نواز خان میرانی ۔۔۔
محکمہ اطلاعات والے نوائے وقت اور دی نیشن کے سینئر کالم نگاروں سے ملاقات کرنے سے یقیناً یہ تاثر چھوڑ گئے ہیں کہ نظریہ پاکستان، حضرت قائداعظمؒ، مادر ملتؒ، حضرت علامہ اقبالؒ اور تحریک آزادی کے رہبران سے لیکر ڈاکٹر عبدالقدیر خان حتیٰ کہ بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں کے بارے میں جناب مجید نظامی کی قیادت میں ان کے نام اور ان کے مسائل کو جس جرات سے و بہادری سے زندہ رکھا گیا ہے۔ وہ بھی اس کے دل و جان سے معترف ہیں۔ محکمہ اطلاعات والوں کی دعوت پہ میں جب موقعہ ”واردات“ پر پہنچا تو کانفرنس کو ”ہائی جیک“ کر لیا گیا تھا۔ بشریٰ رحمن صاحبہ کے ہاتھ میں پکڑے چھری کانٹے اسحلہ کا کام دے رہے تھے جبکہ طیبہ ضیاءصاحبہ ان کی معاونت کر رہی تھیں اور ہمارے دیگر ساتھی ہتھیار پھینک چکے تھے اور دو خواتین، مردوں والا کام کر رہی تھیں اور مجھ سمیت دوسرے ساتھی سوپ کے ساتھ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ گئے تھے۔ کیونکہ دانشور جانتے ہیں کہ انسان کی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
چونکہ میں ان کی برابر والی نشست پر براجمان تھا لہذا ملک و ملت کے بارے میں ان کے عزم اور غیر متزلزل رویے خصوصاً کالا باغ ڈیم کے بارے میں ان کی پریشانی اور ایوان میں کالا باغ کے بارے میں ان کی دیگر صوبوں کے نمائندوں سے مسلسل جھڑپیں، ڈیم کو رکوانے کیلئے بیرونی طاقتوں کے ملوث ہونے اور پیسوں کی تقسیم کے شواہد رکھنے اور اکٹھے کرنیکی مرض، پاکستانی چینلز کی واہیاتی، بھارتی چینلز کے ہاتھوں پاکستانی ثقافت کی بربادی، نیم عریاں میڈیا پہ اور بل بورڈ اشتہارات کی بھر مار کے بارے میں ان کے پرجوش جذبے اور ان کی بے چینی کو بغور دیکھ کر پہلے میرے ذہن میں کسی اور سوچ کا کوندا لپکا مگر پھر یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ مثبت سوچ تو توفیق خداوندی سے کسی بھی وقت کسی میں آ سکتی ہے۔
موصوفہ نے اپنے دورہ بھارت میں حب الوطنی کے متعدد واقعات سنائے، خصوصاً بھارتیوں کے بار بار اس سوال پر کہ ہمارا لباس ایک ہماری زبان ایک، ہماری تہذیب وثقافت ایک ہمارے کھانے ایک جیسے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ایک نہیں ہو سکتے؟ جسکے جواب میں بشریٰ رحمن نے کہا کہ جب تک ہماری سبزیوں میں بکرے یا گائے کا گوشت شامل نہیں ہوتا ہمارا کھانا مکمل نہیں ہوتا۔ دوسرے جہاں تک ہمارے ایک ہونیکا تعلق ہے۔ ہم ایک ہو سکتے ہیں آپ پورے برصغیر کا نام پاکستان رکھ دیں۔ بھارت میں بیٹھ کر ایسی باتیں کرنیکا یارا تو بشریٰ رحمن کے سابقہ لیڈر ”کمانڈو“ کو کبھی نہیں ہوا تھا۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی پر شدید برہمی کے اظہار پہ بے ضرر چودھری رشید احمد پرنسپل آفیسر محکمہ اطلاعات جو سوائے سگریٹ کے کش لینے کے انداز نشست و برخواست اور انداز گفتگو سے چودھری دکھائی نہیں دیے(شاید ان کا تعلق گجرات سے نہیں ہوگا) یہ وضاحت کرتے رہے کہ حکومت والے ہمیں میڈیا والے، اور آپ لوگ ہمیں حکومت والے سمجھ کر شکوہ کناں اور برہم رہتے ہیں اور میں دراصل اسی غلط فہمی اور تناﺅ کے ماحول کو کم کرنے آیا ہوں۔ فاطمہ شیخ زیر لب مسکرا دیں کہ شیخ ہونے کے ناطے انہوں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔
بشریٰ رحمن نے مزید بتایا کہ پارلیمنٹ میں میں ایسے ممبر کو جانتی ہوں جو پشاور سے بس پہ بیٹھ کر اور اڈے سے پیدل چل کر ہاﺅس تک آتے تھے۔ یہ سن کر میں نے شرطاً کہا کہ وہ ممبر اے این پی کے یقیناً نہیں ہونگے۔ جسکی انہوں نے تصدیق کی۔ اور بتایا کہ میں ایسے مولوی صاحبان کو بھی جانتی ہوں کہ جو اس وقت استطاعت نہیں رکھتے تھے مگر اس وقت ان کے پاس مہنگی ترین گاڑیوں کی قطاریں ہیں یہ سن کر ہوا کے دوش پہ سوار لکھاری نے ”مکرر“ اور واہ واہ کے نعرے لگا کر محفل کو محفل مشاعرہ میں بدلنے کی کوشش کی ۔ اس کو تو اسلام آباد کے کسی جریدے کا مالک ہونا چاہئے تھا بہرکیف محکمہ اطلاعات والوں سے عرض ہے کہ نوائے وقت والوں کو ”حب الوطنی“ کا مرض ہے، ان کو یہ سمجھ اب آ گئی ہو گی!!!
محکمہ اطلاعات والے نوائے وقت اور دی نیشن کے سینئر کالم نگاروں سے ملاقات کرنے سے یقیناً یہ تاثر چھوڑ گئے ہیں کہ نظریہ پاکستان، حضرت قائداعظمؒ، مادر ملتؒ، حضرت علامہ اقبالؒ اور تحریک آزادی کے رہبران سے لیکر ڈاکٹر عبدالقدیر خان حتیٰ کہ بنگلہ دیش میں محصور بہاریوں کے بارے میں جناب مجید نظامی کی قیادت میں ان کے نام اور ان کے مسائل کو جس جرات سے و بہادری سے زندہ رکھا گیا ہے۔ وہ بھی اس کے دل و جان سے معترف ہیں۔ محکمہ اطلاعات والوں کی دعوت پہ میں جب موقعہ ”واردات“ پر پہنچا تو کانفرنس کو ”ہائی جیک“ کر لیا گیا تھا۔ بشریٰ رحمن صاحبہ کے ہاتھ میں پکڑے چھری کانٹے اسحلہ کا کام دے رہے تھے جبکہ طیبہ ضیاءصاحبہ ان کی معاونت کر رہی تھیں اور ہمارے دیگر ساتھی ہتھیار پھینک چکے تھے اور دو خواتین، مردوں والا کام کر رہی تھیں اور مجھ سمیت دوسرے ساتھی سوپ کے ساتھ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ گئے تھے۔ کیونکہ دانشور جانتے ہیں کہ انسان کی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
