بدھ ‘7 ؍ ذوالحج 1441 ھ‘ 29؍جولائی 2020ء
دو روز کی بارش کے بعد کراچی پانی میں ڈوب گیا‘ شہر میں کشتیاں چلنے لگیں
کراچی والوں نے بھی عجب قسمت پائی ہے۔ کبھی تو بوند بوند بارش کو ترستے ہیں۔ کبھی جل تھل ایک ہو جاتا ہے اور بارش کراچی والوں کو ڈبو دیتی ہے۔ کتنی عجب بات ہے۔ سمندر کے کنارے پر آباد یہ شہر پانی کی قلت کا شکار رہتا ہے۔ یہ شہر بارش کے بعد اس شعر کی مثال بن جاتا ہے۔
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہی ڈوبا ہوا پایا گیا ہے
بارش سے قبل شہری کین اٹھائے کوچہ کوچہ بکو پانی ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ بارش کے بعد اب پانی سے بچاؤ کے لیے جائے پناہ تلاش کر رہے ہیں۔ گذشتہ دو روز سے ابر کرم کچھ اس طرح برس رہا ہے کہ سڑکیں ندی نالوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے ریسکیو والے اپنی کوچوں میں جہاں ہمہ وقت دھول اڑتی رہتی تھی اب کشتیاں چلا رہے ہیں۔ سیلاب سے زیادہ متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو نکال رہے ہیں۔ نکاسی آپ کے نظام کی مکمل ناکامی سے لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ انہوں نے نالوں کی صفائی پر سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے پی ٹی آئی کی عالمگیر خان بھی بڑے متحرک ہوا کرتے تھے اب وہ بھی لگتا ہے جی چھوڑ بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں آصفہ زرداری کا یہ ٹویٹ تو نشتر بن کر کراچی والوں کے دلوں کو چھید رہا ہے کہ ’’جب بارش ہوتی ہے تب پانی آتا ہے‘‘ انہوں نے نکاسی آب کے فوری اقدامات پر حکومت سندھ کو مبارک دی ہے اس پر تو انہی کے ٹویٹ کی طرمز پر بے اختیار…؎
گھوڑے جیسی چال ہاتھی جیسی دم
بولو میرے یار کہاں سے آئے تم
ہونٹوں پر مچلتے ہوئے حکومت سندھ کی کارکردگی بیان کرنے لگتا ہے۔ یہی بات کراچی بلدیہ والوں پر بھی فٹ بیٹھتی ہے۔
٭…٭…٭
ہاکی فیڈریشن نے کرونا کی رقم کھلاڑیوں میں تقسیم کر دی
اب یہ تو ہاکی انتظامیہ جانتی ہو گی یا اوپر والا کہ یہ رقم ان کھلاڑیوں میں تقسیم کرنا جائز ہے یا نہیں۔’’کیا فرماتے ہیں ہاکی فیڈریشن والے بیچ اس مسئلہ کہ عرصہ ہوا ہاکی فیڈریشن کا حقہ پانی بند ہے۔ نہ فنڈز ملتے ہیں نہ امداد۔ آخر کھلاڑیوں کو بھی تو کچھ نہ دینا ہوتا ہے۔ تنخواہ نہیں ملے گی۔ تو کھلاڑی کرے گا کیا۔ کہاں سے کمائے گا کہاں سے کھائے گا۔ ہمارے بڑے بڑے قومی کھلاڑی جن کا تعلق مختلف کھیلوں سے (کرکٹ والوں کی بات نہیں کرتے) کوئی موچی کا کام کر رہا ہے۔ کوئی تندور پر روٹیاں لگا رہا ہے۔ کوئی رکشہ چلا رہا ہے کوئی بوریاں اٹھا رہا ہے۔ یہ سب کچھ اس دور میں ہو رہا ہے۔ جب ملک پر ایک اچھے کھلاڑی ایک اچھے کپتان کی حکومت ہے ان کے دور میں بھی مختلف کھیلوں کے اچھے اچھے کھلاڑی رل رہے ہیں۔ بار بار اپیلوں کے باوجود ان کی کوئی نہیں سن رہا اور وہ بے چارے بزباں حال…؎
تیرے درتے آکے سجناوے
اسیں جھولی خالی لے چلے
اب ہاکی فیڈر والوں نے اچھا کیا کہ کرونا کے لیے مختص فنڈ یا رقم کھلاڑیوں میں تقسیم کر دی۔ اس طرح چلو ان کی کم از کم عید ہی اچھی گزرے گی۔ اسی بے رخی کی پالیسی کی وجہ سے آج پاکستان کا قومی کھیل ملکی اور عالمی سطح پر زوال کی انتہا پر پہنچ چکا ہے اور کوئی اسے تباہ و برباد ہونے سے بچانے والا سامنے نہیں آ رہا اور نوبت اس جگہ تک آ گئی ہے۔
