کہتے ہیں دوسری جنگ عظیم کا دور تھا، ونسٹن چرچل برطانیہ کا وزیراعظم تھا اور قریب تھا کہ برطانوی افواج جرمن افواج کے آگے ہتھیار ڈال دیتیں۔ اسی اثناء ایک دن ونسٹن چرچل باہر عوام میں نکلا جہاں ان ابتر حالات کا ذکر کرتے ایک شخص نے اس سے ملکی صورت حال پر پریشانی کا اظہار کیا توچرچل نے اس شخص سے پوچھا،’’کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں‘‘۔ جس کے جواب میں اسے بتایا گیا کہ عدالتوں میں جج موجود ہیں اور لوگوں کو انصاف فراہم کر رہے ہیں۔ چرچل نے کہا کہ رب کا شکر ہے، جب تک عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں کچھ غلط نہیں ہو سکتا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس بھی ملک میں انصاف میسر نہ ہو وہاں طبقاتی تفریق اتنی وسیع ہو جاتی ہے جو ایک اسٹیج پر آ کر معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہے اور جہاں معاشرتی بگاڑ ایک دفعہ اپنے پنجے گاڑ لے تو پھر اس ریاست کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ یہ ہے وہ فلسفہ جسکی بنیاد پر چرچل نے کہا تھا کہ جب تک عدالتوں میں جج موجود ہیں اور عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں کچھ غلط نہیں ہو سکتا۔ چرچل کے اس تاریخی جملے میں کہے گئے الفاظ کی روشنی میں جب ہم اپنے ملک کے نظام عدل کا جائزہ لیتے ہیں تو پھر اس سباق دنیا کے 142 ممالک کی فہرست میں اپنے ملک کو 129 ویں نمبر پر انصاف کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اس قحط الرجال کا ذمہ دار کون ! لیکن اس حقیقت کے باوجود دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آج کے اس قحط الرجال میں بھی کچھ لوگ تو ایسے ہیں جنکے حْسنِ کارکردگی کی بدولت آج بھی ہم اس ہزیمت سے بچے ہوئے ہیں جب ہمارا نمبر 129 کی بجائے 142 ویں نمبر پر ہوتا۔ پچھلے ہفتے کی بات ہے رات ٹی وی پر بیٹھے ایک نیوز کلپ آنکھوں کے سامنے سے گزرا جس میں وفاقی ٹیکس محتسب صدر مملکت کو اپنے ادارے کی کارکردگی کی سال 2024ء کی رپورٹ پیش کر رہے تھے۔ غور سے دیکھا تو یاد آیا کہ یہ تو وہ صاحب ہیں جنہیں 2015ء اور 2021ء دو دفعہ متحارب سیاسی پارٹیوں کے دور اقتدار میں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز جیسے خصوصی ایوارڈوں سے نوازا گیا ہے۔صحافتی حس پھڑکی کہ ان صاحب میں کونسی صفات ہیں جو یہ ایک دفعہ نہیں دو دفعہ ارباب اقتدار کی نظروں میں معتبر ٹھہرے۔ تھوڑی سی تحقیق کی تو پتا چلا کہ ان صاحب کے رفاعی کاموں اور تخلیقی تحریروں پر بہت کچھ لکھا جا چکا، سوچا یہ بھی تو دیکھیں کیا ان صاحب میں موجود انتظامی صلاحیتیں بھی اسی معراج پر ہیں جو ان صاحب کو وفاقی ٹیکس محتسب جیسے باوقار عہدے پر بیٹھنے کاْسبب بنیں اور مزید براں یہ بھی دیکھا جائے کہ کیا یہ صاحب اپنے دوسرے کاموں کی طرح اس عہدے سے بھی انصاف کر رہے ہیں۔
