مسجدوں میں نمازیوں کا احترام
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک زمانے میں عید کے چاند کا مسئلہ برطانیہ میں بھی مشکل تصور کیا جاتا تھا مگر آج وہ صورتحال نہیں رہی۔ برطانوی Observatory کی روشنی میں چاند کی پیدائش اور مطلع پر موجودگی میں اب کسی غلط فہمی کا احتمال ہی باقی نہیں رہا۔ البتہ چاند کے حوالے سے مسئلہ آج اگر کوئی ہے تو وہ ہمارے پیران عظام‘ علماء کرام اور ان مولوی حضرات کے مابین ہے جو یسرناالقرآن پڑھ کر کئی برس قبل برطانیہ آئے اور آج وہ مساجد میں پیش امام کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ کی ادائیگی کے علاوہ بیشتر مساجد میں کمیٹی اراکین نمازیوں سے کیا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں‘ ایک ایسی افسوسناک صورتحال ہے جس پر اب غیرمسلموں کے طعنے ہی نہیں سننے پڑ رہے اپنی مسلمانی کے دفاع کیلئے کئی کربناک لمحات سے بھی گزرنا پڑ رہا ہے۔
بڑے دکھ اور اپنے کپکپاتے قلم کے ساتھ ایک طویل عرصہ بعد اپنے علاقہ کی اس جامع مسجد کا ایک مرتبہ پھر ذکر کرنے لگا ہوں جو گزشتہ پانچ برس سے مسجد کمیٹی اراکین کے عدم برداشت رویے کی بناء پر علاقہ کی مسلمان کمیونٹی کیلئے اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں غیرمسلم بھی اب اظہار افسوس کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ مسجد بنیادی طور پر پروٹسٹنٹ عیسائی فرقے کا گرجا گھر تھا جس کی تعمیر 1904ء میں ہوئی تاہم 1993ء میں مقامی مسلمانوں نے اپنی مدد آپ کے جذبہ سے سرشار ہو کر تین لاکھ 80 ہزار پونڈ کی خطیر رقم سے خرید کر اسے مسجد کے نام وقف کر دیا۔ چرچ کو جب مسجد میں تبدیل کیا گیا تو اس وقت یہاں 500 افراد کے عبادت کی گنجائش تھی بعدازاں 2011ء میں توسیعی منصوبے کے تحت ایک بڑا ہال تعمیر کیا گیا اور یوں آج یہاں دو ہزار نمازیوں کی گنجائش تو موجود ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ مسجد کو جس خطیر رقم سے خریدا اور مقامی مسلمانوں نے جس مالی جذبہ سے سرشار ہو کر حصہ ڈالا وہ سب کچھ آج غم ناک صورتحال اختیار کر چکا ہے جس پر جس قدر افسوس کیا جائے‘ کم ہے۔ مقامی مسلمانوں اور مسجد کمیٹی اراکین اور عہدیداران کے درمیان صورتحال اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پولیس کو مجبوراً متعدد بار بوٹوں سمیت مسجد کے اندر آنا پڑا تاکہ مسجد کمیٹی کے بعض اراکین اور نمازیوں کے مابین ہونیوالی ہاتھا پائی شدت اختیار نہ کر جائے۔ ماضی میں مسجد کے اندر ہونیوالے جھگڑے میں گرفتاریاں تک ہوئیں‘ کمیٹی نے نمازیوں کو مسجد کے اندر داخل ہونے تک سے روک دیا۔ داخلی گیٹوں پر تالے لگائے گئے۔ پاکستان کمیونٹی سنٹر ولذڈن میں علاقے کی دیگر مساجد کمیٹیوں کے سربراہان مسلم کونسلرز اور غیرجانبدارانہ شخصیات کا اجلاس بھی ہوا مگر افسوس! صد افسوس! کہ انڈیپنڈنٹ پینل کے دیئے گئے فیصلے کے باوجود گروپ بندیوں کا خاتمہ نہ ہو سکا اور معاملہ عدالت عالیہ تک لے جایا گیا۔
اگلے روز معروف اکائونٹنٹ اور کنسلٹنٹ سمیع زبیری صاحب نے مجھے ایک ایسی ویڈیو بھجوائی جس میں اسی مسجد کمیٹی کا ایک عہدیدار جس نے سفید عمامہ پہن رکھا تھا‘ اسی مسجد کے ایک باریش نمازی کو یہ حکم دے رہا ہے کہ مسجد میں اسے نماز ادا کرنے کی قطعی اجازت نہیں اس لئے وہ مسجد خالی کر دے کہ مبینہ طور پر یہ کمیٹی کا فیصلہ ہے۔ ویڈیو میں یہ باریش نمازی باربار دہائیاں دے رہا ہے کہ اللہ کے اس گھر میں اسے نماز کی ادائیگی سے نہ روکا جائے‘ اسے دھکے نہ دیئے جائیں اور نہ ہی اسے مشتعل کیا جائے مگر سفید عمامہ پہنے شخص اپنی کمیٹی اتھارٹی کے زور پر کسی بھی حال میں اسے نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ مقام شرم کہ ادھر یہ شخص نمازی سے جھگڑا کررہا ہے اور دوسری جانب امام نے باجماعت نماز شروع کر دی ہے‘ یہ جانتے اور دیکھتے ہوئے بھی کہ باجماعت نماز کی ادائیگی کے دوران شور اور ہاتھا پائی کی کیفیت میں نماز کی اہمیت پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ باریش نمازی اپنی نماز پڑھنے کی نیت کرنا چاہتا ہے مگر سفید عمامہ پہنے شخص کسی طور پر اسے نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔ اس معاملہ پر ایک مرتبہ پھر پولیس کا انتہائی قیمتی وقت ضائع کیا گیا۔ کاش! اس شخص کو یہ معلوم ہوتا کہ پولیس کو اس طرح کے جھگڑے پر بلا کر ان کا وقت برباد کرنا بھی سماجی طور پر ایک ناپسندیدہ فعل ہے۔ اب جس روز سے یہ ویڈیو سوشل میڈیا یا بشمول فیس بک پر وائرل ہوئی ہے‘ میرے علاقے کے مسلمانوں اور بالخصوص یہاں جوان ہونیوالی نئی مسلمان نسل کے سر ندامت سے جھک گئے ہیں۔ سوچتا ہوں‘ سفید پگڑی پہنے اس شخص نے باریش نمازی کو مسجد سے نکالنے سے قبل سورہ البقرہ کی یہ آیت کریمہ ’’من اظلمہ‘‘ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی مساجد میں خدا کے نام کا ذکر کرنے والوں کو منع کرے‘‘ پڑھ لیا ہوتا۔ غیرمسلم ایسے واقعات سے دائرہ اسلام میں داخل ہونا پسند کرینگے؟ یہ ہے وہ سوال جو غیرمسلم مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔۔