امیر نواز نیازی ۔۔۔
ان دنوں ملک بھر میں اسمبلیوں کے منتخب نمائندوں کی ڈگریوں کی لوڈ شیڈنگ کی مہم جاری ہے تو ایسے ہی کسی موقع پر شاعر نے بھی کہا ہوگا
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے
تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
اس بوجھ سے نجات پانے کے بعد حکومتی کشتی کا کیا حشر ہوگا، ہم نہیں جانتے لیکن اتنا ضرور نظر آرہا ہے کہ ہر طرف ایک شور ہے۔ کون صاف ہے، کون چور ہے لگاتار پڑتال جاری ہے اور ہر روز برابر خبریں آرہی ہیں کہ کسی کی ڈگری اصلی ہے اور کسی کی جعلی۔ دن بدن جعلی ڈگریوں کا سکور بڑھتا جا رہا ہے اور لوگ اس کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کرکٹ کھیل میں گرتی ہوئی وکٹیں!
عوام اور میڈیا بھر میں طرح طرح کے تبصرے اور تذکرے ہو رہے ہیں اور اسے ہمارے معاشرے کی اعلیٰ ترین سطح پر تاریخ کی بدترین بدعنوانی قرار دے رہے ہیں اور ایسا کرنے والوں کو قانون کا مجرم قرار دے کر انہیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے حواری اسے ان کی ”معصومیت“ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اسی گرما گرمی میں ہمارے قلم سے بھی ایک دو کالم سرزد ہوئے ہیں جنہیں پڑھ کر ہمارے کچھ کرم فرماﺅں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے تو کچھ دوستوں نے اسے ”میڈیا ہائپ“ قرار دے کر اسے نظرانداز کرنے کا مشورہ دیا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو حکومت میں ہیں یا حکومتی پارٹی میں اور ان کی حکومت کی جان ان جعلی ڈگریوں والے طوطوں کی جان میں ہے اس لئے وہ اگرچہ ان کے ان کرتوتوں پر اندر ہی اندر شرمندہ ہیں مگر وہ کسی نہ کسی طرح انہیں زندہ رکھنا چاہتے ہیں اسی لئے وہ مسلسل کہے چلے جا رہے ہیں کہ یہ کوئی ایسا ”ایشو“ نہیں جس پر اس قدر واویلا کیا جائے اور مزید وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسمبلیوں میں آنے کیلئے ڈگری کی شرط ناجائز ہے اور یہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے مفادات کی خاطر عائد کی تھی جو اب منسوخ ہو چکی ہے تو وہ چاہتے ہیں جعلی ڈگری والوں کی اس واردات کو بھی اہمیت نہ دی جائے تو ہم بھی یہاں یہ مانتے ہیں کہ اسمبلیوں میں آنے کیلئے ڈگری کی شرط سراسر ناجائز و ناحق ہے کہ جمہوریت اور جمہوری طرز حکومت میں، جس شخص کو ووٹ دینے کا حق ہے اسے ووٹ لینے کا بھی حق ہے یعنی ہر ووٹر یا ووٹ دہندہ کسی بھی اسمبلی میں انتخاب لڑنے کا حقدار ہوتا ہے اور یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ کاروبار زندگی ہو یا امور سلطنت، ان کو چلانے کیلئے تعلیم سے زیادہ فہم و فراست کی ضرورت ہوتی ہے اور فہم و فراست اللہ تعالیٰ کی دین ہوتی ہے۔ وہ جسے چاہے سرفراز کرے جبکہ تعلیم دنیاوی وسیلوں سے حاصل کی جاتی ہے چنانچہ تعلیم، فہم و فراست رکھنے والے لوگوں کیلئے اضافی صلاحیت تو ہو سکتی ہے ضروری نہیں۔ ہم دیہات کے رہنے والے ہیں۔ اپنے ان دیہاتوں میں ایسے صاحب عقل و دانش اور فہم و فراست دیکھے ہیں جنہوں نے کسی سکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا لیکن معاملہ فہمی اور دنیاداری کے معاملے طے کرنے میں اس قدر وہ یکتا ہوتے ہیں کہ ڈگریوں والے ان کے مقابلے میں کیا ہونگے۔ شہنشاہ اکبر نے برصغیر ہند پر سب سے لمبی اور عمدہ حکمرانی کی، وہ کورا ان پڑھ تھا۔
