بزرگ مسلم لیگیوں کے کنونشن میں جنم لینے والی پاکستان مسلم لیگ کے منتخبہ صدر جناب نواز شریف بالآخر پاکستان مسلم لیگ نون کے بھی صدر منتخب ہو گئے! یہ انتخاب بھی بلامقابلہ انجام پذیر ہوا مگر جناب نواز شریف نے نومنتخب صدر کی حیثیت سے لب کشائی کی تو ہم پر کھلا کہ وہ ’واقعی‘ نومنتخب صدر کے طور پر لب کشا ہیں۔ انہوں نے اصولی سیاست کی بنا پر ’سیاسی بازی گروں کے درمیان‘ تنہا رہ جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک بڑی زوردار بات کر دی، ’اصولی سیاست کے دوران کوئی بھی تنہا نہیں رہ پاتا، دور دراز سرزمینوں میں گوشہ گیر لوگ ہوں، یا بڑے بڑے شہروں کی وسعتوں میں قدم قدم پر زاویہ نشین لوگ ہوں، اگر وہ ہمارے اصولوں سے اتفاق رکھتے ہیں تو وہ کل بھی ہمارے ساتھ تھے، وہ آج بھی ہمارے ساتھ ہیں اور کل بھی ہمارے ساتھ ہوں گے! ہم کبھی تنہا تھے، نہ ہیں، نہ ہوں گے! آدمی تنہا ہوتا ہے، مگر اس وقت، جس وقت اس کا ضمیر اس کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے!‘
صدشکر کہ ’جناب نواز شریف آج بھی اپنے ضمیر کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ضمیر کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی ایک قیمت بھی ہوتی ہے اور وہ انسان کو ہر سانس کے ساتھ ادا کرنا پڑتی ہے! ضمیر سے ہاتھ چھڑا لیا جائے تو دنیا ہر سانس کی قیمت ادا کرنے لگتی ہے اور آدمی بہت امیر ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ ملکی ادارے بھی اس کی امارت کے منبع کھوج نکالنے پر کمربستہ ہو جاتے ہیں! قانون بہت خاردار چیز ہوتی ہے اور اسے کبھی ہاتھ نہیں لگانا چاہئے! ہاتھ میں لینا تو بہت دور کی بات ہے! قانون کے ہاتھ جناب بابر اعوان سے بھی ’لمبے‘ اور کان جناب رحمان ملک سے بھی زیادہ ’باریک‘ ہوتے ہیں!
جناب اسد درانی نے بھی گزشتہ سے پیوستہ روز بڑے پتے کی بات کی، انہوں نے ’غیر ریاستی عناصر‘ کے باب میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا، ’غیر ریاستی عناصر میں سے صرف ایک ’عنصر‘ ہمیشہ اس ملک اور اس ملک کے عوام کے لئے برسرکار اور برسرپیکار رہا ہے اب یہ ’عنصر‘ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ان حالات میں بھی کام کر رہا ہے اور اپنے کارکنوں کے گھر کے چولہے ٹھنڈے نہیں ہونے دے رہا ہے! یہ ’عنصر‘ ہمارے کاروباری اور صنعت کار حضرات پر مشتمل ہے، یہ برادری سرکاری پرستی کے بغیر میدان عمل میں برسرپیکار ہے اور قابل صد ستائش ہے!
بہت دنوں کے بعد کسی سابق سروس مین نے اس طبقے کی حمایت میں لب کھولے ہیں، جس طبقے کے کچل دیئے جانے کا نعرہ ہر طرف بلند ہے، خواہ وہ عمران خان ہوں، خواہ جناب الطاف حسین، خواہ ذرائع ابلاغ کے تنخواہ دار ہوں یا کار سرکار پر فائز کالم کار! یہی وہ طبقہ ہے جس نے پاکستان کو پہلے دن سے7 دسمبر 1970ءتک دنیا کی ’اعلی ترین مصنوعات‘ کا فراہم کنندہ بنائے رکھا اور پھر 16 دسمبر 1971ءکے بعد سے آج تک تمام تر پاکستان دشمن اقدامات کے باوجود پاکستان کو گرنے نہیں دیا! اللہ تبارک و تعالی جناب اسد درانی کی عزت اور توقیر میں اضافہ فرمائے! جناب نواز شریف اس طبقے کے بھی محافظ ہیں! اور اس طبقے کے ’منافع خور ڈاکوﺅں‘ کے دشمن بھی!
