تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے بعد پیپلزپارٹی کا بھی حکومت کیخلاف عوامی تحریک کا عندیہ…حکومت توانائی بحران کے فوری خاتمہ کیلئے دستیاب قدرتی وسائل بروئے کار لائے
پیپلزپارٹی نے ملک بھر میں جاری بجلی بحران کے خاتمہ کیلئے حکومت کو ایک ماہ کا الٹی میٹم دیتے ہوئے ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ کراچی میں غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کیخلاف کراچی الیکٹرک کے مرکزی دفتر کے باہر احتجاجی دھرنے میں گزشتہ روز پیپلزپارٹی کے صوبائی وزرائ‘ مرکزی رہنمائوں اور کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ ہمارے دور میں ماہ رمضان المبارک کے دوران لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تھی۔ لوڈشیڈنگ کیخلاف پیپلزپارٹی کے کارکن آج پرامن ہیں مگر حکومت نے قبلہ درست نہ کیا تو ہم عوام کو خاموش نہیں کرا سکیں گے اور سندھ کو 15دن کے اندر پانی‘ بجلی اور گیس فراہم نہ کی گئی تو عوام پر سڑکوں پر ہوں گے۔ سندھ کے سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو کے بقول وزیراعظم نوازشریف سندھ کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہے ہیں اور سندھ میں بجلی کی مصنوعی لوڈشیڈنگ کرکے وفاقی حکومت اپنی پرانی آمرانہ روش اختیار کررہی ہے۔ سینیٹررضاربانی نے اس احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے بجلی کی لوڈشیڈنگ پر بار بار جھوٹ بولا ہے جبکہ حکومت نے اپنے اقتدار کا ایک سال پورا ہونے کے باوجود لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور آج سندھ میں 20 گھنٹے سے زائد لوڈشیڈنگ روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئندہ ماہ کے آخر تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ نہ کیا تو پیپلزپارٹی ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع کر دیگی۔
پیپلزپارٹی کا یہ احتجاجی دھرنا اگرچہ کراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں بجلی کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کیخلاف تھا تاہم لوڈشیڈنگ کے گھمبیر مسئلہ سے صرف سندھ کے نہیں بلکہ ملک بھر کے عوام عاجز آچکے ہیں اور اسی تناظر میں پیپلزپارٹی نے حکومت کو الٹی میٹم دے کر ملک بھر میں احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل تحریک انصاف کے عمران خان بھی حکومت کیخلاف 14 اگست کے آزادی مارچ کا اعلان کر چکے ہیں جن کے بقول یہ مارچ صرف ایک دن تک محدود نہیں رہے گا بلکہ عوام کو ریلیف ملنے تک جاری رہے گا۔ اسی طرح پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہرالقادری بھی حکمرانوں کو اپنے مبینہ انقلاب کے ڈراوے دے رہے ہیں اور میڈیا رپورٹس کے مطابق عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری حکومت کیخلاف مشترکہ جدوجہد پر بھی آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہ صورتحال یہی عندیہ دے رہی ہے کہ حکومت کو عیدالفطر کے بعد اپوزیشن کی جانب سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑیگا اور اگر اپوزیشن کی متوقع مشترکہ تحریک جارحانہ انداز اختیار کرتی ہے جس میں تشدد کا عنصر بھی داخل ہو جاتا ہے تو پھر لامحالہ سیاسی کشیدگی اور منافرت کی اس فضا سے ان عناصر کو اپنے عزائم میں تقویت حاصل ہو گی جو جمہوریت پر گند اچھال کر اپنے مقاصد کے حصول کیلئے موقع کی تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں۔
بے شک دہشت گردی کا پھیلتا ناسور بھی ملک کا بڑا مسئلہ ہے جس نے قومی معیشت کا انجرپنجر ہلا دیا ہے تاہم شمالی وزیرستان میں جاری افواج پاکستان کے اپریشن ضربِ عضب کی اب تک کی کامیابیوں سے قوم کو دہشت گردی کے ناسور سے خلاصی ملنے کی توقع بندھ گئی ہے جبکہ اس وقت توانائی کا بحران ہی وہ سنگین مسئلہ ہے جو عوام کو حکومتی پالیسیوں اور اسکی کارکردگی سے مایوس کررہا ہے اور لوڈشیڈنگ کی اذیت ہی عوام کو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر آنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں اپوزیشن کا مضطرب عوام کے مشتعل جذبات سے فائدہ اٹھا کر حکومت مخالف تحریک کی فضا بنانا فطری امر ہو گا۔ اگر حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے میں سنجیدہ نہیں ہوتی تو وہ اپنے خلاف اپوزیشن کی عوامی تحریک کی خود ہی راہ ہموار کریگی۔
چونکہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے اپوزیشن کے دور میں توانائی کے بحران اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ایشو کو ہی پیپلزپارٹی کی حکومت کیخلاف عوامی جذبات ابھارنے کیلئے استعمال کیا تھا اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے لوڈشیڈنگ کیخلاف دو ماہ تک مینارپاکستان پر احتجاجی کیمپ لگائے رکھا تھا اس لئے لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات کیلئے عوام کی توقعات لامحالہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ وابستہ ہوئیں جس کی جانب سے عوام کو اس سنگین مسئلہ سے نجات دلانے کیلئے دل خوش کن وعدے اور دعوے بھی کئے جاتے رہے۔ اس بنیاد پر ہی عوام نے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو مسترد کرکے اگلے اقتدار کیلئے مسلم لیگ (ن) کے حق میں فیصلہ دیا مگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف یہ کہ عوام کو توانائی کے بحران سے نجات دلانے کے اپنے وعدوں کی پاسداری نہ کی بلکہ اس بحران کا ملبہ سابق حکمرانوں کی پالیسیوں پر ڈال کر عوام کو یہ عندیہ بھی دیا جانے لگا کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ میں بہت وقت لگے گا۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے تو گزشتہ ہفتے یہ کہہ کر عوام کی امیدوں پر اوس ڈال دی کہ وہ بارشیں ہونے کی دعا کریں ورنہ ہمارے پاس لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کرنے کا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایسی حکومتی سوچ اور رویہ ہی عوام کو حکومت کے ساتھ ساتھ پورے جمہوری نظام سے مایوس کرنے کا باعث بنتا ہے جس سے جمہوریت مخالف عناصر کو جمہوریت کو راندۂ درگاہ بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔
اصولی طور پر تو حکومت کو توانائی کے بحران کے حوالے سے سابق حکمرانوں کی غلطیوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے تھا اور تھرمل بجلی کے مہنگے منصوبوں سے بتدریج خلاصی حاصل کرکے سستی ہائیڈل بجلی اور کوئلے کے قدرتی ذخائر کو توانائی کے حصول کیلئے بروئے کار لانے کی جانب توجہ دینا چاہیے تھی جس کیلئے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمرمبارک مند نے ایک جامع منصوبہ بھی تیار کرکے حکومت کے حوالے کیا تھا مگر موجودہ حکومت نے بھی سابق حکمرانوں کی طرح بوجوہ مہنگی تھرمل بجلی کے حصول پر ہی اپنی توجہ مرتکز کئے رکھی۔ اس سلسلہ میں سرکلر ڈیٹس ختم کرکے تھرمل پاور کمپنیوں اور پی ایس او کو ادائیگی کی گئی مگر اس سے بھی توانائی کا بحران ختم کرنے میں کوئی مدد نہ مل سکی جبکہ وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف چین کے ساتھ توانائی کے متعدد ایم اویوز پر دستخط کرکے عوام کو مسلسل خوشخبری سناتے رہے کہ ایٹمی دھماکے کے بعد ہم چین کی مدد سے توانائی کے بحران پر قابو پا کر اب اقتصادی دھماکہ کرنیوالے ہیں۔ اگر ان دعوئوں کی روشنی میں عوام کو توانائی کے حصول میں حکومت کی تھوڑی سی پیشرفت بھی نظر آتی تو وہ مطمئن ہو جاتے مگر لوڈشیڈنگ کے خاتمہ اور اسکے دورانیہ میں کمی کا ہر حکومتی دعویٰ خالی خولی ہی نظر آیا۔ اسکے برعکس ماہ رمضان المبارک میں عوام کو پہلے سے بھی زیادہ لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کرنا پڑا۔ جب عوام کو لوڈشیڈنگ کی اذیت بھی برداشت کرنا پڑ رہی ہو اور تھوڑی بہت دستیاب بجلی کے بھی انہیں بھاری دام ادا کرنا پڑیں تو وہ حکومت کیلئے رطب اللسان نہیں ہو سکتے۔ وہ اپنے منتخب حکمرانوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کیلئے لوڈشیڈنگ کے عذاب کو گھمبیر بنا کر انہیں کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ لوڈشیڈنگ کے باعث عوام کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر بھی حکومت نے اس سنگین مسئلہ کے حل کی جانب اب تک کوئی عملی پیش رفت نہیں کی بلکہ اپوزیشن کی حکومت مخالف متوقع تحریک کو ریاستی طاقت کے زور پر دبانے کی حکمت عملی سوچی اور طے کی جا رہی ہے جس سے عوام کے جذبات مزید برانگیخت ہونگے۔ اس صورتحال میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کا یہ اعلان حوصلہ افزا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کیلئے کوئلے کے چھوٹے پلانٹ بھی لگائے جائیں گے جن کیلئے مقامات کا انتخاب کرلیا گیا ہے۔ انکے بقول لاہور سمیت سات بڑے شہروں میں لوڈسنٹرز کے قریب پلانٹس لگا جائینگے جن سے 20 ماہ کے دوران گیارہ سو میگاواٹ بجلی دستیاب ہو گی۔ خدا کرے کہ ان کا یہ اعلان عملی قالب میں ڈھل جائے اور سابق وعدوں جیسا محض وعدہ ثابت نہ ہو ورنہ عوام کا انگڑائیاں لیتا اضطراب حکومت کی مشکلات میں اضافے کا واضح عندیہ دے رہا ہے۔ اگر حکومت شروع دن سے ہی مہنگی تھرمل بجلی کے بجائے ہائیڈل بجلی اور کوئلے کے ذریعے بجلی حاصل کرنے کی تدبیر سوچ لیتی تو آج اسے عمران خان کے آزادی مارچ‘ طاہرالقادری کے انقلاب اور اب پیپلزپارٹی کی احتجاجی تحریک کے شورشرابا کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنی توجہ صرف توانائی کے بحران کے خاتمہ پر مرکوز کرے اور جن کے مفادات تھرمل بجلی کے ساتھ وابستہ ہیں‘ انکے دبائو کو خاطر میں نہ لا کر پانی اور کوئلے کے ذخائر سے سستی بجلی کے وافر حصول کے منصوبے بنائے۔ عوام کو درپیش گھمبیر مسائل حل کرکے ہی حکومت ان کا اضطراب دور کر سکتی ہے‘ بصورت دیگر عوام کی مایوسی سلطانیٔ جمہور کیخلاف کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