ہمارے اپنے گھر میں جہاں بحمدللہ ایک درجن سے زائد ملکی اور غیر ملکی ڈگریاں موجود ہیں وہاں امور خانہ داری اور خاندانی معاملات بطریق احسن چلانے والی ایسی خاتون ہے جو کسی بھی ادارتی ڈگری سے بے نیاز ہے لیکن ہمیں یہاں اعتراض بلکہ دکھ یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اگر ایسی کوئی ناجائز شرط عائد کر دی تھی تو ہمارے ان متوقع ممبران جن کا آئین کی رو سے امین اور صادق یعنی سچا اور دیانت دار ہونا لازم تھا، اس قدر کمزور، بدکردار اور کمزور ایمان کے مالک نکلے کہ محض اقتدار کی خاطر وہ جعل سازی کی راہ پر چل نکلے۔ ان میں اخلاقی جرات ہوتی تو وہ اس ڈکٹیٹرانہ اقدام کے آگے ڈٹ جاتے یا پھر انتخاب ہی نہ لڑتے لیکن ان کے اخلاقی دیوالیہ پن نے انہیں ایسا کرنے سے بھی معذور رکھا اور وہ اس جرم کے مرتکب ہوئے جو تعزیرات پاکستان کی رو سے قابل سزا ہے اور وہ تو قانون بنانے والے ہی نہیں، قانون کے رکھوالوں میں بھی شامل تھے۔ انہوں نے اگر ایسا کیا تو بہت برا کیا اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت انہیں لاکھ بچانا چاہے، بچا نہیں سکے گی۔ دیوار پر یہ لکھا اب سب کو نظر آرہا ہے کہ جیل ان کا مقدر بن چکی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس وقت 160 پاکستانی شہری، ڈگریوں کی جعل سازی کے جرم میں ملک بھر کی جیلوں میں پڑے سزا بھگت رہے ہیں تو اب یہ بھی کیا منظر ہوگا جب ہمارے قانون ساز اداروں کے یہ ممبران بھی ان میں شامل ہو جائیں گے اور یہ سب مل کر جیل کی چکی پیسیں گے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے حسب سابق اپنے ان ”ساتھیوں“ کی اس سزا کو معاف کر دیں تو یہاں ان بے سہارا قیدی شہریوں کا بھی بھلا ہو جائے گا کہ ان کے ساتھ انہیں بھی سزا سے نجات مل جائے گی اور یہ سلسلہ چل نکلا تو آگے چل کر نہ جانے کون کون سے قیدیوں کو آزادی نصیب ہوگی۔ یہ ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے جرائم اور ان کی سزاﺅں پر منحصر ہے۔
ان دنوں ملک بھر میں اسمبلیوں کے منتخب نمائندوں کی ڈگریوں کی لوڈ شیڈنگ کی مہم جاری ہے تو ایسے ہی کسی موقع پر شاعر نے بھی کہا ہوگا
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے
تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
اس بوجھ سے نجات پانے کے بعد حکومتی کشتی کا کیا حشر ہوگا، ہم نہیں جانتے لیکن اتنا ضرور نظر آرہا ہے کہ ہر طرف ایک شور ہے۔ کون صاف ہے، کون چور ہے لگاتار پڑتال جاری ہے اور ہر روز برابر خبریں آرہی ہیں کہ کسی کی ڈگری اصلی ہے اور کسی کی جعلی۔ دن بدن جعلی ڈگریوں کا سکور بڑھتا جا رہا ہے اور لوگ اس کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے کرکٹ کھیل میں گرتی ہوئی وکٹیں!
عوام اور میڈیا بھر میں طرح طرح کے تبصرے اور تذکرے ہو رہے ہیں اور اسے ہمارے معاشرے کی اعلیٰ ترین سطح پر تاریخ کی بدترین بدعنوانی قرار دے رہے ہیں اور ایسا کرنے والوں کو قانون کا مجرم قرار دے کر انہیں قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے حواری اسے ان کی ”معصومیت“ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اسی گرما گرمی میں ہمارے قلم سے بھی ایک دو کالم سرزد ہوئے ہیں جنہیں پڑھ کر ہمارے کچھ کرم فرماﺅں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا ہے تو کچھ دوستوں نے اسے ”میڈیا ہائپ“ قرار دے کر اسے نظرانداز کرنے کا مشورہ دیا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو حکومت میں ہیں یا حکومتی پارٹی میں اور ان کی حکومت کی جان ان جعلی ڈگریوں والے طوطوں کی جان میں ہے اس لئے وہ اگرچہ ان کے ان کرتوتوں پر اندر ہی اندر شرمندہ ہیں مگر وہ کسی نہ کسی طرح انہیں زندہ رکھنا چاہتے ہیں اسی لئے وہ مسلسل کہے چلے جا رہے