خواجہ عبدالحکیم عامر ۔۔۔
میں بھی وطن عزیز کے ایک نڈر اور بہادر سپوت جاوید ہاشمی کی عیادت کرنے کے لئے لاہور کے جنرل ہسپتال گیا۔ اپنے زمانہ طالب علمی کے لیڈر دوست اور حال کے منجھے ہوئے سیاستدان جاوید ہاشمی کے ساتھ ملاقات تو نہ کر سکا البتہ ہسپتال کی راہداری میں ایک پڑھی لکھی مگر سفید پوش ماں کے ساتھ مڈبھیڑ ہو گئی جس کی آنسوں سے تر آنکھیں جاوید ہاشمی کے کمرے کی طرف مرکوز تھیں۔ فطرتاً مجھ سے رہا نہ گیا ”بی بی! آپ کی آنکھوں میں آنسو!“
”آپ کون ہیں اور کیوں پوچھ رہے ہیں؟“
خاتون کے طرزِ تخاطب پر اندازہ ہوا کہ وہ پڑھی لکھی اور خاندانی عورت ہے مگر قسمت کی ماری ہوئی۔
”مجھے بھائی کہتے ہیں“
بھائی کا لفظ سُن کر خاتون کا اعتماد بحال ہوا۔
”بھیا! میں 22 سال کے ایک بیٹے جاوید کی ماں ہوں، پندرہ بیس روز پہلے جاوید کے دماغ کے کسی حصے میں خون منجمد ہو گیا جس کے باعث ہنستا کھیلتا اور شرارتیں کرتا ہوا میرا بیٹا مجسمہ سہم بنا ہوا ہے، دین و دنیا سے بے نیاز ہسپتال میں پڑا ہوا کسی بڑے مسیحا کا منتظر ہے۔“
”بہن! ہسپتال میں اس کا علاج نہیں ہو رہا ہے کیا؟“
”جونیئر ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہے، سنیئر ڈاکٹر دوسرے تیسرے دن چکر لگاتا ہے اس کے پاس اتنا ٹائم ہی نہیں ہوتا کہ جاوید کو پوری توجہ کے ساتھ چیک کرے۔“
دوائیاں تو مفت مل رہی ہیں کیا؟
نہایت کم معیاری اور سستی دوائیاں تو ہسپتال سے مل جاتی ہیں، اگر یہاں کے مریضوں کو قیمتی اور مہنگی دوائیوں کی ضرورت ہو تو تیمار داروں کو بازار سے قیمتاً منگوانی پڑتی ہیں۔ جب سے میں اپنے بیٹے کے ساتھ ہسپتال آئی ہوں دس پندرہ ہزار کی دوائیاں بازار سے لا چکی ہوں۔“
آپ کو معلوم نہیں کہ شہباز شریف صاحب نے تمام سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت فراہم کی ہوئی ہے؟
”نہ جانے وہ کونسے خوش قسمت ہیں جنہیں مہنگی اور معیاری دوائیاں ہسپتالوں سے ملتی ہیں۔“
بہن ! آپ کے ہاتھ میں یہ کاغذ کیسا ہے؟
”اس کاغذ پر دو دوائیاں ابھی ڈاکٹر نے لکھی ہیں اور انہیں بازار سے خرید کر لانے کو کہا ہے مگر میرے پاس تو اتنے پیسے ہی نہیں کہ دوائیاں خرید سکوں۔“ میں نے خاتون کو ادویات خرید کر دیں اور دماغ پر بے شمار سوالات لئے جنرل ہسپتال سے باہر نکل آیا جہاں کچھ دیر پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے ایک بڑے دوست جاوید ہاشمی کی خیریت دریافت کر کے گئے تھے۔ وہ جنرل ہسپتال جہاں بیس بیس ڈاکٹروں کا بورڈ برادرم جاوید ہاشمی کا علاج کر رہا ہے، جہاں پنجاب حکومت پانی کی طرح پیسہ بہا رہی ہے، جہاں دن رات بڑوں کا تانتا بندھا ہوا ہے مگر ان بڑوں میں سے کسی کو وہ غےرت مند ماں نظر نہیں آ رہی جو اپنے جاوید کی زندہ لاش کی حفاظت کر رہی ہے، مہنگی دوائیوں کے لئے اس کے پاس رقم نہیں، سینئر ڈاکٹر اس کے بیٹے کی طرف توجہ نہیں دے رہے، سب سینئرز کی نگاہوں کا مرکز جاوید ہاشمی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ بڑے بھائی جاوید ہاشمی بلاشبہ ایک محب وطن، بہادر، غیور اور اصول پسند سیاستدان ہیں ان کی قابل تعریف سیاسی خدمات دوستوں سے پوشیدہ نہیں۔ ان کا جو VVIP علاج ہو رہا ہے اس پر کسی کو اعتراض نہیں کیونکہ وہ اعلیٰ ترین علاج کے مستحق ہیں مگر ذرا سوچئے اس ماں کا جس کا جاوید جنرل وارڈ میں زندگی کے دن گن رہا ہے حالانکہ اسے بھی وہی تکلیف ہے جو جاوید ہاشمی کو ہے۔ کیا گزرتی ہو گی اس ماں کے دل پر جو ایک طرف بیس بیس سینئر ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل بورڈ دیکھ رہی ہے دوسری طرف اسے اپنے لختِ جگر کے لئے ایک بھی سینئر ڈاکٹر میسر نہیں اور یہ امر یوسف رضا گیلانی، شہباز شریف اور دیگر با اختیاروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
