ہم ، ہمارے ادارے اور ہمارا نظام

ہمارے درویش صفت ریٹائرڈ پولیس آفیسر غلام عباس اپنی پولیس کے بارے میںا کثر ویلڈن کا جملہ استعمال کرتے ہیں ۔ میں بھی شیخ رشید احمد کے بارے میں وہی جملہ ‘غلام عباس کی اجازت کے بغیر استعمال کر رہا ہوں ۔ معلوم نہیں میرے ساتھ بعد میں کیا ہو گا‘کچھ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ پولیس انکی اپنی ہے اور میں خالی ہاتھ۔ سانحہ مری کا ایسا غم ہے جسے بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس پر لکھی گئی میری کاوش’’ سیاحوں کی تربیت بھی کیجئے‘‘۔ چھپنے کے بعد کئی دوستوں نے توجہ دلائی کہ اس میں کئی حقائق رہ گئے ۔حقیقت ہے کہ برفانی طوفان کے باوجود اگر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد جرات کا مظاہرہ کر کے بروقت مری نہ پہنچتے تو جانی نقصان زیادہ ہو سکتا تھا۔ ملک کو معرض وجود میں آئے ہوئے 74 برس بیت گئے مگر ہمارے ادارے ہمارا نظام اور ہمارے عوام ابھی تک اصلاح کے موڈ میں نہیں ۔ صرف ایک منظم اور مضبوط ادارہ فوج کا ہے جو ہر وقت وطن عزیز کے عوام کی خدمت کیلئے تیار رہتی ہے ۔ مری میں بھی فوج کی بروقت مدد سے بڑے جانی نقصان سے عوام کو بچا لیا گیا ۔ کہتے ہیں فیصلہ کرنے میں تاخیر مشکلات کا سبب بنتی ہے خدمت لینے اور خدمت کرنے میں جلد بازی ضرور ہونی چاہیے ۔ جیسے فوج نے مری میں کردار ادا کیا۔ افسوس کا مقام ہے کہ سیاسی وابستگیاں ہمیں حقائق کی تعریف کرنے میں بخل سے کام لینے پر مجبور کرتی ہیں‘ہونا چاہیے کہ اچھا کام کوئی بھی کرے اس کی تعریف کی جانی چاہیے ۔ اگر معاشرے میں رواداری اور حقیقت کو تسلیم کرنیکا رواج پا جائے تو معاشرے کی کافی اصلاح ہو سکتی ہے ۔ شیخ رشید احمد عوامی لیڈر ہیں بروقت مری پہنچ کر انہوں نے جو
کردار ادا کیا‘ اسے ضرور سراہا جائیگا۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے خدمت کے دو واقعات کا یہاں تذکرہ کیا جا رہا ہے ۔ چھٹی گزارنے کے بعد جب میں ریاض پہنچا تو معلوم ہوا کہ ائیرپورٹ سے شہر جانے کیلئے ریال گھر بھول آیا ہوں ۔ چنانچہ قریب کھڑے ایک سادہ سے نوجوان سے میں نے پوچھا کہ کدھر جانا ہے اس نے کہا کہ الریاض تمیں کون لینے آئیگا اس نے کہا کہ گائوں کا لڑکا آئیگا۔تھوڑی دیر کے بعد ایک لڑکا آیا اس نے بیگ اٹھایا ‘میں نے کہا کہ میں نے بھی الریاض جانا ہے اس نے کہا آ جائو‘ پارکنگ میں گاڑی کے پاس جا کر اس نے دروازہ کھولا ‘میں اور نیا آنیوالا دونوں پچھلی سیٹ پربیٹھ گئے ۔ کفیل نے پوچھا مزدور کون ہے ؟ لڑکے نے دوسرے آدمی کی طرف اشارہ کیا اس نے کہا کہ دوسرا کون ہے ۔ یہ میرا دوست ہے ۔ کفیل نے کہا مرحبا ‘ بہرکیف آگے جا کر سعودی نے ہمیں رانی جوس اور کیلے کھلائے گاڑی چلتی رہی ۔ الریاض کے قریب جا کر اس لڑکے نے کہا آگے سٹاپ آئیگا وہاں آپ اتر جائیں ‘بس آئیگی اور آپ صرف2 ریال میں منزل مقصود پر پہنچ جائینگے ۔ زبردستی مجھے20 ریال دیئے خدمت میں نے ان سے لی لیکن گاڑی سے اتارتے وقت سعودی کفیل نے میرا شکریہ ادا کیا اور سلام کیا۔ اس واقعہ سے بہت سارا اخلاقی سبق سیکھا جا سکتاہے مگر ہمیں سبق یاد کرنیکی ضرورت نہیں کیونکہ ابھی تک غیر سنجیدگی کا ماحول چل رہا ہے ۔ میرے ملک میں لینے اور دینے والا دونوں ڈرتے ہیں ۔ خلیج اور یورپ میں دکاندار گاہک کا شکریہ ادا کرتے ہیں ہمارے ہاں گاہک شکریہ ادا کرتے ہیں اگر دکاندار گاہک کا شکریہ ادا کرے تو اس کی توہین ہے ۔دوسرا واقعہ مارشل ٹیٹو جو یوگوسلاویہ کا حکمران تھا ۔اس کے دارالخلافہ بلغراد شہر کا ہے ۔ دسمبر 1977 ء میں استنبول سے ہماری ٹرین رات کو بلغراد پہنچی ۔ اس وقت بلغراد میں سناٹا اور شدید برفباری ہو رہی تھی ۔ ہوٹل تک نہ پہنچنے کی وجہ سے مجبوراً شدید برفانی رات اسٹیشن پر گزارنا پڑی ۔ ٹھنڈ سے برا حال رات کے کسی حصے میں ایک بڑا ہال کھولا گیا اس ہال میں کالے ‘گورے ‘جوان بوڑھے مرد عورتیں اور بچوں نے پناہ لی ۔ کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہوئی ۔ مارشل ٹیٹو کی قوم نے مری کے ہوٹل مالکان کو سبق دیا کہ دنیاوی لالچ کی بجائے مشکل حالات میں فوری طور پر انسانیت کو بچانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دنیاوی مفادات کسی دوسرے عام حالات میں حاصل کیے جا سکتے ہیں مگر برفباری میں مارشل ٹیٹو کی قوم کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ دکھ کی بات ہے کہ ہم نے اخلاقیات کا جنازہ نکال کر دولت کو مقدم رکھا ہے اگر مری کے ہوٹل مالکان انسانوں کو بچانے کیلئے اپنے ہوٹلوں کے دروازے ‘ہال اور جو بھی محفوظ جگہ ان کے پاس تھی استعمال کی عام اجازت دیتے تو برفانی طوفان سے سیاح بچ سکتے تھے ۔ مگر افسوس کہ ایسا کوئی کردار ادا نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کے سامنے اور بچے والدین کے سامنے موت کی آغوش میں چلے گئے ۔ برف کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ کیلئے دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔ قدرت نے مری کے برف پوش پہاڑوں میں دکھ کی ایک اور داستان چھوڑی ہے ۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی تدفین پر ایک اخبار نے سرخی لگائی تھی کہ بے نظیر بھٹو مٹی کی چادر اوڑھ کر والد کے پہلو میں سو گئی ۔ ایسے ہی مری کے سیاحوں کیساتھ ہوا۔ ہم بحیثیت قوم ایک انتہائی غیر سنجیدہ ہیں کوئی اچھا نظام اپنانے کی ہمیں عادت نہیں معلوم نہیں کب حالات درست ہونگے کئی سانحات ہونیکے باوجود ہم نے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ بقول غالب
یوں ہی اگر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو کہ ویران ہو گئیں