عمران خان سے پہلے کسی وزیر اعظم نے امریکی سیاست میں جلسہ متعارف کرایا نہ یہ کہا ’’امریکہ کے سامنے جھکوں گا نہ قوم کو جھکنے دوں گا‘‘ واشنگٹن کے کیپیٹل ون ایرنا میں وزیر اعظم عمران خان کا خطاب سننے کیلئے پاکستانیوں کا جم غفیر امریکی تاریخ میں تادیر یاد رکھا جائے گا۔ سمندر پار پاکستانی صرف زرمبادلہ بھیجنے والی مشین نہیں بلکہ ملکی سیاست کی ایک مئوثر آواز بھی ہیں۔ بیرون ملک پاکستانی عمران خان کو پاکستان کیلئے اُمید کے طور پر دیکھتے ہیں۔ امریکی دورہ کی اچھی خبر مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش ہے۔ عمران خان نے امریکہ میں بھی اس عزم کو دہرایا۔ دنیا اِدھر سے اُدھر ہو جائے این آر او نہیں دوں گا۔ ہم نے کیس نہیں بنائے صرف نیب اور ایف آئی اے کو آزاد کیا۔ بھارت ہر بات پر یوٹرن لینے یعنی مکرنے کا عادی ہے۔ اس نے اس خبر کو جھٹلا دیا کہ مودی نے ٹرمپ کو کشمیر پر ثالثی کی درخواست کی تھی۔ عمران خان نے خود داری کا ثبوت دیتے ہوئے اعلان کیا۔ امریکی امداد نہیں چاہئے۔ ایوبی دور میں امریکہ پاکستانیوں پر ترس کھا کر غریب نوازی کے طور پر اپنی گھٹیا گندم بھیجا کرتا تھا اس کے بعد امریکیوں کی اترن آنا شروع ہوئی جس نے لنڈا بازار کی شکل اختیار کر لی۔ غریب پاکستانی آج بھی امریکیوں کے استعمال شدہ گارمنٹس ، انڈر گارمنٹس حتیٰ کہ جوتے تک ریڑھیوں والوں سے خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ عمران خان کو امداد مانگنے سے نفرت ہے۔ آپ بھکاری بن جاتے ہیں ۔ پرانی حکومتیں غلامی کر رہی تھیں وہ برابری کی سطح پر دوستی کے خواہشمند ہیں۔ امریکہ نے پہلی بار اپنی گومگو پالیسی ترک کر کے مقبوضہ کشمیر میں بدامنی کا باضابطہ نوٹس لیا ہے۔ ٹرمپ نے تسلیم کیا پاکستان کبھی جھوٹ نہیں بولتا ، وہ افغانستان میں ہماری مدد کر رہا ہے۔ امریکی صدر نے عمران خان کو پاکستان کا مقبول ترین وزیر اعظم قرار دیا اور کہا کہ اب پاکستان کیلئے امریکی امداد بحال ہو سکتی ہے۔ دہشتگردی اور د ہشتگردی نے ہماری سرتوڑ کوششوں کے باوجود ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس چوکی پر نوجوان لڑکی کا خودکش حملہ حالیہ واقع ہے۔ اس بلائے ناگہانی کے خاتمے کیلئے کوئی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں کہ گھر کے بھیدی ہی لنکا ڈھا رہے ہیں۔ دہشت گردی کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ پاکستان امن کا گہوارہ نہ بن سکے۔ خوف کے بادل اس پر منڈلاتے ہیں۔ترقی کے لیے کوششوں پر پانی پھرتا رہے ایک قدم آگے بڑھائے تو دو قدم پیچھے آ جائے۔ ہمارے وجود کی دشمن تنظیموں میں طالبان اور القاعدہ سے بھی بُری اور خوفناک داعش ہے۔ 2014ء میں پاکستان میں داعش کی موجودگی کی خبر سامنے آئی تھی۔ اب تک تو اس نے اپنی جگہ بنا لی ہو گی۔ عدالتوں میں جھوٹے گواہوں کی طرح سہولت کار بھی میسر آ گئے ہونگے۔ پاکستان میں د ہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ سابق فاٹا میں بلٹ سے بیلٹ تک کا سفر کامیابی سے طے ہوا ہے۔ 6 آزاد 5 حکومت ، 5 اپوزیشن امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے آزاد ارکان بھی ان کے ہیں۔ 20 جولائی قبائلی علاقوں کیلئے تاریخی دن تھا جب بڑی تعداد میں خواتین بھی ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلیں۔ اس سے قبل ان علاقوں میں عورتوں کے حوالے سے نہایت تاریک اور مایوس کن صورتحال تھی۔ انتخابی نتائج نے سیاسی جماعتوں کے منفی بیانیے کو یکسر مسترد کر دیا ہے جو وزیر اعظم عمران خان کو ’’سلیکٹڈ ‘‘ کہتے ہیں۔
