بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اشد ضروری
میں پہلے بھی کئی بار اپنی تحریروں میں لکھ چکا ہوں اور ایک بار پھر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ یہاں سیاست و جمہوریت کو دولت کے ہاتھوں محصور کردیا گیا ہے اور سیاست پر چند خاندانوں نے اپنا گہرا قبضہ جمایا ہوا ہے اور اس مخصوص حصار سے کسی بھی طور پر اختیارات‘ اقتدار اور وسائل کو نکلنے نہیں دیا جارہا۔جب سیاستدانوں کے منہ کو یہ ترقیاتی فنڈز کا کمیشن لگا ہو تو اس صورتحال میں کونسا شریف انسان آمدنی کا یہ سنہرا ذریعہ کسی اور کو تفویض کرنے کی حمایت کرسکتا ہے؟ یہی صورتحال جاری ہے کہ سپریم کورٹ بار بار بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر اصرار کرتا ہے اور صوبائی حکومتیں مختلف حیلوں بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو تاخیر کا شکار کر رہی ہیں۔ دنیا بھر میں کامیاب ترین طرز حکومت مقامی حکومتوں کا نظام ہے جس کے تحت ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر نمائندے منتخب کرکے عوام کے اکثر مسائل کو ان کی دہلیز پر حل کرنے کی بھرپورکوشش کی جاتی ہے اور اختیارات کی انتہائی نچلی سطح تک منصفانہ تقسیم سے وفاقی و صوبائی حکومتیں بہت سے مسائل سے آزاد رہتی ہیں۔
موجودہ حکومت کو بھی تین سال ہونے کو ہیں اور بلدیاتی اداروں کو ختم کردیا گیا اور سپریم کورٹ کے بار بار بلدیاتی اداروں کی بحالی کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔کیونکہ ایسا کرنے سے ترقیاتی فنڈز اور کئی اختیارات نچلی سطح پر تفویض کرنا پڑتے اور ان پارٹیوں کے ایم پی اے‘ ایم این اے اور سینیٹرز کو مخصوص ’’ترقیاتی فنڈ‘‘ نہ مل پاتا۔ یہاں اس بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ ایم این اے‘ ایم پی اے اور سینیٹرز کے ترقیاتی فنڈ میں قانونی طور پر بھی فنڈ کا 10% متعلقہ رکن اسمبلی کو کمیشن ملتا ہے مگر میرے خیال میں کوئی بہت ہی سادہ اورقناعت پسند سیاستدان ہی ہوگا جو اس 10% کمیشن پر اکتفا کرے کیونکہ یہاں تو اپنے ترقیاتی فنڈز کا 50-60% کاطریقہ کار رائج ہے اور اس کے علاوہ سرکاری افسران‘ ایکس ای این و متعلقہ سرکاری عملہ بھی کم و بیش 15-20% حصہ لیتا ہے یعنی اس طریقہ کار کے تحت ترقیاتی فنڈ کا 30% تک بمشکل منصوبوں پر خرچ ہوتا ہے اور اس قدر بھاری کمیشن کے بعد ٹھیکیدار کس معیار کا کام کرے گا؟ اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جمہوریت کی کی علمبردار بڑی سیاسی جماعتیں کہنے کو توجمہوریت رائج کرنا چاہتی ہیں مگر عملی طور پر جمہوری ڈکٹیٹرشپ رائج ہے ۔ بڑی سیاسی جماعتیں اپنا پارٹی الیکشن ہی نہیں کراتیں بلکہ پارٹیوں کو اپنی ذاتی جاگیر کے طورپر چلایا جارہا ہے تو یہ لوگ ملک میں حقیقی جمہوریت کس طرح رائج کرسکتے ہیں؟ جنرل پرویز مشرف بے شک فوجی حکمران تھے مگر انہوں نے اپنے دور اقتدار میں باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات منعقد کرائے اور ملک بھر میں اختیارات کو ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کو تفویض کیا۔ ان کے دور حکومت میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے اور کسی ایم این اے‘ ایم پی اے یا سنییٹرز کو ترقیاتی فنڈ نہیں دیا گیا بلکہ ترقیاتی فنڈز کا استعمال مقامی حکومتوں کے ذریعے کیا گیا جس سے ملک میں تعمیر وترقی کے نئے دورکا آغاز ہوا اور عوام کافی حد تک مطمئن تھے۔
پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور اس سنگین صورتحال میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ اپنے زیادہ تر اختیارات و وسائل کی نچلی سطح پر منصفانہ تقسیم کرکے خود دیگر اہم امور کی جانب توجہ مرکوز کرے اور قومی سطح پر پالیسیوں کی تشکیل و عملدرآمد کی جانب زیادہ لگن سے کام ہونا چاہئے۔
میڈیا کو چاہئے کہ بلدیاتی انتخابات کے جلد از جلد انتخابات کے لئے بھرپور میڈیا مہم چلائے اور وفاق و صوبوں میں براجمان سیاسی جماعتوں سے جواب طلبی کرنے کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم میں کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کے بارے میں دریافت کیا جائے۔ بلدیاتی انتخابات کا جلد ازجلد انعقاد ہی عوام کے مسائل میں نمایاں کمی کا ضامن بن سکتا ہے اس کے علاوہ ایم این اے‘ ایم پی اے اور سینیٹرز کے ترقیاتی فنڈز پر مکمل طورپر پابند ی ہونی چاہئے اور سارا ترقیاتی فنڈبلدیاتی حکومتوں کے ذریعے استعمال کیا جائے البتہ ہر ضلع و تحصیل کے ترقیاتی بورڈ میں مقامی ایم این اے‘ ایم پی اے اور سینیٹرز کو شامل کیا جائے اور یہ بورڈ صرف مقامی ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دیکر ان کی نگرانی کرنے کا مجاز ہو۔ ترقیاتی منصوبوں میں استعمال ہونیوالے تمام فنڈز کے اجراء و استعمال کا اختیار مقامی ڈی سی او‘ ڈپٹی کمشنرز کو ہونا چاہئے۔ اس نظام سے ملک بھرمیں ترقیاتی منصوبوں کی معیاری تکمیل کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
سپریم کورٹ کو چاہئے کہ اب بلدیاتی انتخابات کے جلد از جلد انعقاد کے لئے تمام صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو طلب کرکے حتمی تاریخوں کا اعلان کرے اور ان تاریخوں پر بلدیاتی انتخابات کے لازمی انعقاد کو سپریم کورٹ یقینی بنائے اور الیکشن کمیشن کو مزید حیلوں بہانوں پر سرزنش کی جانی چاہئے تاکہ ملک میں بنیادی جمہوریت رائج ہو اور عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل ہونا شروع ہوسکیں۔
موجودہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے سخت نوٹس اور احکامات سے قبل ہی بلدیاتی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کریں اور ایسا بلدیاتی نظام رائج کیا جائے جس میں اختیارات و وسائل نچلی سطح پر تفویض ہوں جس سے عوام کے مسائل کے حل کو یقینی بنایا جاسکے۔ترقی یافتہ ممالک میں حالت جنگ میں بھی بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں اور عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے والا نظام ہی بلدیاتی نظام ہے۔ آپ اس نظام کو ختم کرنے کے بعد یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ ہم عوام کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ ہیں تو یہ عوام کے ساتھ مذاق ہے۔ اب قوم سے مذاق ختم ہونا چاہئے اور موثر و بااختیار بلدیاتی نظام رائج کرکے فوری بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