میں بھی وطن عزیز کے ایک نڈر اور بہادر سپوت جاوید ہاشمی کی عیادت کرنے کے لئے لاہور کے جنرل ہسپتال گیا۔ اپنے زمانہ طالب علمی کے لیڈر دوست اور حال کے منجھے ہوئے سیاستدان جاوید ہاشمی کے ساتھ ملاقات تو نہ کر سکا البتہ ہسپتال کی راہداری میں ایک پڑھی لکھی مگر سفید پوش ماں کے ساتھ مڈبھیڑ ہو گئی جس کی آنسوں سے تر آنکھیں جاوید ہاشمی کے کمرے کی طرف مرکوز تھیں۔ فطرتاً مجھ سے رہا نہ گیا ”بی بی! آپ کی آنکھوں میں آنسو!“
”آپ کون ہیں اور کیوں پوچھ رہے ہیں؟“
خاتون کے طرزِ تخاطب پر اندازہ ہوا کہ وہ پڑھی لکھی اور خاندانی عورت ہے مگر قسمت کی ماری ہوئی۔
”مجھے بھائی کہتے ہیں“
بھائی کا لفظ سُن کر خاتون کا اعتماد بحال ہوا۔
”بھیا! میں 22 سال کے ایک بیٹے جاوید کی ماں ہوں، پندرہ بیس روز پہلے جاوید کے دماغ کے کسی حصے میں خون منجمد ہو گیا جس کے باعث ہنستا کھیلتا اور شرارتیں کرتا ہوا میرا بیٹا مجسمہ سہم بنا ہوا ہے، دین و دنیا سے بے نیاز ہسپتال میں پڑا ہوا کسی بڑے مسیحا کا منتظر ہے۔“
”بہن! ہسپتال میں اس کا علاج نہیں ہو رہا ہے کیا؟“
”جونیئر ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہے، سنیئر ڈاکٹر دوسرے تیسرے دن چکر لگاتا ہے اس کے پاس اتنا ٹائم ہی نہیں ہوتا کہ جاوید کو پوری توجہ کے ساتھ چیک کرے۔“
دوائیاں تو مفت مل رہی ہیں کیا؟
نہایت کم معیاری اور سستی دوائیاں تو ہسپتال سے مل جاتی ہیں، اگر یہاں کے مریضوں کو قیمتی اور مہنگی دوائیوں کی ضرورت ہو تو تیمار داروں کو بازار سے قیمتاً منگوانی پڑتی ہیں۔ جب سے میں اپنے بیٹے کے ساتھ ہسپتال آئی ہوں دس پندرہ ہزار کی دوائیاں بازار سے لا چکی ہوں۔“
آپ کو معلوم نہیں کہ شہباز شریف صاحب نے تمام سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت فراہم کی ہوئی ہے؟
”نہ جانے وہ کونسے خوش قسمت ہیں جنہیں مہنگی اور معیاری دوائیاں ہسپتالوں سے ملتی ہیں۔“
بہن ! آپ کے ہاتھ میں یہ کاغذ کیسا ہے؟
”اس کاغذ پر دو دوائیاں ابھی ڈاکٹر نے لکھی ہیں اور انہیں بازار سے خرید کر لانے کو کہا ہے مگر میرے پاس تو اتنے پیسے ہی نہیں کہ دوائیاں خرید سکوں۔“ میں نے خاتون کو ادویات خرید کر دیں اور دماغ پر بے شمار سوالات لئے جنرل ہسپتال سے باہر نکل آیا جہاں کچھ دیر پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے ایک بڑے دوست جاوید ہاشمی کی خیریت دریافت کر کے گئے تھے۔ وہ جنرل ہسپتال جہاں بیس بیس ڈاکٹروں کا بورڈ برادرم جاوید ہاشمی کا علاج کر رہا ہے، جہاں پنجاب حکومت پانی کی طرح پیسہ بہا رہی ہے، جہاں دن رات بڑوں کا تانتا بندھا ہوا ہے مگر ان بڑوں میں سے کسی کو وہ غےرت مند ماں نظر نہیں آ رہی جو اپنے جاوید کی زندہ لاش کی حفاظت کر رہی ہے، مہنگی دوائیوں کے لئے اس کے پاس رقم نہیں، سینئر ڈاکٹر اس کے بیٹے کی طرف توجہ نہیں دے رہے، سب سینئرز کی نگاہوں کا مرکز جاوید ہاشمی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ بڑے بھائی جاوید ہاشمی بلاشبہ ایک محب وطن، بہادر، غیور اور اصول پسند سیاستدان ہیں ان کی قابل تعریف سیاسی خدمات دوستوں سے پوشیدہ نہیں۔ ان کا جو VVIP علاج ہو رہا ہے اس پر کسی کو اعتراض نہیں کیونکہ وہ اعلیٰ ترین علاج کے مستحق ہیں مگر ذرا سوچئے اس ماں کا جس کا جاوید جنرل وارڈ میں زندگی کے دن گن رہا ہے حالانکہ اسے بھی وہی تکلیف ہے جو جاوید ہاشمی کو ہے۔ کیا گزرتی ہو گی اس ماں کے دل پر جو ایک طرف بیس بیس سینئر ڈاکٹروں پر مشتمل میڈیکل بورڈ دیکھ رہی ہے دوسری طرف اسے اپنے لختِ جگر کے لئے ایک بھی سینئر ڈاکٹر میسر نہیں اور یہ امر یوسف رضا گیلانی، شہباز شریف اور دیگر با اختیاروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