بے باک، سچی وکھری اور بلند پایہ صحافت کی مثال کل اگر ’’نوائے وقت‘‘ گروپ آف پبلیکیشنز اینڈ ’’وقت‘‘ نیوز چینل کا اصل تھی تو آج بھی ایسی ہی بے مثل صحافت مذکورہ گروپ اور چینل کا اصل خاصہ ہے…اس کی وجہ حمید نظامی مرحوم کی وہ نظریاتی بنیاد ہے کہ جسے مجید نظامی مرحوم نے آبیاری دی کہ آج تن آور یہ شجر سایہ دار محترمہ رمیزہ نظامی کی صحافتی سُوجھ بُوجھ اور خوبیوں کی بدولت باعزت اور باوقار اپنی مضبوط جڑوں و بنیادوں پر بخوبی کھڑا ہے…یہ شجرسایہ دار عوامی مقبولیت و حمایت کے سبب نہ تو کل سرخ و تیز آندھیوں سے ہلایا جا سکا ہے اور نہ ہی آج کوئی طوفان اسے جُھکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ادارہ نوائے وقت کی پالیسی جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا کل بھی عملی سچ تھا اور آج بھی یہی اس عظیم ادارے کا فخر ہے۔ آبروئے صحافت جناب مجید نظامی کی جانشین محترمہ رمیزہ نظامی نے اس ادارے کو کسی بھی نہج پر آج کی چکاچوند سے متاثر ہو کر اپنی بنیاد سے سرکنے اور جُھکنے سے بچائے رکھا۔ الحمد اللہ۔ ابھی 26 جولائی کو ملک کے طول و عرض میں بالعموم اورجہاں جہاں ملک بھر میں جناب مجید نظامی محروم کے پرستار بیٹھے ہیں وہاں وہاں جناب مجید نظامی مرحوم کی چوتھی برسی نہایت عقیدت سے منائی گئی۔ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج برائے خواتین رائیونڈ میں پری ایف اے / ایف ایس سی کلاسز کی طالبات نے کالج میں مجید نظامی کی یاد میں منعقدہ سپوزیم میں جناب مجید نظامی کی حب الوطنی اور نظریاتی صحافت کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ آجکل انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی کا بے حد اہم وقت ہے اور ملک ا یک ایسے موڑ پہ رہے کہ جہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اندرونی اور بیرونی حالات کے پیشِ نظر وطنِ عزیز کو مزید تجربات کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ بادی النظر میں پی ٹی آئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور دیگر ملک کی بڑی جماعتیں بھی اس وقت جوڑ توڑ کے پروسس میں ہمیں ہرحال میں بہرحال پاکستان، اپنے پیارے وطن کی سالمیت اور بہتری چاہئے۔ 20 کروڑ عوام کی بہبود کا خیال رکھنے کادعویٰ تو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں صاحب نے کر دیا ہے، ریاست مدینہ کی اعلیٰ اسلامی روایات کو زندہ کرنے کا پیغام تو دے دیا ہے ، حکومت میں آ کر تعلیمی، معاشی اور سماجی اصلاحات کا عندیہ تو ہم تک پہنچ گیا ہے، عالمی سطح کے روابط و بین الاقوامی تعلقات کی سمت کا تعین تو ہم نے سمجھ لیا ہے لیکن میری رائے میں تحریک انصاف نے کیمرہ میں جو بھی حال ہی میں بیان کیا خوش آئند ہونے کے ساتھ قبل از وقت تھا گویا سکرین پر جناب عمران خاں صاحب نے اپنی وزارت عظمیٰ کی کرسی کا اعلان اپنی ذمہ داری پر کیا حالانکہ یہ سرکاری سطح پر، سرکاری پروٹوکول اور پارلیمانی طریق کار سے گزرنے کے بعد کیا جاتا تو زیادہ مستند و متاثر کن ہوتا۔ جناب عمران خاں صاحب ایسی بھی کیا جلدی؟ آپ کی بے چینی درست ہے تاہم جناب ایوان بالا کے پارلیمانی دستور انتخاب یعنی شیروانی کی سلائی و دُھلائی تک تو تھوڑا انتظار کیجئے…انتظار مشکل ہی سہی مگر آپ نے تو 22 سال انتظار فرمایا؟ جناب عمران صاحب چلئے ہم آپ کو وطن عزیز کا متوقع وزیراعظم کہہ دیتے ہیں یا پھر یقینی وزیراعظم ہونے کی مبارکباد پیش کر دیتے ہیں لیکن یہ بتاتے چلتے ہیں کہ آپ نے اپنے لئے بے حد مشکل راستہ چُنا ہے۔ بادشاہی پُرکشش خواب ہی سہی کہ جس کی حقیقت نہ کسی کے بس کی بات ہے اور نہ ہی نصیب کی تاہم یہ پھولوں کی سیج بھی نہیں۔ سب کچھ کہا گیا اور سبھی پورا کرنا ہوگا…وزیراعظم عمران خان کبھی تو عمران خاں بنے گا۔ 20 کروڑ عوام کی تقدیر اور خارجی و اندرونی چینلز کا سامنا جناب عالی کرکٹ گیم، نمل یونیورسٹی یا شوکت خانم ہسپتالوں کی تعمیر نہیں۔ آپ کے کام آسان نہیں لیکن جب آپ کو کوئی چلنے نہ دے گا تو آپ کو چلنا ہوگا…خاردار…ہر قدم پہ زخمی، خون آلودہ زخموں سے چُور پاؤں سے چلنا ہی نہیں دوڑنا بھی ہوگا…آپکو اپنی غلطیاں کرنے کی گنجائش نہیں ملے گی جبکہ پہلے ہی سے کی گئی دوسروں کی غلطیاں درست کرنا ہوں گی…کتنا چیلنجنگ ٹاسک ہے جو آپ بخوبی قبول کر رہے ہیں…پھر آپ کو پتہ بھی ہے کہ اپنی جماعتوں میں بھی آستین کے سانپ ہوتے ہیں قومیں بھی احسان فراموش و محسن ناشناس ہوتی ہیں کیا یہ سب سہہ لیں گے آپ؟ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت آپ کے ذہن میں محض چند لیڈرز کا تصور ہے جو کہ تمام برائیوں اور ملک کی پستیوں کے ذمہ دار ہیں…جناب عالیٰ! پوری کی پوری قوم نااہل، ہڈ حرام اور مفاد پرست ہے…کیا کریں گے آپ؟ہڈ حرامی، بے حسی، نااہلی اور کرپشن کا تحفظ اتحاد و اتفاق و باہمی رضا مندی کے ساتھ بڑا مضبوط ہے…آپ نے تبدیلی کا نعرہ دیا ہے…یہ نعرہ معاشی و سیاسی کامیابی سے ہمکنار کیسے ہوگا جب تک تبدیلی تمدن و سماج میں نہیں آئے گی…تمدن و سماج انسانی رویے سے محترم و معتبر ہوتے ہیں اور ہمارے سماج کے تمدنی رویوں کا اخلاقی دیوالیہ نکل چکا ہے اسی لئے تو چند لیڈران ہی کو نہیں میری نظر پوری قوم کو کرپٹ دیکھ رہی ہے کہ لیڈر کی ایمانداری بہت بڑا، بلکہ ہر لمحہ ایک امتحان ہے…آپ کی ٹیم آپ کے ارد گرد، آپ کے ساتھی ہی آپ کو اپنے مفادات کے مطابق چلائیں گے…آپ کیا کریں؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم لیڈرز سے نہیں بنا؟ جناب لیڈرز کو بنانے نہیں دیا گیا؟ لیڈر ایک ہوتا ہے…سیاستدان ہزاروں ہوتے ہیں؟؟؟ لیڈر اپنے اردگرد نظر رکھے تو وہ اکیلا نظر آتا ہے…کہ اسے سب کی خبر ہو جاتی ہے…جب اسے سب کی خبر ہو جائے تو حوصلے، ہمت اور اللہ توکل کی ضرورت ہوتی ہے… جناب عمران خاں صاحب اللہ کرے کہ آپ وزیراعظم ہوں تو کالا باغ ڈیم بنائیے گا، کشمیر کا مسئلہ یو این کی قرار داد کے مطابق حل کروائیے گا…دہشت گردی کو ملک سے ختم کیجئے گا، تعلیمی انقلاب و معاشی استحکام لائیے گا…صرف الیکشنز کی تیاری نہ کیجئے گا…کیونکہ اقتدار کی باریاں سیاستدان لیتے ہیں اور آنے والے الیکشنز کی تیاریاں سیاستدان کرتے ہیں مگر قوم کی تقدیر لیڈرز بدلتے ہیں اور آپ لیڈر ہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024