بھی ہوجائے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر رہتی ہے وہ جوں ہی ایک ٹاسک سے فارغ ہوتی ہے تو دوسرے کو پکڑ لیتی ہے۔ گذشتہ لمبے عرصے کے بعد اب سندھ کے عوام کھلے عام پی پی پی کی مخالفت کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ آصف علی زرداری اپنے محب وطن ہونے اور سابق صدر پاکستان ہونے پر اس وقت پانی پھیر چکے ہیں جب انہوں نے نہایت جذباتی انداز میں پوری کی پوری فوج کو ہی للکار ڈالا تھا وہ بھی اپنے ملک کی فوج اور اس کے جرنیلوں کو ؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ جو تلوار نہیں بلکہ زبان کے زخم ہیں مندمل ہوسکتے ہیں اور فوج یہ سب کچھ بھول سکتی ہے ؟ طرہ یہ کہ بعد ازاں فلور پر کھڑے ہوکر غیر معروف ارکان اسمبلی پی پی پی اعجاز جکھرانی نے بھی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے طور پر زرداری کی تائید میں اپنے قد کاٹھ سے بڑھ چڑھ کر انہی زرداری عزائم کا اظہار کیا تھا جو آن دی ریکارڈ ہے اور جس پر بعد ازاں انہوں نے فلور سے باہر آتے ہی میڈیا کے سامنے باقاعدہ معافیاں مانگی تھیں۔ ہر چند کہ موصوف زرداری اور ان کے حواریوں کا یہ عمل ہر گز قابل معافی نہ تھا مگر بوجوہ پاک فوج نے پھر بھی جمہوریت کی قدر کرتے ہوئے صبر و تحمل کا مظاہر ہ کیا مگر اس صبر و تحمل کو شاید پی پی پی نے اپنی عوامی طاقت سمجھ لیا کہ اس نے سندھ بھر سے ملکی خزانے کی یوں لوٹ کھسوٹ شروع کردی اور جاری رکھی کہ عوام کا کوئی بھی پرسان حال نہ بچا یا ۔ سندھ کے تمام اضلاع کا دورہ کرکے اس کے Civic حالات کو اور پھر محکمہ جات کا دورہ کرکے وہاں کے بامیان کے بتوں کی چال ڈھال کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ میں قانون نام کی نہ کوئی چیز تھی نہ ہے اور قانون باقاعدہ سندھ کے قومی صوبائی نمائندوں کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلاآخر وہ نہج آن پہنچی ہے کہ عوام اب کھلے عام برملا پی پی پی کی مخالفت کرنے لگے ہیں اور کوئی نعم البدل ڈھونڈ رہے ہیں ۔ البتہ ایک بات حالات و واقعات کی رو سے صاف دکھائی دے رہی ہے کہ نعم البدل ملے یا نہ ملے وہ اس بار پی پی پی کو ووٹ دینے سے گریزاں نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی 2018 کے انتخابات خصوصاً سندھ میں حکومت کے قیام کے حوالے سے نہایت اہمیت اختیار کرچکے ہیں ۔