کراچی کے حالات آج ہر زبان پر ہیں! جناب عشرت العباد کراچی کے سرجیکل آپریشن کے مینڈیٹ کے ساتھ واپس وطن پہنچ چکے ہیں مگر انہیں ’ائر کینیڈا‘ کے مسافروں کی ’فہرست‘ کون مہیا کرے؟ جناب حافظ سعید نے اس بار اس مسئلے پر بھی روشنی ڈالی ہے اور فرمایا ہے، ’کراچی کے فسادات میں ’را‘ براہ راست ملوث ہے!‘ یہ بات کوئی اور نہیں جناب حافظ سعید فرما رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں، ’یہ بھارتی خفیہ ادارہ کراچی کی طرح اندرون سندھ بھی، بلوچستان میں بھی اور خیبرپی کے میں بھی براہ راست ملوث ہے اور ملک کو مذہبی، لسانی اور نسلی فسادات میں جھونک دینے کے درپے ہے!‘
اگر پاکستان کے مذہبی عناصر، پاکستان کے خفیہ اداروں کے سابق سربراہ اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ایک ہی بات کہہ رہے ہوں تو یہ بات قرین قیاس ہے کہ ’قیادت کی تبدیلی‘ حالات بہتر کر سکتی ہے اور ’قیادت‘ تبدیلی کے عمل سے گزرے بغیر اٹھ کھڑی ہو تو پورا ملک اس کا ساتھ دینے پر تیار ہو گا مگر اسے ’عدلیہ کا قد کاٹھ‘ درست کرنے کے کام سے فرصت ملے تو وہ اس طرف بھی کچھ توجہ دے!
سنا ہے پیر سائیں نے ملکی حالات درست کرنے کے لئے ’چلہ‘ کاٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ملک کا انتظام وانصرام جناب پرویزالہی کے سپرد کرکے ’معتکف‘ ہو جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں! اللہ تبارک تعالی انہیں استقامت دے اور وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی خواہش پر قابو پا کر اس راستے سے بخیروخوبی گزر آئیں! ورنہ وہ بھی جانتے ہیں: پیچھے مڑ کر دیکھ لیا تو پتھر کے ہو جاو گے!
محترمی ومکرمی جمہوریت نشاں فرد فرید جناب مجید نظامی بار بار یہ امور زیر بحث لاتے رہتے ہیں مگر ’سرکاری آشائیں‘ ہیں کہ ’امن کی آشا‘ کے پیچھے بگٹٹ، سرپٹ بھاگی اور دوڑی جا رہی ہیں، کچھ بھید نہیں کھلتا کیا بات ہے بنیادی؟ ’سرکاراں‘ چاہتی کیاہیں؟ ’سرکاراں‘ چپ ہے تو ’زرداراں‘ ہی بولے، گھونگٹ کے پٹ تو کھولے! کچھ پتہ تو چلے کہ اندر ہی اندر کیا کچھڑی پک رہی ہے؟ ایک کُھد بُد سی لگی ہے کہ کہیں کچھڑی پک کر اندر خانے بٹ بھی تو نہیں چکی؟ مگر کوئی بول کر ہی نہیں دے رہا! اعوانوں نے بات ’جوڈیشل مارشل لا‘ تک پہنچا دی ہے مگر ’عدلیہ کا انضباط‘ قائم ہے! مگر کوئی نہیں کہ اس کی قدر کرے، آگے بڑھے بابر اعوانوں اور ملک رحمانوں کو بٹھائے، سمجھائے، بجھائے اور پیر سائیں کو چلے سے اٹھائے کہ....
شہر جاگے تو ہمیں خون میں تر دیکھیں گے
سنگ آنکھیں نہیں رکھتے ہیں کہ سر دیکھیں گے
صدشکر کہ ’جناب نواز شریف آج بھی اپنے ضمیر کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ ضمیر کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی ایک قیمت بھی ہوتی ہے اور وہ انسان کو ہر سانس کے ساتھ ادا کرنا پڑتی ہے! ضمیر سے ہاتھ چھڑا لیا جائے تو دنیا ہر سانس کی قیمت ادا کرنے لگتی ہے اور آدمی بہت امیر ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ ملکی ادارے بھی اس کی امارت کے منبع کھوج نکالنے پر کمربستہ ہو جاتے ہیں! قانون بہت خاردار چیز ہوتی ہے اور اسے کبھی ہاتھ نہیں لگانا چاہئے! ہاتھ میں لینا تو بہت دور کی بات ہے! قانون کے ہاتھ جناب بابر اعوان سے بھی ’لمبے‘ اور کان جناب رحمان ملک سے بھی زیادہ ’باریک‘ ہوتے ہیں!
جناب اسد درانی نے بھی گزشتہ سے پیوستہ روز بڑے پتے کی بات کی، انہوں نے ’غیر ریاستی عناصر‘ کے باب میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا، ’غیر ریاستی عناصر میں سے صرف ایک ’عنصر‘ ہمیشہ اس ملک اور اس ملک کے عوام کے لئے برسرکار اور برسرپیکار رہا ہے اب یہ ’عنصر‘ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ان حالات میں بھی کام کر رہا ہے اور اپنے کارکنوں کے گھر کے چولہے ٹھنڈے نہیں ہونے دے رہا ہے! یہ ’عنصر‘ ہمارے کاروباری اور صنعت کار حضرات پر مشتمل ہے، یہ برادری سرکاری پرستی کے بغیر میدان عمل میں برسرپیکار ہے اور قابل صد ستائش ہے!
