افغان صورتحال اور علاقائی سیاست
میرے پچھلے کالم کے بارے میں موصول ہونے والی آراء میں کچھ قارئین اور دوست جن میں ایک دو جانے پہچانے صحافی بھی شامل ہیں، کا خیال ہے کہ میں نے اپنے کالم میں موجودہ افغان صورتحال میں طالبان کی ’’ بظاہر فتح‘‘ کو ’’گلیمرائز‘‘ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مزید یہ کہ افغانستان کی اس وقت جو تباہ حالی ہے اگر یہ فتح ہے تو اللہ تعالیٰ ’’ پاکستان کو ایسی فتح سے دور رکھے‘‘۔ جو قارئین ان سے متفق ہیں ان سے ایک دو مختصر گزارشات۔ ایک تو یہ کہ وہ کالم پاکستان کے بارے میں تھا ہی نہیں۔ جانے کیوں ہم میں سے کچھ ’’ دانشور‘‘ اب بھی افغان طالبان اور امریکہ کی جنگ میںپاکستان کی فتح یا شکست ڈھونڈ رہے ہیں۔ بیس سال پرانی یہ سوچ موجودہ عالمی حالات میں کوئی جگہ نہیںرکھتی۔ افغان جنگ کے دوران پاکستان پر جو بھی اثرات ہوئے ، دہشتگردی اور ہزاروں سولین اور فوجی شہادتیں ہوئیں، ان سب کا مجھے بھی اتنا ہی افسوس ہے جتنا کسی بھی محب وطن پاکستانی کو ہو سکتا ہے۔ لیکن زمینی حقیقت تو پھر بھی یہی ہے کہ افغانستان میں طالبان کو امریکہ کے خلاف فتح حاصل ہوئی ہے۔ اتنے برسوں کی جنگ کے بعد میں اپنا ایک بھی حدف حاصل کیے بغیر ’’ غیر مشروط ‘‘ امریکی پسپائی کو تو فتح کہا نہیں جا سکتا۔ رہی بات تباہی کی تو یہ تباہی تو امریکہ نے افغانستان میں برپا کی ہے۔ اس تباہی کا جواب عالمی برادری کو امریکہ سے مانگنا چاہئیے نہ کہ افغان طالبان سے۔
اب تو سوال یہ ہے امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی صورتحال کیا ہو گی اور اسکے پاکستان اور عالمی اور علاقائی سیاست پر کیا اثرات ہونگے؟ افغانستان کا پاکستان کے ساتھ 2670کلومیٹر لمبا بارڈر بھی ہے اور دس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین ابھی بھی پاکستان میں ہیں۔ اگر افغانستان میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو مزید مہاجرین افغانستان سے پاکستان میں داخلے کی کوشش کرینگے۔ یہ سب چیزیں پاک افغان تعلقات کو نہ صرف بہت پیچیدہ بنا دیتی ہیں اور افغانستان کی داخلی صورتحال اسکے تمام پڑوسی ممالک میں سے سب سے زیادہ پاکستان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ دیگر علاقائی ممالک میں ر وس اور ایران طالبان کی پچھلی حکومت کے مخالف تھے۔ امریکی انخلا کے بعد یہ دونوں ممالک ایک بار پھر افغانستان میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کرینگے لیکن امید ہے کہ اب یہ ونوں ممالک اثر روسوخ کی تلاش میں وہ ’’مخالفت برائے مخالفت‘‘ کی غلطی نہیں دہرائیں گے۔ علاقے کا ایک اہم اور ’’چوہدری بننے کا شوقین ‘‘ ملک بھارت ہے جس کا کوئی بارڈر افغانستان سے ملتا تو نہیں لیکن یہ ملک پاکستان دشمنی میں افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اس سب کے بعد بھارت کو یقین تھا کہ آنیوالے وقت میں افغانستان کے تمام فیصلوں میں وہ شامل رہے گا۔ لیکن جب امریکہ نے افغانستان سے بھاگنے کا فیصلہ کر لیا تو عادت کیمطابق اس نے افغانستان میں اپنے علاقائی ساتھی بھارت سے نہ تو مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ بات چیت میں شریک کرنے کی۔ اس صورتحال میں بھارت تلملانے کے علاوہ عملی طور پر کچھ نہ کر سکا۔ اب بھارت کے کچھ مبصر ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھ کر یہ بڑھکیں مار رہے ہیں کہ بھارت افغان حکومت کی مدد کیلئے اپنی افواج افغانستان میں بھیج سکتا ہے ۔
میرے خیال میں یہ سب بھی بھارت کی ’’سرجیکل سٹرائیکس‘‘ کی مانند دیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ نہیں۔اگر چین کی بات کریں اور ’’ ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو‘‘ کے تصور کوذہن میں رکھیں تو موجودہ صورتحال میں چین بھی افغانستان میں زیادہ سے زیادہ اثر رسوخ چاہے گا۔ دنیا میں صرف چین ایسا ملک کے جس کی معیشت اس وقت ا س قابل ہے کہ وہ افغانستان میں تعمیر نو کا بوجھ اٹھا سکے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کے نوے فیصد سے زیادہ افراد غربت کی لکیر سے بہت نیچے رہتے ہیں اور انکی روزانہ آمدنی دو امریکی ڈالر سے کم ہے۔ ایسے میں اگر چین افغانستان کو اپنے ’’ ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو‘‘ میں شامل کرتا ہے تو یہ صورتحال افغانستان اور چین دونوں کیلئے فائدہ مند ہو گی۔ شاید یہی سب کچھ بھانپتے ہوئے امریکی کانگریس نے ایک قانون پاس کیا ہے (P.L.116-260) جس کے مطابق امریکہ اب بھی کرپشن کے خلاف جنگ، تعلیم اور افغان خواتین کے حقوق کیلئے افغانستان کی مالی امداد جاری رکھ سکتا ہے (رسی جل گئی پر بل نہیں گیا)۔ دوسری جانب چین کی روس کیساتھ مل کر بنائی گئی ’’شنگھائی کوآپریشن آرگنائزشن‘‘ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے چین افغانستان میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ اس تنظیم میں نہ صرف افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک شامل ہیں بلکہ خود افغانستان بھی بطور مبصر اس تنظیم سے منسلک ہے۔ اسکے آٹھ مستقل ممبران میں سے دو بڑے ممالک یعنی روس اور چین کے عالمی مفادات اب تک الگ الگ تھے لیکن افغانستان میں امریکہ دونوں ممالک کا مشترکہ حریف ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک کے مفادات ایک ہوتے نظر آ رہے ہیں اس لیے چین ( اور پاکستان ) اس تنظیم کی مدد سے افغانستان میں اہم کردار حاصل کر سکتے ہیں۔ بہرحال روس اور چین دونو ں اتنے بیوقوف نہیں کہ افغانستان میں ایک حد سے زیادہ براہ راست مداخلت کریں، لیکن ظاہر ہے کہ روس اور چین سمیت علاقے کے تمام ممالک یہ ضرور چاہیں گے کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم ہو۔ پاکستان کے مفاد میں بھی یہی ہے۔ اسی لیے پاکستان کی کوشش ہونی چاہیے کہ بجائے اسکے کہ طالبان طاقت کے زور پر افغانستان میں حکومت قائم کر لیں، وہاں ایک مستحکم قومی حکومت قائم ہو جس میں افغانستان کے تمام بڑے اتحاد شامل ہوں۔