چونکہ میں ان کی برابر والی نشست پر براجمان تھا لہذا ملک و ملت کے بارے میں ان کے عزم اور غیر متزلزل رویے خصوصاً کالا باغ ڈیم کے بارے میں ان کی پریشانی اور ایوان میں کالا باغ کے بارے میں ان کی دیگر صوبوں کے نمائندوں سے مسلسل جھڑپیں، ڈیم کو رکوانے کیلئے بیرونی طاقتوں کے ملوث ہونے اور پیسوں کی تقسیم کے شواہد رکھنے اور اکٹھے کرنیکی مرض، پاکستانی چینلز کی واہیاتی، بھارتی چینلز کے ہاتھوں پاکستانی ثقافت کی بربادی، نیم عریاں میڈیا پہ اور بل بورڈ اشتہارات کی بھر مار کے بارے میں ان کے پرجوش جذبے اور ان کی بے چینی کو بغور دیکھ کر پہلے میرے ذہن میں کسی اور سوچ کا کوندا لپکا مگر پھر یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ مثبت سوچ تو توفیق خداوندی سے کسی بھی وقت کسی میں آ سکتی ہے۔
موصوفہ نے اپنے دورہ بھارت میں حب الوطنی کے متعدد واقعات سنائے، خصوصاً بھارتیوں کے بار بار اس سوال پر کہ ہمارا لباس ایک ہماری زبان ایک، ہماری تہذیب وثقافت ایک ہمارے کھانے ایک جیسے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ایک نہیں ہو سکتے؟ جسکے جواب میں بشریٰ رحمن نے کہا کہ جب تک ہماری سبزیوں میں بکرے یا گائے کا گوشت شامل نہیں ہوتا ہمارا کھانا مکمل نہیں ہوتا۔ دوسرے جہاں تک ہمارے ایک ہونیکا تعلق ہے۔ ہم ایک ہو سکتے ہیں آپ پورے برصغیر کا نام پاکستان رکھ دیں۔ بھارت میں بیٹھ کر ایسی باتیں کرنیکا یارا تو بشریٰ رحمن کے سابقہ لیڈر ”کمانڈو“ کو کبھی نہیں ہوا تھا۔
موجودہ حکومت کی کارکردگی پر شدید برہمی کے اظہار پہ بے ضرر چودھری رشید احمد پرنسپل آفیسر محکمہ اطلاعات جو سوائے سگریٹ کے کش لینے کے انداز نشست و برخواست اور انداز گفتگو سے چودھری دکھائی نہیں دیے(شاید ان کا تعلق گجرات سے نہیں ہوگا) یہ وضاحت کرتے رہے کہ حکومت والے ہمیں میڈیا والے، اور آپ لوگ ہمیں حکومت والے سمجھ کر شکوہ کناں اور برہم رہتے ہیں اور میں دراصل اسی غلط فہمی اور تناﺅ کے ماحول کو کم کرنے آیا ہوں۔ فاطمہ شیخ زیر لب مسکرا دیں کہ شیخ ہونے کے ناطے انہوں نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔
بشریٰ رحمن نے مزید بتایا کہ پارلیمنٹ میں میں ایسے ممبر کو جانتی ہوں جو پشاور سے بس پہ بیٹھ کر اور اڈے سے پیدل چل کر ہاﺅس تک آتے تھے۔ یہ سن کر میں نے شرطاً کہا کہ وہ ممبر اے این پی کے یقیناً نہیں ہونگے۔ جسکی انہوں نے تصدیق کی۔ اور بتایا کہ میں ایسے مولوی صاحبان کو بھی جانتی ہوں کہ جو اس وقت استطاعت نہیں رکھتے تھے مگر اس وقت ان کے پاس مہنگی ترین گاڑیوں کی قطاریں ہیں یہ سن کر ہوا کے دوش پہ سوار لکھاری نے ”مکرر“ اور واہ واہ کے نعرے لگا کر محفل کو محفل مشاعرہ میں بدلنے کی کوشش کی ۔ اس کو تو اسلام آباد کے کسی جریدے کا مالک ہونا چاہئے تھا بہرکیف محکمہ اطلاعات والوں سے عرض ہے کہ نوائے وقت والوں کو ”حب الوطنی“ کا مرض ہے، ان کو یہ سمجھ اب آ گئی ہو گی!!!