دنیا میں پیدا ہونیوالی کرونا کی نئی لہر ہم سے مکمل احتیاط کی متقاضی ہے
وزیراعظم عمران خان کی عوام سے عیدالاضحی اور محرم کے دوران احتیاط کی اپیل اور پنجاب میں لاک ڈائون
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام نے عیدالاضحی اور محرم الحرام کے دوران احتیاط کرلی تو اسکے بعد زندگی آسان ہو جائیگی اور ہمیں سیاحت اور ریسٹورنٹس کھولنے کی اجازت دینے کا موقع ملے گا جبکہ اچھے نتائج کی بنیاد پر ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی ادارے بھی کھول دیئے جائینگے۔ گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ عیدالاضحی اور محرم میں احتیاط نہ کی گئی تو کرونا کیسز میں اضافہ ہو جائیگا۔ اس وقت ہسپتالوں پر دبائو میں کمی آگئی ہے اور تین ماہ کے دوران گزشتہ روز کرونا سے سب سے کم اموات ہوئی ہیں۔ آگے بھی چیلنجز ہیں اس لئے ہمیں احتیاط کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کرونا سے نمٹنے کیلئے ہماری حکمت عملی چین اور یورپ سے بالکل مختلف تھی۔ ہم دنیا کی پہلی حکومت ہیں جس نے سمارٹ لاک ڈائون کی بات کی اور اس سے مثبت نتائج بھی حاصل ہوئے۔ انکے بقول پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کرونا وبا پر قابو پایا جارہا ہے۔ دنیا آج مان رہی ہے کہ پوری طرح لاک ڈائون ناممکن ہے۔ ہم نے سمارٹ لاک ڈائون لگایا اور زراعت پر پابندی نہیں لگائی تاکہ فوڈ سپلائی نہ رکے اور تعمیرات کا شعبہ کھولا تاکہ مزدوروں کو کام ملے۔ ہم نے خطرہ لے کر فیصلہ کیا کہ لوگوں کو بھوک سے بچانا ہے۔ کرونا وائرس کو دنیا بھی سمجھ رہی ہے‘ ابھی ویکسین بھی نہیں آئی۔ اگر ہم نے عیدالاضحی پر احتیاط نہ کی تو یہاں کرونا کیسز پھر اوپر جا سکتے ہیں اور پھر لاک ڈائون لگانا پڑ سکتا ہے جس سے معیشت پر اثر پڑیگا۔
یہ امر واقع ہے کہ لاکھوں انسانی ہلاکتوں اور بھوک و کساد بازاری کا باعث بننے والے کرونا وائرس سے آج پوری دنیا نبردآزما ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونیوالے کرونا وائرس نے پھیلتے پھیلتے برصغیر‘ جنوبی ایشیائ‘ سنٹرل ایشیائ‘ مشرق وسطیٰ‘ مشرق بعید اور یورپ سمیت دنیا کے ہر خطہ کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا جس کی تباہ کاریاں آج بھی جاری ہیں۔ کرونا وائرس کے آٹھ ماہ کے دوران دو کروڑ سے زائد انسان اسکی لپیٹ میں آئے ہیں جس سے ہلاک ہونیوالوں کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ اس وائرس کے سدباب کیلئے لاک ڈائون جیسے اقدامات اٹھاتے ہوئے ترقی یافتہ اور مستحکم معیشتوں والے ممالک بھی اپنی صنعت و معیشت کو نہیں سنبھال پائے اور اسکے نتیجہ میں پیدا ہونیوالی بے روزگاری‘ غربت اور کساد بازاری نے نئے انسانی المیوں کو جنم دیا ہے۔ اس وقت بھی دنیا کو سنبھلتے سنبھلتے کرونا کی نئی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور امریکہ‘ بیلجیم‘ چین‘ بھارت میں کرونا کے کیسز بڑھنے لگے ہیں۔ امریکی مشیر قومی سلامتی بھی کرونا کی لپیٹ میں آگئے ہیں چنانچہ کرونا سے متاثر ہونیوالی دنیا اب دوبارہ لاک ڈائون کی طرف جارہی ہے۔
