مقبوضہ کشمیر میں ہندوتوا کا جبرو استبداد
بھارتی وزیر اعظم کا تعلق بنیادی طور پر آر ایس ایس سے ہے۔بی جے پی کسی دہشت گرد اور انتہا پسند ہندو جماعت کی کوکھ سے نکلی ہے۔آر ایس ایس کا وہی نظریہ ہے جو ہٹلر اور مسو لینی کا تھا۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر نریندر مودی نے ریاست کے مسلمانوں کا خون کیا اور وزیر اعظم کے طور پر اس نے آر ایس ایس کے سائے میں ہندو تواکے نظریات کو پروان چڑھایا۔ اس نظریے کے تحت بھارت میں کسی غیر ہندو کی گنجائش نہیں۔ نریندر مودی نے نہ صرف بھارتی مسلمانوں کو ظلم کا نشانہ بنایا بلکہ ملک کی دیگراقلیتوں کی ناک میں بھی دم کیے رکھا ہے ۔شہریت کا قانون نافذ ہونے کے بعد تو ہندو تواکی بجلیاں ہر اس شخص پر گر رہی ہیں جو ہندوئوں کے لیے قابل بر داشت نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہا کردی گئی ہے اس کے لیے نریندر مودی نے اپنے آئین کا چہرہ بھی مسخ کر دیا ہے۔ غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے کو نکال باہر کیا ہے۔ اس طرح اس نے ہندو توا کے فاشسٹ نظام کی خوفناک اور بد ترین شکل کشمیریوں کے مقدر میں لکھ دی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ کشمیر ایک مسلمان اکثریتی ریاست ہے ،پہلے تو انگریزوں نے اسے سستے داموں ایک ہندو مہاراجہ کے ہاتھوں فروخت کردیا پھر بھارت نے اسے خصوصی حیثیت دے کر دبوچنے کی کوشش کی۔ بھارت کا یہ دعویٰ سراسر جھوٹ اور بے بنیاد ہے کہ مہاراجہ کشمیر نے الحاق کی کسی دستاویز پر دستخط کیے۔ یہ دستاویز نہ بھارت کے سرکاری ریکارڈ میں موجود ہیں نہ اسے یو این او میں پیش کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جھوٹ کا ایک پلندہ ہے جس کی بے ساکھیوں کا سہارا لے کر بھارت نے کشمیر میں کٹھ پتلی حکومتیں بنائیں، لیکن وہ سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کو بھول گیا جن میں کہا گیا تھا کہ کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ایک آزادانہ،غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے کیا جائے گا۔ بھارت نے یہ قراردادیں پس پشت دھکیل دیں اور کشمیر پر جارحانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اپنی فوج میں مسلسل اضافہ کیا ۔آج کشمیر کی چھوٹی سی وادی میں نو لاکھ بھارتی فوج سنگینیں تانے کھڑی ہے اور وہ ہرسُو کشمیریوں کو کرفیو کی پابندیوں میں جکڑ چکی ہے۔ پانچ اگست دو ہزار انیس کو مودی کی آر ایس ایس سرکار نے آئینی جارحیت کی اور وادی کشمیر میں کرفیو نافذ کرکے لوگوں کا گھر سے باہر نکلنا محال کردیا ۔دنیا تک ان کی رسائی وائی فائی موبائل سروس اور ٹیلیفون بند کرکے ختم کردی گئی ہے۔ اب وادی کشمیر کے لوگوں کی چیخیں بھی کسی کو سنائی نہیں دیتیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے پانچ اگست کے فاشسٹ اقدام کے بعد ستمبر میں جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تو انہوں نے دنیا کو خبر دار کیا کہ کشمیر ایک وسیع جیل خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے اور کنٹرول لائن پر ہر وقت بھارتی جارحیت کا مظاہرہ کیا جاتا۔ بھارت سرجیکل سٹرائیکوں کی دھمکیاں دیتا ہے۔ پاکستان بھارت کے مقابلے میں بہت چھوٹا ملک ہے اس لیے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ہندوتوا کے علم بردار کے گھٹنوں میں سرنڈر کر دیں ہمیں جواب میں لڑنا پڑے گا۔ اپنا دفاع کرنا پڑے گا اور دنیا جان لے کہ جب دو ایٹمی قوتیں آپس میں ٹکرائیں گی تو پھر تباہی کا دائرہ خطے کی حدود سے باہر تک پھیل جائے گا۔