بہت دنوں کے بعد کسی سابق سروس مین نے اس طبقے کی حمایت میں لب کھولے ہیں، جس طبقے کے کچل دیئے جانے کا نعرہ ہر طرف بلند ہے، خواہ وہ عمران خان ہوں، خواہ جناب الطاف حسین، خواہ ذرائع ابلاغ کے تنخواہ دار ہوں یا کار سرکار پر فائز کالم کار! یہی وہ طبقہ ہے جس نے پاکستان کو پہلے دن سے7 دسمبر 1970ءتک دنیا کی ’اعلی ترین مصنوعات‘ کا فراہم کنندہ بنائے رکھا اور پھر 16 دسمبر 1971ءکے بعد سے آج تک تمام تر پاکستان دشمن اقدامات کے باوجود پاکستان کو گرنے نہیں دیا! اللہ تبارک و تعالی جناب اسد درانی کی عزت اور توقیر میں اضافہ فرمائے! جناب نواز شریف اس طبقے کے بھی محافظ ہیں! اور اس طبقے کے ’منافع خور ڈاکوﺅں‘ کے دشمن بھی!
کراچی کے حالات آج ہر زبان پر ہیں! جناب عشرت العباد کراچی کے سرجیکل آپریشن کے مینڈیٹ کے ساتھ واپس وطن پہنچ چکے ہیں مگر انہیں ’ائر کینیڈا‘ کے مسافروں کی ’فہرست‘ کون مہیا کرے؟ جناب حافظ سعید نے اس بار اس مسئلے پر بھی روشنی ڈالی ہے اور فرمایا ہے، ’کراچی کے فسادات میں ’را‘ براہ راست ملوث ہے!‘ یہ بات کوئی اور نہیں جناب حافظ سعید فرما رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں، ’یہ بھارتی خفیہ ادارہ کراچی کی طرح اندرون سندھ بھی، بلوچستان میں بھی اور خیبرپی کے میں بھی براہ راست ملوث ہے اور ملک کو مذہبی، لسانی اور نسلی فسادات میں جھونک دینے کے درپے ہے!‘
اگر پاکستان کے مذہبی عناصر، پاکستان کے خفیہ اداروں کے سابق سربراہ اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ایک ہی بات کہہ رہے ہوں تو یہ بات قرین قیاس ہے کہ ’قیادت کی تبدیلی‘ حالات بہتر کر سکتی ہے اور ’قیادت‘ تبدیلی کے عمل سے گزرے بغیر اٹھ کھڑی ہو تو پورا ملک اس کا ساتھ دینے پر تیار ہو گا مگر اسے ’عدلیہ کا قد کاٹھ‘ درست کرنے کے کام سے فرصت ملے تو وہ اس طرف بھی کچھ توجہ دے!
سنا ہے پیر سائیں نے ملکی حالات درست کرنے کے لئے ’چلہ‘ کاٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ملک کا انتظام وانصرام جناب پرویزالہی کے سپرد کرکے ’معتکف‘ ہو جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں! اللہ تبارک تعالی انہیں استقامت دے اور وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی خواہش پر قابو پا کر اس راستے سے بخیروخوبی گزر آئیں! ورنہ وہ بھی جانتے ہیں: پیچھے مڑ کر دیکھ لیا تو پتھر کے ہو جاو گے!
محترمی ومکرمی جمہوریت نشاں فرد فرید جناب مجید نظامی بار بار یہ امور زیر بحث لاتے رہتے ہیں مگر ’سرکاری آشائیں‘ ہیں کہ ’امن کی آشا‘ کے پیچھے بگٹٹ، سرپٹ بھاگی اور دوڑی جا رہی ہیں، کچھ بھید نہیں کھلتا کیا بات ہے بنیادی؟ ’سرکاراں‘ چاہتی کیاہیں؟ ’سرکاراں‘ چپ ہے تو ’زرداراں‘ ہی بولے، گھونگٹ کے پٹ تو کھولے! کچھ پتہ تو چلے کہ اندر ہی اندر کیا کچھڑی پک رہی ہے؟ ایک کُھد بُد سی لگی ہے کہ کہیں کچھڑی پک کر اندر خانے بٹ بھی تو نہیں چکی؟ مگر کوئی بول کر ہی نہیں دے رہا! اعوانوں نے بات ’جوڈیشل مارشل لا‘ تک پہنچا دی ہے مگر ’عدلیہ کا انضباط‘ قائم ہے! مگر کوئی نہیں کہ اس کی قدر کرے، آگے بڑھے بابر اعوانوں اور ملک رحمانوں کو بٹھائے، سمجھائے، بجھائے اور پیر سائیں کو چلے سے اٹھائے کہ....
شہر جاگے تو ہمیں خون میں تر دیکھیں گے
سنگ آنکھیں نہیں رکھتے ہیں کہ سر دیکھیں گے