ایمنسٹی اسکیم کو چھوڑ کر باقی جتنے اقدامات کئے گئے ہیں انہوں نے تاجروں، صنعت کاروں اور عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ ایک ہی جست میں دستاویزی معیشت کو دستاویزی معیشت بنانا آسان نہیں۔ تاہم اب لوگوں کے لیے اپنے اثاثے، اکائونٹس اور انکم چھپانا نہایت مشکل ہو جائے گا۔ بے نامی جائیدادوں اور اکائونٹس کو باقاعدہ بنانے کے لیے ایمنسٹی سکیم کا اعلان ہوا تھا۔ ایف بی آر نے اس سال ریونیو وصولی کا ہدف 5550 ارب روپے رکھا ہے جو ایک بہت بڑا ہدف ہے جسے ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لائے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ایمنسٹی سے ایک لاکھ 37 ہزار لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور 3832 ارب روپے کے اثاثے ظاہر کئے۔ جس سے حکومت کو ریونیو کی مد میں 70 ارب روپے حاصل ہوئے۔ ایمنسٹی سے فائدہ اٹھانے والوں میں کراچی سرِفہرست رہا۔ ایف بی آر نے تاجروں کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔ چھوٹے تاجروں کو آسان فکسڈ ٹیکس سسٹم میں لایا جائے گا۔ چھاپے نہ مارنے سے متعلق ڈائریکٹو جاری ہو گئی ہے۔ پاکستان نے صرف ایک سال میں 16 ارب ڈالر اُدھار لیے ہیں۔ ہمارے معاشی مسائل کوئی جادوئی چھڑی گھمانے سے حل نہیں کئے جا سکتے۔ ہم قومی اتفاق رائے محروم ہیں۔ ٹیکس نہ دینے والوں سے ٹیکس لیا جائے اور ٹیکس دینے والوں سے اضافی ٹیکس نہ لیا جائے۔ جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ صرف 18 فیصد ہے جس سے ملک غیر صنعتی ہو رہا ہے۔ ساری زندگی یہی دیکھا کہ درآمدات کی قدر بڑھتی گئی اور برآمدات کی قدر گھٹتی گئی۔ ملک میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کی خواہش ملک کو دولخت کرنے کے ذمہ دار جنرل یحییٰ کے دل نے بھی ٹیکس نیٹ کی وسعت کے لیے انگڑائی لی۔ 1976ء میں پھانسی دیئے گئے ذوالفقار علی بھٹو نے بھی نیٹ بڑھانے کی کوشش کی۔ یہی خواہش 1986ء میں طیارہ حادثہ میں اللہ کو پیارے ہونے والی جنرل ضیاء الحق کے دل میں پیدا ہوئی۔
1997ء میں تین بار وزیر اعظم رہ کر آخری زندگی پابند سلاسل رہ کر گزارنے والے نواز شریف نے بھی ٹیکس نیٹ بڑھانے کی کوشش کی۔ یہی کوشش 1999ء میں جمہوریت پر شب خون مارنے والے جنرل پرویز مشرف نے بھی ایسی ہی کوشش کی۔ صدر زرداری نے جو آجکل سرکار کے قیدی ہیں اپنے دور بادشاہی میں کرپشن کیساتھ ٹیکس نیٹ کو بھی بڑھانے کی کوشش کی۔ مذکورہ سارے اصحاب سیاسی طور پر مختار کل ہو کر بھی ناکام شکاری ثابت ہوئے۔ ٹیکس نادہندگان پہلے بھی تھے۔ آج بھی ہیں کل بھی رہیں گے۔ 101 ملین عورتوں میں سے 77 ملین گھر کی چاردیواری تک محدود ہیں یا اپنی گلیوں میں ہمسائی عورتوں سے گپ شپ میں وقت گزارتی ہیں۔ 60.10 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رو دھو کر زندگی کو دھکا دے رہی ہے۔ 64 فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ بجٹ کا خسارہ 3200 ارب روپے ہے۔ حکومت کے اپنے اخراجات 7.2 کھرب روپے سالانہ ہیں۔ 1.1 کھرب تو خسارے کا شکار سرکاری ادارے ڈھٹائی سے سالانہ کھا رہے ہیں۔ نج کاری کے ج ال میں پھنستے ہی نہیں گردشی قرضہ 1.7 کھرب روپے ہے۔ دو ارب ڈالر کی تو سالانہ گیس چوری ہوتی ہے۔ 10 سال میں حکومت کے جاری اخراجات 500 فیصد بڑھے ہیں۔ وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں اور چند گاڑیاں بیچنے سے عوام کا کتنا بھلا ہوا ہے؟ عمران خان کا دورۂ امریکہ گیم چینجر بنے گا۔ شہباز مریم نون لیگ کے س یاسی مستقبل کے لیے سرگرم ہیں، کراچی میں پانی کی قلت اور لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہو سکی۔ احتجاج در احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ پرامن انتخابات کے بعد قبائلی عوام کو نمائندگی کا حق مل گیا۔ جنوبی پنجاب کی تنظیم سازی میں پی ٹی آئی جہانگیر ترین گروپ چھا گیا ہے۔ پشاور ایک بار پھر سیاسی تحریک کا مرکز بنا ہوا ہے۔ بلوچستان میں سیاسی مورچہ بندی واضح دکھائی دے رہی ہے۔ گھوٹکی میں پیپلز پارٹی کی فتح سے پی ٹی آئی کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ حکومت بمقابلہ اپوزیشن سیاسی جنگ عروج پر ہے تاہم فیصلہ 5 سال بعد ہی ہونا چاہئے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38