قارئین! اس سباق وفاقی ٹیکس محتسب کے ادارے کی سالانہ رپورٹ برائے 2024ء ظاہر کرتی ہے کہ امسال 13506 شکایت کندگان نے اپنی شکایت کے ازالے اور داد رسی کیلئے ایف ٹی او کے آفس سے رجوع کیا جن میں 12914 شکایتوں کے فیصلے ہوئے۔ اس رپورٹ میں ایک توجہ طلب بات نظر آتی ہے کہ جب سال 2024ء میں ایف ٹی او کے دفتر سے 13500 مپلینٹس کی فیصلے ہوتے ہیں تو ان میں صرف 336 ایسے فیصلے ہوتے ہیں جو صدر مملکت کے ہاں چیلنج ہوتے ہیں جہاں 2023ء کے کیس بھی ملا کر 379 کیسز کی شنوائی ہوتی ہے جس میں 326 کیسز کے فیصلوں میں ایف ٹی او کے فیصلوں کو ہی برقرار رکھا جاتا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ایف ٹی او کے دفتر کے فیصلے قانون کی نظر میں کتنے پائیدار اور صحت کے لحاظ سے کتنے معتبر گنے جا رہے ہیں۔ سالانہ رپورٹ 2024ء سے ایک بات اور واضع ہوتی ہے کہ ایف ٹی او آفس صرف شکایات پر فیصلے ہی نہیں دیتا بلکہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد بھی کرواتا ہے اور اس سباق کامیابی کا تناسب 94.7 فیصد کے اعداد و شمار بتاتا ہے۔اہل نظر کہتے ہیں کہ کسی بھی ادارے پر عوام کا اعتماد اس ادارے کی کارکردگی سے ظاہر ہوتا ہے۔ دستیاب حقائق بتاتے ہیں کہ موجودہ وفاقی محتسب نے 2021ء میں جب اس ادارے کا چارج سنبھالا تو اس وقت اس ادارے سے رجوع کرنے والے سائیلین کی تعداد 2816 تھی جو 2024ء میں 13506 کے فگر کو ٹچ کر گئی۔ سوچنے کی بات ہے ایسا کیوں؟ صاف ظاہر ہے کہ یہ جب ٹیکس دہندہ دیکھتا ہے کہ اسکی شکایات کی مناسب شنوائی اور داد رسی ہو رہی ہے تو وہ پھر اسی فورم سے رجوع کرتا ہے۔ یہ سب افسانوی باتیں نہیں۔ صدر مملکت کو پیش کی گئی رپورٹ بتاتی ہے کہ ایف ٹی او کے فیصلوں سے سائیلین کو 22.79 بلین روپے واپس ملے ہیں اور اس پر کمال یہ ہے کہ 2024ء کی رپورٹ بتاتی ہے کہ شکایت درج ہونے کے 34.11 دن کے اندر شکایت کنندہ کو انصاف بھی ملا۔ یہ تو تھی ملک کے اندر بسنے والوں کی داد رسی کی کہانی جو ایف ٹی او کے ادارے نے مہیا کی جبکہ اسی دوران بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہے جس نے اپنی شکایات کے ازالے کیلئے اس دفتر سے رابطہ کیا۔
قارئین ادارے ایسے ہی توانا نہیں ہوتے۔ اداروں کو مضبوط کرتا ہے اسکے اندر کا ڈسپلن اور اعتماد، وہ اعتماد جو ایک طرف آپ عوام کو دیتے ہیں اور دوسرا وہ جو آپ اپنے کولیگز اور ملازمین کو دیتے ہیں۔ مینجمنٹ سائنس میں ایک تھیوری بہت مقبول اور effective ہے کہ آپ اپنے ملازمین کو وہ احساس دیں کہ وہ اپنے آپکو اس ادارے کا حصہ سمجھیں اور راقم کے خیال میں اس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر آصف جاہ جو اپنی درویشی کی وجہ سے اب ایک برینڈ کے طور پر جانے جاتے ہیں یقیناً اسی تھیوری پر عمل کر رہی ہوں گے۔ اور یہ انکی انتظامی صلاحیتوں کا ہی کمال ہو گا جو یہ ادارہ اپنی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔
عوام کا اعتماد ادارے کی معراج
Jan 29, 2025