ہیں کہ یہ کوئی ایسا ”ایشو“ نہیں جس پر اس قدر واویلا کیا جائے اور مزید وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسمبلیوں میں آنے کیلئے ڈگری کی شرط ناجائز ہے اور یہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے مفادات کی خاطر عائد کی تھی جو اب منسوخ ہو چکی ہے تو وہ چاہتے ہیں جعلی ڈگری والوں کی اس واردات کو بھی اہمیت نہ دی جائے تو ہم بھی یہاں یہ مانتے ہیں کہ اسمبلیوں میں آنے کیلئے ڈگری کی شرط سراسر ناجائز و ناحق ہے کہ جمہوریت اور جمہوری طرز حکومت میں، جس شخص کو ووٹ دینے کا حق ہے اسے ووٹ لینے کا بھی حق ہے یعنی ہر ووٹر یا ووٹ دہندہ کسی بھی اسمبلی میں انتخاب لڑنے کا حقدار ہوتا ہے اور یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ کاروبار زندگی ہو یا امور سلطنت، ان کو چلانے کیلئے تعلیم سے زیادہ فہم و فراست کی ضرورت ہوتی ہے اور فہم و فراست اللہ تعالیٰ کی دین ہوتی ہے۔ وہ جسے چاہے سرفراز کرے جبکہ تعلیم دنیاوی وسیلوں سے حاصل کی جاتی ہے چنانچہ تعلیم، فہم و فراست رکھنے والے لوگوں کیلئے اضافی صلاحیت تو ہو سکتی ہے ضروری نہیں۔ ہم دیہات کے رہنے والے ہیں۔ اپنے ان دیہاتوں میں ایسے صاحب عقل و دانش اور فہم و فراست دیکھے ہیں جنہوں نے کسی سکول کا دروازہ تک نہیں دیکھا لیکن معاملہ فہمی اور دنیاداری کے معاملے طے کرنے میں اس قدر وہ یکتا ہوتے ہیں کہ ڈگریوں والے ان کے مقابلے میں کیا ہونگے۔ شہنشاہ اکبر نے برصغیر ہند پر سب سے لمبی اور عمدہ حکمرانی کی، وہ کورا ان پڑھ تھا۔
ہمارے اپنے گھر میں جہاں بحمدللہ ایک درجن سے زائد ملکی اور غیر ملکی ڈگریاں موجود ہیں وہاں امور خانہ داری اور خاندانی معاملات بطریق احسن چلانے والی ایسی خاتون ہے جو کسی بھی ادارتی ڈگری سے بے نیاز ہے لیکن ہمیں یہاں اعتراض بلکہ دکھ یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے اگر ایسی کوئی ناجائز شرط عائد کر دی تھی تو ہمارے ان متوقع ممبران جن کا آئین کی رو سے امین اور صادق یعنی سچا اور دیانت دار ہونا لازم تھا، اس قدر کمزور، بدکردار اور کمزور ایمان کے مالک نکلے کہ محض اقتدار کی خاطر وہ جعل سازی کی راہ پر چل نکلے۔ ان میں اخلاقی جرات ہوتی تو وہ اس ڈکٹیٹرانہ اقدام کے آگے ڈٹ جاتے یا پھر انتخاب ہی نہ لڑتے لیکن ان کے اخلاقی دیوالیہ پن نے انہیں ایسا کرنے سے بھی معذور رکھا اور وہ اس جرم کے مرتکب ہوئے جو تعزیرات پاکستان کی رو سے قابل سزا ہے اور وہ تو قانون بنانے والے ہی نہیں، قانون کے رکھوالوں میں بھی شامل تھے۔ انہوں نے اگر ایسا کیا تو بہت برا کیا اور اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت انہیں لاکھ بچانا چاہے، بچا نہیں سکے گی۔ دیوار پر یہ لکھا اب سب کو نظر آرہا ہے کہ جیل ان کا مقدر بن چکی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس وقت 160 پاکستانی شہری، ڈگریوں کی جعل سازی کے جرم میں ملک بھر کی جیلوں میں پڑے سزا بھگت رہے ہیں تو اب یہ بھی کیا منظر ہوگا جب ہمارے قانون ساز اداروں کے یہ ممبران بھی ان میں شامل ہو جائیں گے اور یہ سب مل کر جیل کی چکی پیسیں گے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے حسب سابق اپنے ان ”ساتھیوں“ کی اس سزا کو معاف کر دیں تو یہاں ان بے سہارا قیدی شہریوں کا بھی بھلا ہو جائے گا کہ ان کے ساتھ انہیں بھی سزا سے نجات مل جائے گی اور یہ سلسلہ چل نکلا تو آگے چل کر نہ جانے کون کون سے قیدیوں کو آزادی نصیب ہوگی۔ یہ ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے جرائم اور ان کی سزاﺅں پر منحصر ہے۔