پاکستان میں اگرچہ کرونا کے مریضوں میں بتدریج کمی ہوئی ہے جس کی گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے بھی نشاندہی کی ہے تاہم مارچ سے اب تک یہاں کوئی تین لاکھ کے قریب افراد کرونا کی لپیٹ میں آئے ہیں اور مجموعی ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہزار 9 سو تک پہنچ گئی ہے۔ بے شک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی بہتر حکمت عملی کے نتیجہ میں دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں کرونا وائرس کا پھیلائو کم رہا ہے تاہم عیدالفطر کے موقع پر عوام کی جانب سے ہونیوالی بے احتیاطی نے حکومت کی ساری حکمت عملی پر پانی پھیر دیا اور ملک کو یکدم کرونا کے پھیلائو کی جانب دھکیل دیا۔ اس بے احتیاطی کے نتیجہ میں کرونا مریضوں کی تعداد بتدریج بڑھی اور ملک کے ہسپتالوں میں کرونا مریضوں کے علاج معالجہ کی گنجائش ہی ختم ہو گئی نتیجتاً ہلاکتیں بھی بتدریج بڑھنے لگیں اور کرونا کی لپیٹ میں آنیوالے ہم نے اپنے کئی قیمتی ہیرے کھو دیئے۔
بے شک ہم مکمل لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہماری معیشت ترقی یافتہ ممالک جیسی مستحکم نہیں ہے جبکہ یہاں بے روزگاری کا عفریت پہلے ہی پھن پھیلائے بیٹھا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں لاک ڈائون کے عرصہ میں کاروبار زندگی بند ہونے کے باعث پہلے سے بھی زیادہ بے روزگاری اور بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے کرونا متاثرین اور بے روزگاروں کی کفالت کیلئے مختلف ریلیف پیکیجز کے ذریعے مقدور بھر کوشش کی گئی اور بیرونی امداد بھی ریلیف کے کاموں پر بروئے کار لائی گئی تاہم کساد بازاری کا شکار ہونیوالی ہماری معیشت اب تک اس قابل نہیں ہو پائی کہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع نکال پائے۔ معیشت کا پہیہ چلتا رہے گا تو حالات بہتر ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کیلئے مکمل لاک ڈائون کے بجائے سمارٹ لاک ڈائون ہی بہترین حکمت عملی ہے جس کے تحت کرونا سے متاثرہ علاقوں میں سخت اقدامات اٹھا کر کرونا کا پھیلائو روکا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے بالخصوص عیدالاضحی اور محرم الحرام کے دوران ایس اوپیز پر سختی سے عملدرآمد کرانا اور مزید احتیاطی اقدامات اٹھانا زیادہ ضروری ہے جس کیلئے وزیراعظم عمران خان نے تلقین کی ہے اور اسی کی بنیاد پر پنجاب میں 28 جولائی سے پانچ اگست تک لاک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا تاکہ عیدالفطر کے موقع پر ہونیوالی بے احتیاطی کا کرونا کے پھیلائو کی صورت میں جو خمیازہ بھگتنا پڑا‘ اب اسکی نوبت نہ آنے پائے۔ اگرچہ تاجر برادری کو پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ قابل قبول نہیں اور وہ احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے کاروبار جاری رکھنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اگر ان کا کاروبار جاری رکھنے کا تقاضا من و عن منظور کرلیا جائے تو پھر عیدالاضحی کے موقع پر بھی عوام ایس او پیز کی پابندیاں ویسے ہی ہوا میں اڑاتے نظر آئینگے جیسے عیدالفطر کے موقع پر ایس او پیز کی خلاف ورزی کھیل تماشا بنائے رکھا تھا۔ یقیناً اب ہم ایسی بے احتیاطی کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ دنیا اس وقت دوبارہ کرونا وائرس کی لپیٹ میں آرہی ہے۔ ہمیں بہرصورت ایس او پیز کی پابندی اور پاسداری کرنی ہے بصورت دیگر حکومت کو مجبوراً مکمل لاک ڈائون کی جانب جانا پڑیگا۔ یقیناً آج کی احتیاط ہمیں صدیوں کی سزا سے بچا سکتی ہے۔ تاجر برادری کو یہ حقائق پیش نظر رکھ کر لاک ڈائون کے حوالے سے حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے کیونکہ زندگی محفوظ ہوگی تو کاروبار زندگی بھی چل پائے گا۔