پاکستان نے حال ہی میں آزاد کشمیر میں الیکشن کروائے ہیں۔کشمیریوں کی بد نصیبی ہے کہ دو سابق حکمران جماعتوں نے انتخابی مہموں میں ان کے رنج و علم پر افسوس کا اظہار نہیں کیا اور وہ عمران خان کو لتاڑنے میں مصروف رہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان وادی کشمیر میں گئے تو انہوں نے ثابت کیا کہ آزاد کشمیر کا الیکشن مقبوضہ وادی کے لیے ایک امید ثابت ہوگا اور کوئی وجہ نہیں کہ بھارت اس دبائو کوبرداشت کر سکے اور زیادہ دیر تک ظلم و جبر کا سلسلہ جاری رکھے۔ اسے بہت جلد کشمیر کو آزاد کرنا ہوگا اور کشمیریوں کو ایک استصواب کے ذریعے حق دینا ہوگا کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ شمولیت کا اختیار کریں۔ دنیا بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ تقسیم ہند اور تین جون کے اعلان آزادی کی روح سے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا چاہئے تھا کیونکہ ایک تو یہ ریاست جغرافیائی طور پر پاکستان سے ملحق ہے۔ دوسرے یہاں مسلم آبادی کی اکثریت ہے اسی اصول کے تحت بھارت نے ساڑھے پانچ سو سے زائد ریاستوں کو اپنے اندر شامل کیا، لیکن ریڈ کلف ایوارڈ کی بے ایمانی اور بد دیانتی کی وجہ سے گورداسپور اور پٹھان کوٹ کا علاقہ بھارت میں شامل کردیا گیا جس کی وجہ سے بھارت کو کشمیر میں فوجی جارحیت کرنے کے لیے راستہ مل گیا۔کشمیری حریت پسندوں نے بھارت کے خلاف مزاحمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن بھارت نے شکست سے بوکھلا کر سلامتی کونسل سے سیز فائر کی بھیک مانگ لی۔ اسی سیز فائر کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی طاقت کے بل بوتے پر پنجے گاڑ دیئے اور اس نے ڈریکولا کی طرح کشمیریوں کی شاہ رگ سے خون پینا شرو ع کردیا۔ عالمی اداروں نے بھارتی جارحیت پر آنکھیں بند رکھیں اور یوں کشمیر کا مقدر خراب تر ہوتا چلا گیا۔
پانچ اگست ایک بار پھر قریب آرہی ہے ہم پانچ اگست کا ماتم کریں جب فاشسٹ مودی نے کشمیر میں آئینی جارحیت کا آغاز کیا یا 17 اگست انیس سو سنتالیس کا‘ جب بھارت نے کشمیر میں فوجی جارحیت کا آغاز کیا۔کشمیر کو بھارت مستقل طور پر غلامی زنجیروں میں جکڑ کر نہیں رکھ سکتا۔ اس نے مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت کو بھی برسوں سے قیدوبند میں ڈالا ہواہے اور 5 اگست کے بعد سے کشمیریوں کی کٹھ پتلی قیادت بھی نظر بندیوں کا شکار ہے۔ چند ہفتے قبل بھارت نے کشمیر کی ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جس میں مودی نے کہا کہ دلی اور دل کی دوری دور کریں گے، لیکن مودی جیسا دہشت پا لیڈر منافقت سے کام لے رہا ہے۔ وہ کشمیری قیادت کو تقسیم کرنا چاہتا ہے، لیکن آل پارٹیز کانفرنس میں اس کے یہ سارے ارادے خاک میں مل گئے۔ اسی لیے پاکستان نے یہ اصرار بڑھا دیا ہے کہ بھارت پانچ اگست کے جنونی اقدامات کا خاتمہ کرے اور سلامتی کونسل کی جن قراردادوں کو اس نے ردی کی ٹوکری میں پھینک رکھا ہے، ان پر توجہ دے اور کشمیریوں کو ایک استصواب کے ذریعے اپنی تقدیر نئے سرے سے لکھنے کا موقع دے۔ ظاہر ہے کشمیری ایک لمحے کیلئے بھارت کی بالادستی کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ وادی کشمیر کی فضائیں ،کشمیر بنے گا پاکستان کے نعروں سے گونجتی ہیں۔ بھارت ہر روز کشمیری نوجوانوں کو غائب کرتا ہے اور انہیں دہشت گردی کا نشانہ بناتا ہے، لیکن بھارت کا بچہ بچہ دلی سرکار کے غیرآئینی غیر قانونی قبضے کو مسترد کر چکا ہے۔ وہ صبح جلد طلوع ہوگی جب کشمیر آزاد ہوگا اور کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ ایک سچی حقیقت بن کر ابھرے گا۔
٭…٭…٭