٭…٭…٭
پاکستانی تاریخ میں پہلی بار سونے کا ریٹ سوا لاکھ کو چھونے لگا
پہلے مثال مشہور تھی زندہ ہاتھی لاکھ کا اور مردہ سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ اب تو سونا زندہ حالت میں یا مردہ دونوں صورتوں میں سوا لاکھ کی حد بھی پار کرنے لگا ہے۔ عام آدمی کی تو ہمت ہی نہیں پڑتی کہ وہ غلطی سے یا بھولے سے بھی سونے کی دکان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے سونے کی چمک دمک جو ہر دل کی بھاتی ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کا جنہیں حرف عام میں عوام کہتے ہیں کا دل جلاتی ہے۔ پہلے شادی بیاہ میں بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کے ارمان میں قرض لے کر غریب لوگ ایک دو تولے سونے کے زیور بنا کر بیٹیوں کو دیتے تھے۔ اب یہ سکت بھی ان میں نہیں رہ وہ حسرت و یاس کی تصویر بنے کبھی لڑکی کی عمر کو کبھی سونے کے ریٹ کو دیکھتے ہیں جو دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ نجانے کیوں سونا بھی آٹا چینی اور زمین مافیاز کی طرح گولڈ مافیا ہتھے چڑھ چکا ہے اور عوام کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ اب حکومت اس بارے میں کوئی ٹھوس کام کرے۔ کوئی ایسی پالیسی بنائے کہ گولڈ مافیا کو لگا ڈالی جا سکے۔ یا پھر ملک بھر میں شادی بیاہ کے موقع پر سونے کے زیورات کے استعمال پر جہیز پر پابندی لگا دے۔ ممکن ہو تو کرونا دور کی طرح ملک بھر میں صرف درجن بھر افراد سادگی سے مسجد میں نکاح کے بعد لڑکی کو رخصت کریں اور دولہا بھی سادگی سے ولیمہ دے۔ ورنہ آج بھی لڑکے والے منہ کھولے سونے کے زیورات سے لدی دلہن کی آس لگائے رہتے ہیں۔ ایسے لالچی سسرال والوں کی گوشمالی بے حد ضروری ہے۔
٭…٭…٭
کرونا میں اچھی خبر، پنجاب میں 24گھنٹوں میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی
شکر ہے اللہ کا کہ اہل پنجاب کو کرونا کے عذاب والے دنوں میں کچھ ریلیف تو ملا ورنہ سچ کہیں تو جنازے اٹھاتے اٹھاتے لوگوں کی ہمت جواب دینے لگی تھی۔ اب تو اس منحوس وباء میں مردے کی تدفین کے اطوار بھی بدل گئے تھے۔ لوگ مرنے والے کا دیدار کرنے اور اس کے جنازے کو کندھا دینے سے بھی کتراتے ہیں۔ تعزیت کیلئے کسی قریبی عزیز کے گھر جانا بھی ناممکن ہوگیا ہے۔ لوگ اپنی جان بچانے کی فکر میںرہتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں کرونا کے ہاتھوں مرنے والوں اور ملک بھر میں مرنے والی تعداد دیکھ کر تو سچ مچ لوگ حوصلہ ہار بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس وباء نے خوب اودھم مچا رکھا ہے، ہزاروں جانیں اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ آئے روز درجنوں افراد چشم زدن میں بستر سے قبرستان کا سفر طے کرتے ہیں۔ حکومت کی سمارٹ لاک ڈائون پالیسی پر عمل نہ کرنے کے باوجود اگر گزشتہ روز پنجاب میں کوئی موت نہیں ہوئی تو یہ اللہ کی رحمت ہے۔ لوگ تو پوری طرح کوشش کرتے پھرتے ہیں، کہیں نہ کہیں کرونا سے آنکھیں دوچار رہیں۔ اس لئے پابندیوں پر عمل نہیں کرتے اگر قدرت نے انہیں ایک موقع دیا ہے تو ہمیں غافل نہیں ہونا چاہئے بلکہ احتیاطی و حفاظتی تدابیر پر مکمل عمل کرنا ہوگا ورنہ مکمل لاک ڈائون میں توسیع بھی ہوسکتی ہے، اس لئے پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ احتیاط لازم ہے۔