پاکستان کا عاشق زار چلا گیا، ایک عہد تمام ہوا، صحافت کا بانکپن رخصت ہوا۔ جناب مجید نظامی شاندار اننگز کھیل کر اُفق کے اس پار چلے گئے۔ اک سائبان تھا کہ نہ رہا، وہ اس کالم نگار کے محسن اور مربی تھے میری تمام تر کوتاہیوں اور جسارتوں کے باوجود، شجر سایہ دار کی طرح کڑی دھوپ میں چھاﺅں کئے رہے۔ نظامی صاحب تو چلے گئے ان کی یادوں کا لامتناہی سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ یہ کالم نگار گذشتہ دو دنوں سے چوتھائی صدی پر محیط یادوں کی بھول بھلیوں سے نکل نہیں پا رہا ان کی محبت اور شفقتوں کا تو کوئی شمار قطار نہیں ان کی بزرگانہ ناراضگی کی کہانیاں بھی تعاقب میں ہیں۔80ءکی دہائی کے آخری سالوں میں صحافت کے مرکزی دھارے میں شمولیت کیلئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے سر سے پاﺅں تک جائزہ لینے کے بعد فرمایا گنجائش نہیں ہے، اس خاکسار نے جسارت کرتے ہوئے عرض کی کہتے ہیں کہ اچھے کارکنوں کی اخبار کو ہر وقت ضرورت ہوتی ہے یہ سُن کر وہ بدمزہ ہونے کی بجائے مسکرائے اور اس وقت کے چیف نیوز ایڈیٹر وحید قیصر سے ٹیسٹ لینے کوکہا وحید قیصر صاحب کے ٹیسٹ سے بچ نکلنا پُل صراط عبور کرنے کے مترادف تھا۔ ہمارے سینئر ایڈیٹر برادرم ایاز خان اُس وقت نوائے وقت میں خاصی سینئر پوزیشن پر پہنچ چکے تھے ان کی مدد سے ٹیسٹ کا کٹھن مرحلہ عبور کر کے زیر تربیت سب ایڈیٹر قرار پائے جو کسی بھی نوارد کیلئے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی کیونکہ اس وقت رات کی شفٹ میں کئی حضرات اس ٹیسٹ کے مرحلے تک پہنچنے کیلئے کئی کئی ماہ سے بیگار کاٹ رہے تھے۔ اس کالم نگار کی آمد اور فوری تقرر نے نیوز روم کی محدود دنیا میں اضطراب کی لہریں دوڑا دیں لیکن برادرم ایاز خان اور اقبال زبیری مرحوم کی رہنمائی میں سسٹم کا حصہ بن گیا۔ جناب مجید نظامی سے پہلا ٹاکرا چند ماہ بعد اس وقت ہوا جب خاکسار افغانستان کے ذاتی دورے سے واپس لوٹا اور اس وقت کے افغان وزیراعظم انجینئر گلبدین حکمت یار سے ملاقات کی روداد ڈیسک پر بیٹھ کر مزے لے لے کر سنائی تو سید والا تبار، میرے پیارے شاہ جی، عباس اطہرمرحوم نے یہ تمام روداد لکھنے کا حکم دیا کہ ایک معاصر روزنامے نے حکمت یار کا باضابطہ انٹرویو کیا تھا۔ جناب مجید نظامی نے یہ رپوتاژ لیڈ سٹوری کے طور پر شائع کرنے کاحکم دیا جس پر رپورٹنگ کی اجارہ داری میں یہ ”مداخلت بے جا“ کچھ بزرگوں کو ناگوار گزری اور جناب مجید نظامی کو بتایا گیا کہ عباس اطہر جماعت اسلامی کے حامیوں کا نوائے وقت پر قبضہ کرانا چاہتے ہیں۔ اگلے روز میری طلبی ہو گئی، جناب مجید نظامی نے خاکسار کو دیکھتے ہی سوال کیا ”معاف کرنا تہاڈا جماعت اسلامی نال کی تعلق اے۔“ اندرون خانہ جاری سازش سے بے خبر یہ کالم نگار اس سوال کیلئے تیار نہیں تھا نوائے وقت میں تعیناتی سے چند ماہ پہلے جناب مسعود اشعر، پرویز حمید، ہارون رشید، مقبول الرحیم مفتی اور عبدالکریم عابد کے ہمراہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا طویل انٹرویو کرنے والے سینئر بزرگوں کے ساتھ یہ مبتدی بھی شامل تھا جن کا تعارف انٹرویوکے آغاز پر دیا گیا تھا۔ نوائے وقت کے ادارتی صفحے پر یہ انٹرویو جوں کا توں تعارف سمیت شائع کیا گیا جس میں اس خاکسار کا نام بھی شامل تھا، میں نے بصد احترام عرض کیا ”میرے جماعت اسلامی سے تعلق کے بارے میں نوائے وقت کے ادارتی صفحے پر تفصیل شائع ہو چکی ہے۔“ زیر تربیت جونیئر سب ایڈیٹر کی اس جرا¿ت رندانہ پر قبلہ نظامی صاحب ششدر رہ گئے فرمایا ”معاف کرنا تہاڈا دماغ ٹھیک اے“ تفصیلات کا علم ہونے پر چائے بسکٹوں سے تواضع کی جو غیرمعمولی پذیرائی تھی جس کے بعد توجہ اور محنت سے کام کرنے کی ہدایت کر کے بڑے پیار و محبت سے رخصت کیا۔ اس واقعہ نے نوائے وقت کے گھٹے گھٹے ماحول پر چڑھے سارے خول توڑ دئےے اور نوجوانوں کے دور کا آغاز ہوا پھر تین سال تک نوائے وقت کا نیوز روم ہماری چراہ گاہ بنا رہا، رپورٹنگ کی روایتی اجارہ داری کی بجائے نیوز روم اورنیوز ایڈیٹر کی بالادستی کا آغاز ہوا، یہ خاکسار کی زندگی کا سنہرا دور تھا۔ جوانی دیوانی کے والہانہ پن نے پیشہ وارانہ ماحول سے ہم آہنگ ہوکر ایسا کرشمہ دکھایا کہ دفتر سے باہر دل نہیں لگتا تھا، راتیں جاگتی تھیں اور دن سوتے تھے۔ احمد کمال نظامی سے ایک تنازع میں نظامی صاحب نے حقائق سے آگاہ ہونے کے بعد اس خاکسار کوشاباش دی جس کے بعد یہ کالم نگار از خود ان کا مشیر خصوصی بن بیٹھا وہ آخری ملاقات تک بڑی رغبت اور محبت سے گپ شپ کرتے، دنیا جہان کے قصے سنتے اور مسکراتے، جلد ملنے پر اصرار کرتے۔مصلحت، ڈر یا خوف ان کے قریب نہیں گزرا تھا جناب نواز شریف غلام اسحاق خاں کے ساتھ الجھے ہوئے تھے اس وقت کے سپہ سالار جنرل وحید کاکڑ صدر اور وزیراعظم میں بیچ بچاﺅکی کوششیں کر رہے تھے کہ معاملہ صدر اور وزیراعظم کے بیک وقت مستعفی ہونے تک پہنچ گیا نواز شریف نے جناب نظامی سے رہنمائی کی درخواست کی تو نظامی صاحب نے کہا کہ جنرل کاکڑ کو آپ سے استعفیٰ طلب کرنے کا کوئی حق نہیں ہے آپ انہیں برطرف کردیں بعدازاں معاہدے کے تحت مرحوم غلام اسحاق خاں اور نواز شریف مستعفی ہوگئے سیاسی بحران ختم ہو گیا۔ سپہ سالار سے مدیران کی انہی دنوں ہونے والی ملاقات کے آغاز پر جنرل کاکڑ نے اچانک استفسار کیا کہ آپ میں سے کس دلیر ایڈیٹر نے نواز شریف کو مجھے برطرف کرنے کا مشورہ دیا تھا جناب نظامی صاحب مزے لے لے کر بتایا کرتے تھے میں فوراً کھڑا ہو گیا ”جنرل صاحب میں نواز شریف نوں ایہہ مشورہ دتا سی‘ شاید جنرل وحید کاکڑکوایسی جرا¿ت انداز کی توقع نہیں تھی اس لےے پہلو بچا کر نکل گئے۔ آصف زرداری کے حکم پر اس کالم نگار کو سنگین نوعیت کے مقدمات میں اُلجھایا گیا ریاستی جبر سے بچنے کے لےے برادرم فاروق فیصل خان سمیت چھ ماہ زیرزمین رہنا پڑا ہم انصاف کے حصول کے لےے مختلف عدالتوں سے ضمانتیں مسترد کراتے لاہور ہائی کورٹ تک پہنچ چکے تھے۔ (جاری)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024