بنگلہ دیش سے سفارتی تعلقات میں اہم پیشرفت
3 برس کے تعطل کے بعد ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمیشن مکمل فعال ہو گیا۔ ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمیشن فعال ہونا پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات بحالی میں اہم پیش رفت ہے۔
مودی سرکار کی حماقت، رعونت، جارحانہ رویوں، توسیع پسندانہ عزائم اور خطے کے ممالک کو مطیع بنانے کی چالوں کے باعث خطے میں تعلقات کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ امریکہ کی تھپکی پر اس نے چین کو آنکھیں دکھانا شروع کیں، چین کے سخت جواب پر بھارت بھیگی بلی بن گیا اُدھر امریکہ کو کرونا اور صدارتی انتخابات سر پر آنے کے باعث اپنی پڑی ہوئی ہے۔ وہ مودی حکومت کی مدد کے لیے تیار نہیں ہے۔ چین کے سامنے بھارت کی درگت بننے سے نیپال بھوٹان اور بنگلہ دیش بھی بھارت سے متنازعہ علاقے واگزار کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے لیے سازشیں اور جارحیت کی جس کے باعث شیخ مجیب الرحمن کے حامی جب بھی حکومت میں آئے بھارت کے قدموں میں لوٹتے رہے جنہیں بھارت نے حقارت کی نظر سے دیکھا تو رومانس ختم ہونا ہی تھا جو اب ختم ہو رہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بنگلہ دیش کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، بھارت کے ایما پر بنگلہ دیشی قیادت خصوصی طور پر حسینہ واجد نے اسے جھٹکنے کو معمول بنا لیا۔تاہم اب ان کے رویے میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں وزیراعظم حسینہ واجد سے فون پر بات کی جس سے تعلقات میں بحالی میں پیشرفت ہوئی۔اسلام آباد اور ڈھاکہ کے درمیان سفارتی کشیدگی کم کرانے میں چین کا اہم کردار ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات میں بہتری سے بھارت کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم نے بھارتی ہائی کمشنر کی کئی درخواستوں کے باوجود ملنے سے انکار کر دیا۔ بھارت کو اب تنہائی کا سامنا ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش تعلقات میں بہتری کو خطے کے امن کے لیے نمایاں پیشرفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